اللہ کے پیارے نبی محمد مصطفی خیر الانبیاء ﷺ فرماتے ھیں کہ میرا جی چاھتا ھے کہ نماز میں لمبی قرات کروں مگر کسی خاتون کا بچہ رو پڑتا ھے اور میں سوچتا ھوں کہ اس کی ماں کا دل بچے میں اٹک گیا ھو گا،میں اس کی سہولت کے لئے قرات کو مختصر کر دیتا ھوں،،
کیا بات ھے ھمارے نبیﷺ کی دلجوئی کی کہ نماز میں بھی لوگوں کے احساسات پر نظر ھے، اپنے اعمال سے ویسے لگتا نہیں کہ ھم ان کے امتی ھیں ! اولاد کو والدین کے احساسات کا خیال نہیں تو والدین کو اولاد کے دل کی خبر نہیں حالانکہ وہ اولاد رہ کر آئے ھیں،، والدین کو پتہ ھے اور تجربہ ھے کہ والدین کی کون سی بات گولی کی طرح لگتی ھے ۔۔ مگر پھر بھی وہ یہ گولی اولاد کو مارے بغیر رھتے نہیں کیونکہ یہ گولی بزرگوں کی امانت ھے آگے پہنچانا ضروری ھے ،، شوھر کو یہ احساس نہیں کہ اس کی اک ذرا سی بات،بس اک چھوٹا سا جملہ ان کی پارٹنر کی رات کی نیند اڑا دیتا ھے،، وہ مر مر کے جیتی اور جی جی کے مرتی ھے ،، ھر روز کی یہ ٹینشن اسے ڈیپریشن کا مریض بنا دیتی ھے،اور پھر اس کا ٹائی راڈ ٹوٹ جاتا ھے،،نارمل آدمی جب بولتا ھے تو پتہ چل جاتا ھے اگرچہ غصے میں بولے اور ابنارمل آدمی بھی جب بولتا ھے تو پتہ چل جاتا ھے،،جب بیوی ڈیپریشن میں بولنا شروع کرے تو انسان کو محسوس ھو جانا چاھئے کہ یہ اب اپنے آپ میں نہیں ھے اور مرفوع القلم پوزیشن میں ھے ! لہذا چپ کر کے سنتے رھنا چاھئے،، باھر بھی نہیں بھاگ جانا چاھئے ورنہ مواد عورت کے اندر ھی رھے گا،اب جو پھوڑا پھٹ گیا ھے اس کا پورا مواد نکل جانے دیں ! یہ آپ کی عطا تھی اسے آپ ھی وصول کیجئے ،خط جب واپس آتا ھے تو اسی ایڈریس پر واپس آتا ھے جہاں سے بھیجا جاتا ھے !
خواتین کا معاملہ بھی کچھ ملتا جُلتا ھے،، کام پر جاتے شوھر کی پیٹھ پر ایسا انگارہ رکھ دیں گی پہلے تو کام پر جاتے ھوئے رستے میں وہ گاڑی کو جہاز سمجھ کر چلائے گا اور ایکسیلیریٹر کو بیوی کا گلا سمجھ کر دبائے گا اور سارا دن ڈیوٹی پر افسروں سے اور دفتر کے ساتھیوں سے منہ ماری کر کے انگارے کی تپش کم کرتا رھے گا،مگر وہ کم ھوتی نہیں ھے،،کیونکہ جس نے رکھا ھے خوب ناپ تول کر رکھا ھے،، سوتے وقت کوئی ایسی بات کر دیں گی کہ ساری رات بستر انگاروں کا بستر بنا رھے گا،،اب جب صبح یہ بندہ ڈیوٹی پہ جائے گا تو نیند کا مارا ھر ایک کے گلے پڑے گا ،، عین کھانا کھاتے ھوئے خود کش حملہ کر دیتی ھیں اور کھانا زھر بنا دیتی ھیں،، مناسب وقت پر غیر معقول بات بھی قابلِ برداشت ھوتی ھے،مگر ڈیوٹی ٹائم،، سوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت کسی قسم کی اختلافی گفتگو نہیں کرنی چاھئے !
خیر بات کہاں کی کہاں نکل گئ ھے ! عرض کرنا چاہ رھا تھا کہ ھمیں جو بات بطور مقتدی ،اپنے امام سے پسند نہ آئی کوشش کی کہ امامت کے وقت میرے مقتدیوں کو اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے،، جب ھم ڈیوٹی پہ جایا کرتے تھے تو فجر کی نماز میں ادھر بس کا ٹائم ھو جاتا،، ادھر مولوی صاحب کا ذوق وجد میں آ جاتا ،، اب ھم پر ایک ایک لمحہ بھاری ھے ،بس نکل گئ تو 35 درھم کی ٹیکسی بک کر کے جانا پڑے گا،، کئ دفعہ ایسا ھوا کہ نماز توڑ کر نکل جانا پڑا اور کام پر جا کر نماز پڑھی،کئی دفعہ نیت کی کہ اگر آج بس نکل گئ تو ٹیکسی کا کرایہ مولوی صاحب سے لیں گے ،، تو عالیجاہ اپنی تو عادت بن گئ ھے کہ چھوٹی چھوٹی سورتوں سے فجر پڑھاتے ھیں، مختصر تسبیحات پڑھتے ھیں تا کہ کسی کی بس نہ نکل جائے،،!
پہلے نماز میں بچے رویا کرتے تھے اب موبائیل روتے ھیں،، اگر بس ڈرائیور ھے تو سواریاں کال کرنا شروع کر دیتی ھیں کہ کہیں سویا نہ رہ گیا ھو ،،سواری ھے تو ڈرائیور کال مارتا ھے،” کہاں مر گئے ھو "؟ بس اپنا حال تو شاعر جیسا ھے جس نے عرض کیا تھا !
اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں !
کبھـی ســوز و ســـازِ رومی ،کبھی پیچ و تابِ رازی !
عرصہ تیس سال سے زائد ھوا ھے کہ ھمارے پڑوسی مسکین مرحوم نے پاکستان میں نماز کے بعد ھم سے مسئلہ پوچھا تھا کہ ” قاری صاحب اگر ایک آدمی دمے کا مریض ھے اور اس کی سانس سجدے میں رک جاتی ھے تو کیا وہ سر سجدے سے اٹھا کر سانس لے کر دوبارہ مولوی صاحب کے ساتھ سجدے میں شامل ھو سکتا ھے ؟ چونکہ مسکین مرحوم شدید دمے کا مریض تھا،، بھائیو وہ دن اور آج کا دن میں نے کبھی 3 بار سے زیادہ سجدے کی تسبیح نہیں پڑھی،مجھے اپنے پیچھے کئی مسکین نظر آتے ھیں،، میرے بہت اچھے دوست وجاھت ھاشمی صاحب نے رمضان میں تراویح کے بعد کہا کہ قاری صاحب، باقی اماموں کے پیچھے ھم نماز پڑھتے ھیں تو تسبیحات کا دورانیہ بدلتا رھتا ھے،،کبھی تو یوں لگتا ھے مولوی صاحب سو ھی گئے ھیں،،مگر آپ کے پیچھے مدت سے جمعہ اور تراویح پڑھی ھے،ایسا نپا تلا پیمانہ ھے کہ ادھر تین پوری ھوئیں ادھر اللہ اکبر،، میں نے کہا مسکین مرحوم خود تو فوت ھوگیا ھے،مگر میری سپیڈ باندھ گیا ھے !