مرید نے مرشد کو اچھے موڈ میں دیکھا تو با ادب ھو کر گویا ھوا ! میرے مرشد مجھے عرقِ حیات کے متعلق تو کچھ بتائیے ،کیا اسی کو آبِ حیات کہتے ھیں؟ اور اس پانی کا چشمہ پھوٹتا کہاں سے ھے ؟؟؟ مرشــد نے گہری نظر سے مرید کی طرف دیکھا اور سوچ میں ڈوب گیا،جب کافی دیر گزر گئ تو مرید کو یوں لگا جیسے اس نے اپنے مرشد کو ناراض کر دیا ھے،، وہ پھر ڈرتے ڈرتے بولا، حضرت جی اگر میرے سوال سے آپ کو کوفت ھوئی ھے تو میں معافی کا طلبگار ھوں ! ایک لمبی ‘ "ھـُـــــــوں” کے بعد مرشد نے نرمی سے بولا، نہیں میں ناراض تو نہیں ھوا مگر فکرمند ضرور ھوں ،،میں نے جب یہ سوال اپنے مرشد سے کیا تھا تو ھمارے درمیان 12 سال کی طویل جدائی پڑ گئ تھی ،،میں سوچ یہ رھا تھا کہ پتہ نہیں میں تمہاری یہ طویل جدائی برداشت کر سکوں گا بھی یا نہیں،، اس دوران اگر میری اجل آگئ تو کہیں تمہاری محنت ضائع نہ ھو جائے،، بیٹا یہ عرقِ حیات یا آبِ حیات ،، یہ الفاط میں نہیں سمجھایا جا سکتا،، سمجھاؤ تو سمجھ نہیں آتا ! اس لئے میرا مرشد تو آب حیات کے چشمے کےکنارے کھڑا کر کے ،اس میں انگلی ڈبو کر دکھایا کرتا تھا کہ یہ ھے عرقِ حیات !! میں نے یہ سوال اپنے مرشد سے ان کی جوانی میں پوچھ لیا تھا ،، تم نے بہت دیر کر دی ھے،، خیر اللہ بہتر کرے گا،، میں تمہیں ایک پودا دکھاتا ھوں ،، اس پودے کے پھول کا عرق تم نے ایک چھوٹی شیشی میں بھرنا ھے اور جب یہ شیشی بھر جائے تب میرے پاس واپس آنا ھے،، یہ عرق ھی ھماری آنکھوں میں عرقِ حیات کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرے گا !!یاد رکھنا ایک پھول سے صرف ایک قطرہ رس نکلتا ھے ، اور اگر شیشی فوراً بند نہ کرو تو فوراً اڑ بھی جاتا ھے،، اور یہ پودا جنگل میں کہیں کہیں ملتا ھے ! اس کے بعد مرشد نے ایک درمیانے سائز کی شیشی اپنے مرید کو پکڑائی اور اسے ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ رخصت کر دیا ! مرید بہت پرجوش تھا،، آبِ حیات کا معمہ بس حل ھونے کو تھا ، اور اسے آبِ حیات کو دیکھنے اور چھونے کا موقع ملے گا،، مگر ایک تو اس پودے کو ڈھونڈنا ایک جوکھم تھا تو ایک پودے کے ساتھ ایک پھول اور ایک پھول میں ایک قطرہ ،، الغرض اسے بارہ سال لگ گئے بوتل بھرنے میں ،، جس دن اس کی بوتل بھری وہ دن اس کے لئے ایک نئ زندگی کی نوید تھا،، ایک طرف وہ پھولے نہیں سما رھا تھا تو دوسری طرف اسے بار بار یہ خیال ستا رھا تھا کہ اگر اس دوران مرشد اللہ کو پیارے ھوگئے تو اس کی محنت ضائع چلی جائے گی کیونکہ آبِ حیات کو چشمہ تو صرف مرشد کو ھی پتہ تھا !! وہ خیالات میں غلطاں و پیچاں کبھی چلتا تو کبھی دوڑتا،، اپنے مرشد کے ٹھکانے کی طرف رواں دواں تھا،، مرشد کے ڈیرے پہ نظر پڑنا تھا کہ وہ بیتاب ھو کر دور سے ھی چلایا ،، میرے مرشد ،، اے میرے مرشد، دیکھ میں اپنی تپسیا میں کامیاب رھا،،میں بوتل بھر لایا ھوں ،، اس کی آواز پر مرشد اپنے کٹھیا سے بار نکلا ،، بارہ سالوں نے اس کی کمر دھری کر دی تھی مگر وہ بھی مرید کی کامیابی پر خوش نظر آتا تھا !! اپنے مرشد پر نظر پڑنا تھا کہ مرید بے اختیار دوڑ پڑا اور یہی بے احتیاطی اسے مہنگی پڑی، ٹیڑھے میڑھے رستے پر قدم کا سٹکنا تھا کہ مرید لڑکھڑایا اور عرق سے بھری شیشی اس کے ھاتھ سے چھوٹ کر ٹھاہ سے پتھر پر لگی اور چورا چورا ھو گئ،، عرق کے کچھ چھینٹے مرشد کے پاؤں پر پڑے باقی کو جھٹ زمین نگل گئ،، بے اختیار مرید کی چیخ نکل گئ ،،میرے مرشد میں لٹ گیا میں برباد ھو گیا میری محنت ضائع ھو گئ ،،میرے بارہ سال کی مشقت مٹی بن گئ،، میرے مرشد میں تباہ ھو گیا،، مرشد اپنے مرید کو چھوڑ کر اندر گیا اور ایک اور چھوٹی سی شیشی لایا جس میں اس نے روتے سسکتے مرید کے آنسو بھرنا شروع کر دیئے ،، اور وہ شیشی بھر لی !! اب مرید رو رھا تھا تو مرشد ھنس رھا تھا،، میرے مرشد میری زندگی برباد ھو گئ اور آپ مسکرا رھے ھیں ؟ مرید نے تعجب سے پوچھا !! مرشد اسے اندر لے گیا اور بکری کے دودھ کا پیالہ پینے کو دیا ،، پھر اس نے اس چھوٹی شیشی کو کھولا جس میں مرید کے آنسو بھرے ھوئے تھے، اور اپنی انگلی کو ان سے گیلا کر کے کہا کہ یہ ھے ” عرقِِ حیات ” یا ” آبِ حیات ” یا مقصدِ حیات !! اور پھر آنسوؤں میں ڈبڈباتی اس کی آنکھوں کو چھو کر کہا یہ ھیں آبِ حیات کے چشمے !! یاد رکھو ! اللہ نے انسان کو ان آنسوؤں کے لئے پیدا کیا ھے ،، ان میں ھی زندگی چھپی ھوئی ھے،، کچھ اس کی محبت میں زارو قطار روتے ھیں جیسے انبیاء ،، اور کچھ اپنے عملوں کے بھرے مٹکے جب اپنی ذرا سی غلطی سےگرتے اور ٹوتے اور اپنی محنتیں ضائع ھوتے دیکھتے ھیں تو تیری طرح بلبلاتے ھیں ،، جس طرح پانی نکلنے اور نکالنے کے مختلف طریقے ھیں اسی طرح انسانوں میں بھی ان کی طبائع کے تحت ان آنسوؤں کا سامان کیا گیا ھے،، یاد رکھو آسمان پر بھرنے والے بہت سارے ھیں مگر شیشی کسی کی نہیں ٹوتتی ،، آسمان والوں کے مٹکے ھر دم بھرے رھتے ھیں،،وھاں مٹکے ٹوٹنے کے اسباب نہیں رکھے گئے ، ان کے رونے میں تسبیح ھے،، پچھتاوہ نہیں ھے ! ھمیں اسی مقصد سے بنایا گیا ھے،پھر اس دنیا کے ٹیڑھے میڑھے رستوں پر ھاتھ میں تقوے کی بوتل دے کر دوڑایا جاتا ھے ،، اور جب ذرا سی بے احتیاطی سے تقوے کی وہ سالوں کی محنت کسی گناہ میں ڈوب جاتی ھے اور ھم پچھتاتے ھیں اور زار و قطار روتے ھیں تو اللہ فرشتوں کو اسی طرح ھمارے آنسو سمیٹنے پر لگا دیتا ھے جس طرح آج میں نے تیرے آنسو شیشی میں جمع کئے ھیں !! یہ وہ پانی ھے جس سے جہنم کی آگ بھی ڈرتی ھے،، اللہ کے رسول ﷺ نے حشر کا نقشہ کھینچا ھے کہ جہنم کی آگ فرشتوں کے قابو میں نہیں آ رھی ھوگی،، اور میدانِ حشر میں باغیوں کی طرف پھنکاریں مارتی ھوئی لپکے گی،، فرشتے اپنی بے بسی کا
اظہار کریں گے تو اللہ پاک جبرائیل سے فرمائیں گے کہ وہ پانی لاؤ ،، اور پھر جبرائیل اس پانی کے چھنٹے مارتے جائیں گے اور آگ پیچھے سمٹتی جائے گی یہاں تک کہ اپنی حد میں چلی جائے گی،، صحابہ نے پوچھا کہ ائے اللہ کے رسولﷺ وہ کونسا پانی ھو گا؟ آپ نے فرمایا اللہ کے شوق میں اللہ کے خوف سے رونے والوں کے آنسو ھوں گے جو اللہ نے آگ پر حرام کر رکھے ھیں!! یہی وہ رونا ھے جو امیر خسرو روتے ھیں کہ
!!
بہــــت ھـــــــی کٹھــــــن ڈگـــــــر پنگھـٹ کی !
کیسے بھــــر لاؤں میـں جھـــٹ پٹ مٹــــــــکی ؟
یہی وہ آبِ حیات ھے جس کی بشارت انسان کو دی گئ ھے کہ اس کے چشمے اس کی اپنی ذات کے اندر ھیں !!
تن تیـرا رب سَچے دا حـجـــــرہ ، پا اندر ول جھــاتی !!
نہ کــــــر مِنـت خـــواج خضــر، تیرے اندر آبِ حیـاتی !
اسی کی طرف میاں محمد بخش صاحب اشارہ کرتے ھیں
!
سب سیاں رَل پانی چلیاں تے کوئی کوئی مُڑسی بھر کے !
جنہاں بھـریا ، بھــر سِر تے دھــریا، قدم رکھن جَـر جَـر کے !
یعنی تمام روحیں اصل میں ان سہیلیوں کی طرح ھیں جو کنوئیں سے آبِ حیات بھرنے جاتی ھیں،،مگر ان میں سے کوئی کوئی بھر کر واپس آئے گی بہت ساریوں کے گھڑے رستے میں ٹوٹ جاتے ھیں،، لیکن جو بھر کر سر پر رکھ لیتی ھیں ان کے قدم رکھنے کا انداز بتاتا ھے کہ ان کا گھڑا بھرا ھوا ھے ! وہ بہت ٹھہر ٹھہر کر قدم رکھتی ھیں ! یہ مضمون اللہ پاک نے سورہ الفرقان میں اپنے بندوں کی تعریف کرتے ھوئے بیان کیا ھے،، و عباد الرحمن الذین یمشون علی الارضِ ھوناً ،،،، رحمان کے بعد بندے زمین پر بہت تھم تھم کرقدم رکھتے ھیں یعنی پروقار چال چلتے ھیں،، ان کی چال بتاتی ھے کہ گھڑا بھرا ھوا ھے ! میاں صاحب دوسری جگہ فرماتے ھیں ! لوئے لوئے بھر لے کُڑیئے جے تدھ بھانڈا بھرنا ! شام پئــی بِن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا !! یہ بھرے گھڑے تڑوانے والوں کا ذکر اللہ پاک نے قرآن حکیم بھی بار بار کیا ھے،، ائے ایمان والوں تمہارے ازواج اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ھیں،،ان سے خبردار رھو !( التغابن ) میاں صاحب فرماتے ھیں
!
اکھیوں انَۜا تے تِلکَن رستہ کیوں کر رھے سنبھالا ؟
دھـــکے دیــون والے بُہــتے تُـــو ھتھ پکــڑن والا !
اے اللہ آنکھوں سے بھی میں اندھا ھوں،ان مادی آنکھوں سے تو نظر نہیں آتا، اور رستہ بھی پھسلن والا ھے،، دوسری جانب ھر بندہ اس پھسلن رستے پر سہارا دینے کی بجائے دھکے دینے والا ھے ،،جب کہ صرف تیری ذات ھاتھ پکڑنے والی ھے !!
ھم کو بھی وضو کر لینے دو،ھم نے بھی زیارت کرنی ھے !
کچھ لـوگ ان بہتـی آنکھـوں کو ولیـوں کا ٹھکانہ کہتے ھیں !