ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہونی چاہئے کہ ہماری اولاد ہم سے زیادہ جانتی ہے, یہ اولاد کا پہلا حق ہے،اور ان کی اولاد ان سے زیادہ ذہین و فطین ہو گی۔ گھروں میں اولاد اور والدین میں سرد جنگ اسی لئے چلتی ہے کہ والد خود کو رب الاسرہ نہیں سمجھتا بلکہ مجازی خدا سمجھتا ہے۔ رب الاسرہ کا مطلب ہے گھر کو فیڈ کرنے والا،انکی ضروریات کو پورا کرنے والا، نہ کہ اولاد سے زیادہ جاننے والا۔ ہم اولاد پر پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہیں تا کہ وہ ہم سے زیادہ جان لے، اور جب وہ ہم سے زیادہ جان لیتی ہے تو ہم اس حقیقت کا سامنا کرنے اور اس کو تسلیم کرنے کی بجائے اس کے دشمن بن جاتے ہیں اور اس کو اپنا دشمن بنا لیتے ہیں، وجہ پرسنلٹی کلیش ہے۔ہماری دلیل یہ ہوتی ہے کہ چونکہ میں تمہارا باپ ہوں اور میں نے تم پر پیسہ خرچ کیا ہے لہذا میں تم سے زیادہ جانتا ہوں اور تمہارے تو ابھی دودھ کے دانت نہیں ٹوٹے وغیرہ وغیرہ۔ اگر آپ اپنے بیٹے سے زیادہ جانتے ہوتے تو اس کے سوالوں کے جواب دے سکتے,یہ ظلم ہے اولاد کے ساتھ کہ علم کا سمندر ان میں بھر کر,ہم اپنی ذات کو اس سمندر کے منہ پر ڈھکن کی طرح فٹ کر کے اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ہم اولاد سے مشورہ نہیں کرتے اس زعم میں کہ یہ جانتا کیا ہے؟ جبکہ آٹھویں کلاس کے بعد ہم پیچھے رہ جاتے ہیں اور بچہ آگے نکل جاتا ہے۔ میٹرک تک گھر میں سرد جنگ شروع ھو جاتی ھے, والدین کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو جاتے ہیں اور والدین تعویذ دھاگے اور دم درود والوں کے پاس جانا شروع کر دیتے ہیں کہ ہمارے بچےکو جن چمٹ گیا ہے،یا اس کا دماغ پھر گیا ہے یا پتہ نہیں اس پرکسی نے تعویز کر دیا ہے یا اس نے کسی درخت کے نیچے پیشاب کر دیا ہے کہ کل تک وہ ہمارا مطیع و فرمانبردار تھا مگر اچانک باغی بن گیا ہے۔ اصل میں اس کا جن ہم ہی ہوتے ہیں جو اس چمٹ کر اس کی شخصیت کی نفی کر کے اپنا آپ اس میں انسٹال کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اور وہ اس انسٹالیشن کی مزاحمت کر رہا ہوتا ہے کہ ابا جی آپ کی یہ App اس ڈیوائس پر انسٹال نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ آؤٹ آف ڈیٹ ہے۔ آپ ہمیں انسٹال کیجئے کہ ہم Latest version ہیں۔
والدین نے اولاد پر کتنا اور کس قسم کے مشکل حالات میں خرچ کیا ہے، یہ اولاد کو بھولا نہیں ہوتا کہ بار بار لعن طعن کر کے ان کو اذیت سے دوچار کیا جائے۔ اولاد خود بھی سب یاد کر کے ڈی پریس رہتی ہے کہ کس طرح والدین کا قرض چکائے، خاص طور پر گریجویشن کے بعد کے دو تین سال قیامت خیز ہوتے ہیں۔ والدین کے نزدیک گریجویشن کے دوسرے دن جاب ملنی چاہئے۔ بچے کے پاس ڈگری ہوتی ہے تجربہ نہیں ہوتا، لہذا کوئی گھاس نہیں ڈالتا،سفارش اور پیسہ چلتا ہے، بچہ والدین کے منہ لگنے سے کتراتا اور نظر بچا کر گزرتا ہے۔ اس کی خود اعتمادی کا بینڈ بج جاتا ہے, یہ ایسا نازک دور ہوتا ہے کہ والدین کو جاب بارے سوال ہی نہیں کرنا چاہئے۔ جب جاب ہو گا تو بیٹا سب سے پہلے آپ کو خبر دے گا، روز روز پوچھ کر بچے کو شرمندہ مت کریں۔