اللہ پاک سورہ یونس میں فرماتا ہے کہ عذاب کو دیکھ لینے کے بعد کسی بستی کو اس کے ایمان نے نفع نہیں دیا ،سوائے یونس کی قوم کے، جب وہ ایمان لائے تو ہم نے ان سے دنیا کی زندگی کے رسوا کن عذاب کو ٹال دیا اور ان کو ایک وقت مقررتک مہلت دے دی ـ یونس ۹۸
[
فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ ـ یونس ۹۸]
اللہ کا قانون یہ تھا کہ جب وہ کسی قوم پر عذاب کا فیصلہ فرما لیتا تو نبی کو وحی بھیجتا کہ اب تم بستی چھوڑدو ـ سرکاری آفس بند ،، بےشک عذاب سامنے ہو اور قوم ہلاک ہو رہی ھو، نبی یا رسول کو وہاں سے نکالنا اللہ پاک کی ذمہ داری ہے اور اللہ پاک نے وہ ذمہ داری پوری فرمائی ،، یونس علیہ السلام نے قوم کو عذاب کی وعید سنائی اور اس اجتہاد پر بستی چھوڑ دی کہ جب عذاب کا فیصلہ ہو گیا ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم میں مزید کسی فرد کے مسلمان ہونے کا کوئی امکان نہیں رہا ،لہذا میرا یہاں اب رہنا بنتا نہیں ، آپ نے اللہ کا حکم آنے سے پہلے بستی چھوڑ دی ـ جبکہ اللہ پاک کا سرکاری دفتر کھلا تھا ـ قوم یونس علیہ السلام کے گھر کے باھر جمع ہو کر توبہ تائب کرنے لگی مگر یونس علیہ السلام تو دفتر میں تھے ہی نہیں ، اب اللہ پاک نے دفتر براہ راست خود سنبھال لیا اور مجرد اس قانونی نکتے کی بنیاد پر قوم یونس کی توبہ قبول فرما لی کہ اس بستی کے رسول نے غیر سرکاری طور پر دفتر خالی کر کے ایک قانونی سقم پیدا کر دیا اور اللہ پاک کو معاملہ براہ راست خود اپنے ہاتھ میں لینا پڑا اور شک کا فائدہ ملزم قوم کو دے کر ان کی توبہ قبول فرما لی اور یونس علیہ السلام کی گرفت فرمائی ،، یونس علیہ السلام کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ اللہ کے حکم کے بغیر بستی چھوڑ کر میں نے غلطی کر دی ہے اور فورا اقرار کر کے معافی مانگی ـ
ایک روایت کے مطابق جب فرعون غرق ہونے لگا تو اس نے کلمہ پڑھنے کی کوشش کی ، مگر اللہ کا نام نہ لے سکا اور کہا کہ میں ایمان لایا اس پر جس کو پوجتے ہیں بنی اسرائیل ـ ،، مگر جبرائیل کو یہ خدشہ تھا کہ اگر اس نے اللہ کا نام لے لیا تو اللہ پاک کی رحمت جوش میں آئے گی اور یہ بخش دیا جائے گا ، لہذا انہوں نے گارا اس کے منہ میں دے دیا اور رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ گویا میں دیکھ رہا ہوں ،،
جب ہم کسی کی طبعی موت کی بجائے اس کو قتل کر دیتے ہیں تو نہ صرف اس کی زندگی چراتے ہیں بلکہ اس کے مواقع بھی چرا لیتے ہیں ، جن میں توبہ کا موقع بھی شامل ہے ،، ہو سکتا ہے اگلے دن یا اگلے ماہ یا اگلے سال اس بندے نے توبہ کرنی تھی ،آپ نے اس کو مار کر قانونی سقم پیدا کر دیا وہ سقم جو اللہ پاک اپنے رسولوں سے برداشت نہیں کرتا ، یوں معاملہ براہ راست اللہ کے ہاتھ میں چلا گیا اور وہ شک کا فائدہ ملزم کو دے کر اس کے وہ گناہ جو اس کی متوقع توبہ سے معاف ہونے تھے وہ قاتل کے کھاتے میں ڈال کر اس مقتول کو بخش دے ـ
میرا ایک سگا بھائی جو ۱۸ سال کا تھا اور ایک چچا زاد ، خالہ زاد اور برادر نسبتی جو ۲۲ سال کا تھا دن دیہاڑے قتل کیئے گئے ـ جب میں تھانے گیا تو وہ قاتل اپنے والد اور بھائی کے ساتھ وہاں لاک اپ میں تھا ،میرے پاس پستول بھی تھا وہ لاک اپ سے مجھے گالیاں بھی دے رہا تھا ، تھانیدار کا مشورہ بھی تھا کہ دو کے بدلے دو بندے پھڑکا دو اس نے جان بوجھ کر مجھے لاک اپ کی طرف بھیجا تھا کہ میں مشتعل ہو کر اس کو مار دونگا ،، مگر الحمد للہ ، ثم الحمد للہ ، میں نے شریعت کی اجازت کے باوجود جو مجھے قاتل کو مارنے کا حق دیتی ہے ،میں نے قانون کا احترام کیا اور اپنے دیگر رشتے داروں کو بھی قانون ہاتھ میں لینے سے منع کرتا رہا ،،
[وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا (33) بنی اسرائیل
گیارہ سال کی عدالتی خواری کے بعد وہ موقع آیا کہ وہ پھندے کے سامنے تھا ـ
جب میں خود قانون ہاتھ میں نہیں لیتا تو میں کسی کا بھی قانون ہاتھ میں لینا پسند نہیں کرتا ، میں ہمیشہ اس قسم کے واقعات کی مذمت کرتا رہونگا چاہے مجھے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے ،،
قاری حنیف ڈار ـ