آؤ ذرا حشر بپا کر لیں !
اگر ھماری عمر اپنی نبی پاکﷺ جتنی ھو تو !
8 گھنٹے ڈیوٹی کے = 21 سال-
8 گھنٹے سونے کے= 21 سال-
باقی بچ گئے 21 سال !
اس میں سے 15 سال بلوغت کےنکال دیجئے !
باقی بچے صرف 6 سال-
ان چھ سالوں میں کتنے خیبر ھم فتح کر لیتے ھیں ؟ جو اللہ پر احسان چڑھائے پھرتے ھیں اپنی عبادات کا ؟؟
ایک گھنٹہ فی دن اللہ کی عبادت کا نکال لیں،کیونکہ ایک گھنٹے میں ساری نمازیں پڑھ لی جاتی ھیں ! اس طرح 2 سال 6 ماہ اور 25 دن عبادت کی ھے ! بشرطیکہ آپکی عمر 63 سال ھو ! یہ دو سال 6 ماہ اور 25 دن بھی مقدار ھے معیار نہیں ھے،، اس میں قبول کیئے جانے کے قابل کتنی ھوں گی وہ اللہ ھی جانتا ھے ! اور اور کتنی پرانے کپڑے کی مانند لپیٹ کر منہ پر مار دی جائیں گی اور اللہ کی توھین قرار پائیں گی وہ اللہ ھی جانتا ھے ! یہ حساب نکال کے آپ کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور ھم اپنی عبادت سے خود شرما جائیں گے،، پھر نعمتوں کے ڈھیر دکھائے جائیں گے،، اور پھر کہا جائے گا اپنی عبادت کو میری نعمتوں پر پیش کرو،، جو بچ جائے گی وہ تول لی جائے گی ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سب سے کمزور نعمت سے کہا جائے گا آگے بڑھو اور اپنا حق وصول کرو،، وہ نعمت ایک لقمے میں اس عبادت کو ھڑپ کر جائے گی اور شکوہ کرے گی پروردگار میرا حق ادا نہیں ھوا !! اس وقت انسان کو اپنی عبادت کی حقارت اور بے وقعتی کا احساس ھو گا،، سوائے اس کے کہ اللہ یا تو اپنی نعمتیں معاف کر دے اور ان کو ھدیہ بنا دے،، یا ان نعمتوں کا حق اپنے فضل سے ادا کر دے ،، اور کوئی راہ جنت جانے کی نہیں ھے ! یہ ھے وہ بات جو اللہ کے رسولﷺ نے فرمائی ھے کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے عملوں سے جنت میں نہیں جائے گا بلکہ اللہ کے فضل سے جائے گا،، سو عبادت کا مطمع نظر رب کی رضا رکھو،، جنت نہ رکھو!! رب کی رضا کا سرٹیفیکیٹ ھاتھ میں ھوا تو بس وارے نیارے،، اسی سے صحابہ کی فضیلت کا اندازہ کریں کہ جن کو یہ رضا کا سرٹیفیکیٹ کر کے قرآن میں ثبت کردیا گیا،، رضی اللہ عنہم و رضو عنہ،، اب اس کا فوری علاج تو یہ ھے کہ نیند والے 21 سال بھی عبادت بنا لیئے جائیں ! اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص عشاء جماعت کے ساتھ پڑھ کر سوتا ھے اس کی آدھی رات کا قیام لکھا جاتا ھے اور جو فجر بھی جماعت کے ساتھ پڑھتا ھے اس کی ساری رات کا قیام لکھا جاتا ھے ! ڈیوٹی کے 21 سال بھی عبادت بنا لو ،، دیانت کے ساتھ جتنے گھنٹے کا کنٹریکٹ ھے اتنے گھنٹے کام کرو اور اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ کرو،،جتنا وقت ڈیوٹی کے دوران نماز پہ صرف کرتے ھو ،،وہ واپس پلٹا کر دیا کرو یعنی اتنا وقت ایکسٹرا کام کیا کرو ! ایک صاحب پوچھتے ھیں کہ ھم نماز کس طرح پڑھیں کہ وہ قبول ھو جائیں اور رب کی توھین قرار نہ پائیں ! تو گزارش کی کہ !! کہ سب سے پہلے اپنی پوری جان پورے دل کے ساتھ اپنے رب کے حضور حاضر ھو جاؤ،، اس کی عظمت اور اپنی بے وقعتی کا خیال رکھتے ھوئے، دل کی گہرائیوں سے اس کی تعریف و توصیف کرو،، وہ دل پہ نظر رکھے ھوئے ھے،تجوید میں کوئی کمی بیشی ھوئی بھی تو وہ درگزر کر دے گا ،خلوص میں کمی قبول نہیں کرے گا،، اس کی رحمت کے گُن گاتے ھوئے اپنے گناھوں کی گٹھڑی اس کے قدموں میں رکھ دیں ،، نظر نیچی رکھو،، اپنی اچھائی کو بھی اسی کی طرف منسوب کرو،،اللہ میں کب کر سکتا تھا،،یہ تیرا کرم ھے کہ تو نے نیکی کرا لی،،مصطفیﷺ جیسی ھستی فرماتی ھے،، اللھم لا یأتی بالحسناتِ الا انت،، ائے اللہ ھم نیکی کرتے نہیں تو کر لیتا ھے،تو نیکیوں کو گھیر گھیر کے لاتا ھے ،، ولا یدفع السیئاتِ الا انت،، اور ھم برائیوں سے بچتے نہیں بلکہ تو ھمیں بچاتا ھے،، ! رب کو سامنے بٹھا کے اس کے قدموں پہ سر رکھ دو،،کچھ ھونٹوں اور زبان سے کہو،، کچھ آنسوؤں سے کہو اور کچھ دل سے کہو،، سسکیوں کو الفاظ کا روپ اسی کو دینے دو ،، دیکھو وہ فرشتوں کو ان کا ترجمہ کیا لکھواتا ھے،، آخر گونگوں کی آھوں کو بھی تو نوٹ کرواتا ھو گا،، کوئی الفاظ دیتا ھو گا ؟ اس طرح اسے راضی کر لو ،، ساتھ چلنے پہ راضی کر لو،، اس سے مل ملا کے سارے چلے جاتے ھیں کوئی اسے ساتھ لے جانے کو تیار نہیں ھے کیونکہ اس طرح ان کے کاروبار اور گھر بار نہیں چلتے،، اللہ کو ساتھ دکان پر بٹھا کر جھوٹی قسمیں نہیں کھائی جا سکتیں،، اسے پاس بٹھا کر بلیو پرنٹ نہیں دیکھے جا سکتے،،بیوی بچوں کو گالیاں نہیں دی جا سکتیں،، اس لئے لوگ اس سے مسجد میں ھی مل کر فاورغ ھو جاتے ھیں ،جس طرح لوگ اپنے ماں باپ سے اولڈ ھاوسز میں ھی جھٹ گھڑی مل ملا کر واپس آ جاتے ھیں ،،جبکہ وہ ترستے رھتے ھیں کہ کوئی انہیں گھر بھی لے جائے ! یار ھندوؤں کو نہیں دیکھتے کہ ان کا مٹی کا سہی مگر ان کی دکان اور گھر میں ان کے سامنے رکھا ھوتا ھے،،پھر تو اسے دکان اور گھر میں لانے سے کیوں ڈرتا ھے ! اسے سامنے بٹھا کر تجارت کر تا کہ تیری تجارت بھی عبادت بن جائے،، تیرا گھر مسجد کی طرح پاک ھو جائے،بادشاہ جہاں ڈیرہ لگاتے ھیں،، وہ جگہ تخت بن جاتی ھے،، رب دل میں ھو تو دل کعبہ بن جاتا ھے،،گھر میں ھو تو مسجد بن جاتا ھے ، حسن بصری کو نہیں دیکھتے وہ بلک بلک کر کہتے ھیں مالک صرف ایک سجدے کایقین آ جائے کہ تو نے قبول کر لیا ھے تو مجھے یقین ھو جائے کہ جن اعضاء کا سجدہ تو نے قبول کر لیا ھے،انہیں تو کبھی آگ میں نہیں پھینکے گا !