دو ہزار چودہ ،پندرہ اور سولہ میری طویل پوسٹوں کا زمانہ تھا ،دیوانہ وار ساری ساری رات چوکڑی مار کر تکیہ گود میں اور تکئے پر لیپ ٹاپ رکھ کر لکھتا رہتا ،لکھتے لکھتے نماز پڑھنے جاتا اور پھر واپس آ کر اگلی اذان تک لکھتا چلا جاتا ، اندرونی کیفیت کچھ ایسی تھی کہ گویا اگر یہ لکھے بغیر مر گیا تو اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دونگا ، سونے لیٹتا پھر کوئی خیال آتا تو اس ڈر سے کہ صبح تک بھول نہ جائے خاموشی سے اٹھتا اور باہر جا کر کچن یا دوسرے کمرے میں بیٹھ کر لکھنا شروع کر دیتا اور فجر کی اذان ہو جاتی ۔ میں تہجد میں ایک پارہ قران پڑھا کرتا تھا ، اس جنون میں وہ کم ہوتا چلا گیا اور تحریریں طویل ہوتی چلی گئیں بات والعصر اور انا اعطیناک الکوثر تک پہنچ گئی ، دس بارہ گھنٹے مسلسل بیٹھ کر لکھنے سے ریڑھ کی ہڈی کے نیچے کے پانچ مہرے اور جھک کر داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے لکھنے کی وجہ سے دائیں بازو کو کولڈ شولڈر اور گردن سے نیچے کے چار مہرے بھی خراب ہو گئے ،یہ سب ایم آر آئی کے نتیجے میں سامنے آیا ، پروسٹیٹ سے خون آنا شروع ہو گیا اور پیشاب خون ہی کی صورت آتا ۔ ہم پتھری کے چکر میں پڑے رہے گڑ بڑ پروسٹیٹ میں تھی ۔ دو ھزار سولہ کے آخر میں شوگر بھی سامنے آ گئ بلڈ میں چار سو اور پیشاب میں بےشمار ۔ اب میری تحریروں میں ٹھہراؤ آنا شروع ہوا ، کچھ مجبوری تھی ، کچھ بھڑاس نکل گئ تھی اور کچھ بین المذاھب مطالعے نے وسعت نظر عطاء کر دی تھی ۔کورونا ہونے کے بعد بدن سے جان نکل گئ ہے ، بمشکل نماز پڑھائی جا رہی ہے ،پندرہ بیس منٹ سے زیادہ وی لاگ نہیں ہو سکتا اور پھر اگلے دو دن شدید اضمحلال گویا عام گفتگو تک کی ہمت نہیں ہوتی ۔ ٹانگیں گھسیٹ کر مصلے تک جاتا ہوں اور بعض دفعہ نماز پڑھا کر واپس حجرے تک بمشکل پہنچ کر اس کھلونے کی طرح بےسدھ گر پڑتا ہوں جس کے سیل نکال دیئے جائیں ۔ ایک گھنٹے کی نیم بیہوشی نما نیند کے بعد اگلی نماز کے لیے دستیاب ہوتا ہوں ۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ کے مصداق ماڈل کے لحاظ سے کافی بہتر نظر آتا ہوں مگر خود جانتا ہوں کہ گاھک اندر و اندر لگے ہوئے ہیں ۔
ایک بات طے ہے کہ الحمد للہ میں نے اس زمانے میں ان موضوعات پر لکھا جس زمانے میں اس بارے میں سوچنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو داغدار کرنے والی روایات کے انکار کی جرات کو عام کیا ۔یہ روایات نکالی نہیں جا سکتیں ان کے انکار کی جرات کرنی پڑے گی ۔ آج الحمد للہ ہر دوسری وال پر ایسی پوسٹ نظر آ جاتی ہے کہ دل خوش ہو جاتا ہے کہ جوان اپنا مشن سمجھ گئے ہیں ، تقدس کے نام پر مسلط شدہ احساس کمتری کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔ راویوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کیئے جا رہے ہیں ۔اور راویوں کے وارث سراسیمہ ہو کر فتوؤں کی بوچھاڑ سے راویوں کا دفاع کر رہے ہیں جو کہ اب ممکن نہیں ۔۔
نعیم گلزار ۔ امجد نثار ، گل ساج، شاکر ظہیر ،عاصم مغل صاحب جیسے درجنوں دوست میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ۔اور یہی لوگ میری آخرت کا توشہ بھی ہیں ۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان رحمۃ اللہ علیہ سے میں نے پوچھا کہ آپ اس قدر اہم شخصیت ہیں اور یوں سادگی سے بغیر سیکورٹی پھر رہے ہیں ؟ مسکرا کر کہنے لگے کہ اب دشمنوں کو پتہ ہے کہ ڈھیر سارے عبدالقدیر پیدا ہو گئے ہیں اب ڈاکٹر قدیر کو مار کر کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا ۔
اب ہر دوسری تیسری وال پر قاری حنیف بیٹھا ہے ۔ اب قاری حنیف اپنے رب سے ملاقات کا ہمہ تن مشتاق ہے
چراغِ زندگی ہو گا فروزاں ہم نہیں ہونگے ۔
چمن میں آئے گی فصل بہاراں ہم نہیں ہونگے ۔