قرآن حکیم میں اللہ پاک نے کہیں بھی تلوار یا سیف کا ذکر نہیں کیا مگر فقہاء نے سورہ توبہ کی پانچویں آیت کو آیۃ السیف قرار دیا ہے جو کچھ یوں ھے ” فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (5) پھر جب چار ماہ پورے ھو جائیں تو قتل کرو مشرکین کو جہاں پاؤ ان کو، اور پکڑو ان کو اور محاصرہ کرو ان کا ، اور ھر جگہ ان کے لئے مورچہ لگا کر بیٹھو یعنی ان کی تاک میں رھو – پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو ان کا رستہ چھوڑ دو ، بے شک اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ھے – سورہ توبہ آیت -5،
سلفی المسلک اور دیگر تکفیری قاتل ٹولے اس آیت کو مسلم اور غیر مسلم کے درمیان ایک واضح لکیر قرار دیتے ھیں جس کے مطابق یہ آیت نہ صرف مسلمانوں کے فرضِ منصبی کو واضح کرتی ھے بلکہ غیر مسلموں کے انجام کا بھی اعلان کرتی ھے ، نیز یہ آیت اپنے سے پہلے نازل ھونے والی ان تمام آیات کو منسوخ کر دیتی ھے جن میں حکمت کے ساتھ دعوت دینے ، صبر جمیل کرنے ، جو چاھے وہ ایمان لائے اور جو چاہے کفر کر ے ، جو چاھے ھدایت اختیار کرے ورنہ گمراھی میں پڑا رھے ، 52 سورتوں میں نازل ھونے والی 124 آیتوں کو منسوخ کر دیتی ھے ،،
تکفیری ٹولے یہ بات ھوا میں نہیں کہتے بلکہ یہ سابقہ 13 صدیوں کے فتاوی ھیں اور تفاسیر ھیں کہ جنہوں نے یہ مائنڈ سیٹ تیار کیا ھے ، فتوے دینے والے اپنی دنیا کے باسی تھے ، آنے والے حالات سے واقف نہیں تھے ، وہ سمجھتے تھے کہ مسلمان سدا کے لئے سوپر پاور بن گئے ھیں جو قوموں کی زندگی اور موت کے فیصلے کریں گے لہذا ان کے فتوؤں میں وائٹ ھاؤس سے جاری ھونے والے پُر رعونت اعلانات کی گھن گرج پائی جاتی ھے ،جن میں ھم تمہیں پتھر کے زمانے میں دھکیل دیں گے قسم کے فتوے پائے جاتے ھیں –
تکفیری گروھوں کے نزدیک اس آیتِ شمشیر نے ان تمام لوگوں کا کھلا بلیک وارنٹ جاری کر دیا ھے جو مسلمان نہیں ھیں اگرچہ وہ مسلمانوں کے خلاف کوئی برا ارادہ نہ رکھتے ھوں ، ان کا غیر مسلم ھونا ھی ان کا خون مباح کرنے کے لئے کافی ھے – جدید دور میں محمد عبد السلام فرج نے اس آیت کو لے کر ایک مہم شروع کی اور اس نے کہا کہ اس آیت نے رسول اللہ ﷺ اور دیگر لوگوں میں قائم تمام معاہدے منسوخ کر دیئے ھیں اور وہ تمام آیات منسوخ قرار دے دی ھیں جن میں کسی بھی قسم کی شرط پر غیر مسلمین کا وجود برداشت کیا جا سکتا تھا – بقائے باہمی کی جس آیت کو آپ پیش کریں گے وہ کہہیں گے کہ ” تعجب ھے آپ منسوخ شدہ آیت پیش کر رھے ھیں !
عبدالسلام فرج کو سادات کے قتل کے بعد پھانسی چڑھا دیا گیا تھا – مگر اس کی تحریک آج بھی جاری و ساری ھے مصر کے سلفی اسی بے دردی کے ساتھ سیاحوں نیز فوج اور پولیس کو بھی قتل کرتے ھیں ، جس بے دردی کے ساتھ اپنے یہاں کے ٹی ٹی پی والے کرتے ھیں ، داعش بھی ھر وہ طریقہ استعمال کر رھی ھے جو آج تک کسی بھی جانور کو مارنے کے لئے دریافت ھوا ھے ، ان کی گمراھی اس طور پر بھی خطرناک ھے کہ یہ اپنے مخالف کو بھی کافر ھی سمجھتے ھیں چاھے ان کا تعلق کسی بھی مسلک یا مکتبِ فکر سے ھو ،،
مگر یہ سب سوچ اور دماغ کس نے بنایا ؟
جو لوگ اس آیت کو ” حرب مفتوحہ ” اوپن وار نہیں بھی سمجھتے وہ بھی اپنے فتوے میں یہی کہتے ھیں کہ ” احوال تبدیل ھوتے رھتے ھیں جب مسلمان قوت میں ھوں تو غیر مسلموں کو قتل کریں یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کریں یا جزیہ ادا کریں، اور جہاں مسلمان کمزور ھوں وھاں اپنی استطاعت کے مطابق قتال کریں اور چاہیں تو جو ان کو نہ چھیڑیں ان غیرمسلموں کو چھوڑے رکھیں ( جب تک کہ قتال کی قوت حاصل ھو جائے ) (( المجموع الفتاوی بن باز )) اس رائے کو ابن کثیر ، ابن تیمیہ ، اور موجودہ معاصرین میں عبدالعزیز بن باز نے اختیار کیا ھے ،،
ان حضرات کے نزدیک دین اسلام قیامت تک دعوتی مرحلے سے نکل کر قتال کے مرحلے میں داخل ھو چکا ھے، اور قرآن میں دعوت اور اس کے طریقہ کار سے متعلق دی گئ ھدایات جو 52 سورتوں اور 124 آیات میں دی گئ ھیں منسوخ ھو چکی ھیں ، اب آپ نے جب قوت حاصل کرنی ھے تو کافروں کے خلاف لڑنا ھے ، جب کمزور ھو تب بھی انہیں قتل کرنے کے ارادے کے ساتھ جینا ھے ، جہاں جس طرح ممکن ھو کافروں کو اکا دکا ھو کر بھی مارنا ھے ، اس میں کسی مرد یا عورت، بوڑھے یا بچے کی کوئی تفریق نہیں ھے ، بچے بھی انہی کافروں میں سے ھیں اور کل بڑے ھو کر کافر ھی بنیں گے ، جس طرح ٹی ٹی پی کے نزدیک پاکستانیوں کے بچے بھی مباح الدم ھیں انہیں اسکولوں میں ھی مارو تا کہ کل یہ فوجی ، ڈاکٹر ،وکیل اور بینکار، بیوروکیٹ بن کر تمہارے لئے خطرہ نہ بنیں ،،
جو ملک ان کو پناہ دیتا ھے ، یہ اسی کے خلاف بھڑکاتے ، اسی کے سیولین شہریوں کو چاقو وغیرہ سے ،ٹرک چڑھا کر یا بم پھوڑ کر مارتے ھیں ، نمک حرامی کی تعلیم ھمیں باقاعدہ پالیسی کے تحت دی گئ ھے – جبکہ نبئ کریم ﷺ پر حبشہ والوں نے چند درجن صحابہؓ کو پناہ دے کر جو احسان کیا تھا ، نبئ کریم ﷺ نے اس کے بدلے میں فرمایا تھا کہ حبشہ پر کبھی چڑھائی مت کرنا وہ تمہارے محسن ھیں ،، فرانس اور چائنہ ،ھندوستان اور ارد گرد کے افریقی ممالک فتح کر لینے والوں نے کبھی آنکھ اٹھا کر بھی حبشہ یعنی ایتھوپیا کی طرف نہیں دیکھا جو آج تک ایک عیسائی ریاست ھے ،، یہ تھی نبوی تعلیم ،،
سورہ الانفال غزوہ بدر کے بعد نازل ھوئی ، جبکہ سورہ توبہ فتح مکہ کے بعد نازل ھوئی ، جبکہ اس کی کچھ آیات تو حجۃ الوداع کے بعد نازل ھوئیں – گویا غزوہ البدر مشرکین مکہ کے لئے عذاب کی پہلی قسط تھی جبکہ سورہ توبہ اس عذاب کی تکمیل اور تتمہ تھی لہذا 8 سال کے بعد نازل ھونے کے باوجود سورہ توبہ کو لوح محفوظ کی ترتیب کے مطابق سورہ الانفال کے بعد رکھا گیا ، یہ ھے علمِ الہی کے مطابق قرآن کی مصحفی ترتیب اور سورتوں کے جوڑوں کی حکمت – ان کا مقام ھی موضوع کو طے کر دیتا ھے ، سب سے پہلے سورت سے پہلے اور بعد والی سورت کو دیکھا جاتا ھے ،پھر سورت کا عمود یا وہ مرکزی نقطہ دیکھا جاتا ھے جس کے گرد سورت کا مضمون گھومتا ھے –
سورہ توبہ جو کہ وصال نبوی سے متصل پہلے کی سورت ھے اس میں اب نبئ کریم ﷺ کی نبوی جدوجہد کے ثمرات کو فائنل کر کے اس دعوت کے مخاطبین کے اسٹیٹس کا تعین کیا جا رھا –
سب سے پہلے امت دعوت ،،
ھر نبی اپنی قوم میں سے ھوتا ھے اور اسی قوم کی زبان میں بات کرتا ھے اور اسی قوم کی زبان میں وحی نازل ھوتی ھے – نبی کا بچپن ،جوانی اور پختگی کی عمر سب اس قوم کے سامنے ھوتی ھے ، وہ نبی کے ذاتی کردار کو جاننے والے ھوتے ھیں لہذا اس پہلو سے ان کے پاس کوئی عذر باقی نہیں ھوتا ، وہ ان کی زبان میں ،ان کے معاشرے کی مثالیں دے کر بات کو واضح کرتا ھے لہذا اس کی بات میں کوئی کنفیوژن نہیں پایا جاتا (( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ( ابراھیم- 4) اس کے باوجود کسی بھی رسول یا نبی کی ساری قوم ایمان نہیں لائی ، اس میں کچھ لوگ ایسے ھوتے ھیں جو ھدایت کے خوگر نہیں ھوتے ، انہیں وہ نبی اور اس کی دعوت اس گلے سڑے نظام سے وابستہ اپنے فوری مفادات کے لئے خطرہ نظر آتی ھے لہذا وہ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ھو جاتے ھیں ، جیسے ایک بس میں سواریوں کی ترتیب کچھ یوں ھوتی ھے کہ کچھ لوگ سیٹوں پر براجمان ھوتے ھیں ، کچھ سیٹوں کے درمیاں کھڑے ھوتے ھیں ، کچھ چھت پہ چڑھے ھوتے ھیں اور کچھ سیڑھیوں پر کھڑے ھوتے ھیں ،، اچانک وہ بس ھچکیاں لے کر کھڑی ھو جاتی ھے اور ڈرائیور اعلان کر دیتا ھے کہ جی یہ بس اب نہیں چلے گی ، اس میں ڈیزل ختم ھو گیا ھے یا کوئی اور مسئلہ پیدا ھو گیا ھے ، اس صورتحال میں سب سے پہلے سیڑھیوں والے لوگ چھلانگ مار کر اترتے ھیں ، پھر چھت والے اترتے ھیں اور پھر سیٹوں کے درمیان کھڑے لوگ نیچے اتر آتے ھیں ، یہ لوگ اس امید میں جھٹ پٹ پچھلی بس چھوڑ دیتے ھیں کہ اگلی بس میں ھمیں سیٹ مل جائے ، جبکہ سیٹوں پر براجمان لوگ سب سے آخر میں بکتے جھکتے اترتے ھیں اور فرنٹ سیٹ والا تو اترنے سے پہلے سو جتن کرتا ھے کہ یہی بس چل پڑے، وہ بار بار ڈرائیور سے کہتا ھے کہ یار پھر سلف مار ، یار دھکا لگوا کر دیکھ ، کسی کو مکینک کو فون کر وہ آ کر چیک کرے ، اور پھر گاڑی کے مالکوں کو گالیاں دیتا ھے اور اترتے اترتے ڈرائیور کو بھی سنا دیتا ھے ، تب تک لوگ دوسری بس میں بیٹھ کر کرال چوک پہنچ چکے ھوتے ھیں ،
یہی کچھ مکے کے لوگوں کے ساتھ ھوا 13 سال کی شب و روز کی محنت کے بعد نتیجہ سامنے آ گیا ، فرنٹ سیٹ پر بیٹھا طبقہ سابقہ نظام سے ھی چمٹا ھوا تھا جبکہ چھت ،سیڑھیوں اور سیٹوں کے درمیان کھڑے لوگ اتر کر نئے نظام کا حصہ بن چکے تھے ، رسول اللہ ﷺ کو شھید کر دینے کے مشورے پر صنادید قریش کے اجماع نے اتمام حجت کر دیا تھا اور رسول اللہ ﷺ کو بستی چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا – دعوت اور تبلیغ کی سنت پوری ھو چکی تھی اب بس عذاب الہی کا مرحلہ ہی باقی تھا کیونکہ آج تک سلسلہ نبوت و رسالت میں یہی اللہ کی سنت رھی تھی ، گویا مکے والوں کو معطل سزا سنا دی گئ تھی اور رسول ﷺ کو وھاں سے نکال لیا گیا تھا ، البتہ چونکہ سلسلہ رسالت و نبوت میں پہلی دفعہ دعوت کے نتیجے میں ایک ریاست قائم ھوئی تھی، لہذا اس ریاست اور اس کے عوام کے لئے قانون سازی کے مراحل کے لئے سلسلہ وحی جاری و ساری تھا اور اب مکے والوں کے لئے آسمان سے کسی بجلی یا چنگھاڑ یا بادِ صرصر، زلزلے یا سیلاب کے ذریعے عذاب دینے کی بجائے اس اسلامی ریاست کے ذریعے سزا دیے کا فیصلہ کیا گیا ،،
(( قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ ﴿توبہ-14﴾ وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿توبہ-15﴾
ان سے قتال کرو ، اللہ ان کو تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا اور اس طرح ان کو رسوا کرے گا، اور ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا ، یوں مومنوں کے دلوں کو راحت پہنچائے گا اور ان کے دلوں کا غصہ نکالے گا اور جس کی چاھے گا توبہ قبول کر لے اور اللہ دائمی علم و حکمت والا ھے ،،
قرآن حکیم میں مشرکین بطور قوم صرف اور صرف مکے والوں کے لئے استعمال ھوا ھے ، جو رسول ﷺ کے براہ راست مخاطب تھے اور جنہوں نے توحید کے بالمقابل شرک کو بطور دین اختیار کیا ، اس کی رسومِ عبودیت تخلیق کیں ، کفار کی تین قسمیں ھیں یہودی ،عیسائی اور مشرکین مکہ ، یہود و نصاری کے لئے ایک جامع اصطلاح ” اھلِ کتاب ” اختیار کی گئ یوں کفار کی دو قسمیں ھو گئیں ، اھل کتاب اور مشرکین ،، چنانچہ سورہ البینہ میں فرمایا ،،
1-{لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنفَكِّينَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ} [البينة: 1].
تب تک اھل کتاب اور مشرکین کو الگ نہیں کیا گیا جب تک کہ ان پر حجت تمام نہیں ھو گئ، اللہ کی طرف سے رسولﷺ جو ان پر پاک صحیفے تلاوت کرتا تھا ، اور نہیں وہ تفریق میں پڑے اس کے بارے میں یہانتک کہ ان کے پاس بینہ واقعتاً پہنچ گئ ،، ( یعنی اھل کتاب کے پاس نبئ کریم ﷺ کا ذکر بطور آخری نبی ان کی کتابوں میں موجود تھا اور وہ ان کی تلاش میں تھے ، ان کی آمد کے منتظر تھے بغیر کسی اختلاف کے ، مگر جب وہ تشریف لائے تو اس تعصب میں ان سے الگ ھو گئے کہ وہ بنی اسرائیل میں سے نہیں ھیں ، دوسری جانب مشرکین مکہ بنو امیہ اور بنو ھاشم بھی نبئ کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے آپ کی شرافت ، صداقت اور امانت دیانت کے گواہ اور آپکی عدالت پر مجتمع تھے ، جونہی بعثت کا اعلان ھوا اور اللہ کی آیات کی تلاوت شروع ھوئی وہ تفرقے میں پڑ گئے
2- إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ أُولَٰئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ (6)
بے شک جنہوں نے کفر کیا اھل کتاب میں سے اور مشرکین میں سے یہ ھمیشہ آگ میں رھیں گے – یہ لوگ شریر ترین مخلوق ھیں ،،
گزارش یہ مطلوب تھی کہ سورہ توبہ میں مشرکین سے مراد مشرکین مکہ خاص ھیں ، اس سے باقی دنیا میں شرک کرنے والے مراد نہیں ھیں ، ابراھیم علیہ السلام کے والد بھی چونکہ براہ راست رسول کے منکر تھے جو کہ خلیل اللہ تھے لہذا وہ بھی اس اتمام حجت کی سنت کے تحت مذکور ھیں ،،
سورہ توبہ اپنے شروع میں ھی اپنے مخاطب کا تعارف کروا دیتی ھے یہ اللہ پاک کا وہ فیصلہ ھے جو عدالت کا باقاعدہ تفصیلی فیصلہ قرار دیا جا سکتا ھے ،جس میں ایک ایک مجرم کا ذکر ، اس کے جرم کی نوعیت ، جرم کے اثبات کے دلائل اور سزا سنائی جاتی ھے ، پہلے مشرکین مکہ کو لیا گیا جن میں سے رسول مبعوث کیئے گئے تھے اور جن کی زبان میں اللہ نے اپنا آخری خطاب کیا ھے ،، ایک ایک جرم بیان کیا گیا اور پھر سزا سنائی گئ ،کہ ان کو چار مہینے دیئے جا رھے ھیں اس میں یہ ایمان لے آئیں یا جہاں پائے جائیں ان کو پکڑا جائے اور مارا جائے – پھر اھل کتاب کو لیا گیا پندرہ بیس آیات میں ان کا جرم اور سزا بیان کی گئ کہ یا تواسلام قبول کر لیں یا پھر جزیہ دیں اور اپنے دین پر قائم رھیں اور پھر منافقین کا اسٹیٹس طے کیا گیا ، ان کے جرائم چاھے وہ قولی تھے یا فعلی اور جس قدر بھی گھٹیا الفاظ میں ادا کیئے گئے تھے اللہ پاک نے ان الفاظ تک کو دھرا کر ان کی جرائم کی شناءت واضح کی اور پھر کہا گیا کہ ان سے اعراض کیا جائے ، یہ گندگی ھیں اور ان کی سزا اخرت تک مؤخر کر دی گئ – پھر ان تین مخلص صحابہؓ کا کیس لیا گیا جو بلا عذر غزوہ تبوک میں جانے سے پیچھے رہ گئے تھے، اور ان کی توبہ قبول کر لی گئ ،،
بَرَآءَةٌ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦٓ إِلَى ٱلَّذِينَ عَٰهَدتُّم مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ١
[This is a declaration of] disassociation, from Allah and His Messenger, to those with whom you had made a treaty among the polytheists.
یہ آیت بول بول کر کہہ رھی ھے کہ یہ کسی خاص قوم سے کیئے گئے معاھدے سے اعلانِ برأت کر رھی ھے ،جبکہ کچھ لوگوں کو مشروط چھوٹ دے رھی ھے ،،
بَرَآءَةٌ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦٓ إِلَى ٱلَّذِينَ عَٰهَدتُّم مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ١
[This is a declaration of] disassociation, from Allah and His Messenger, to those with whom you had made a treaty among the polytheists.]
فَسِيحُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِى ٱللَّهِ ۙ وَأَنَّ ٱللَّهَ مُخْزِى ٱلْكَٰفِرِينَ ٢
So travel freely, [O disbelievers], throughout the land [during] four months but know that you cannot cause failure to Allah and that Allah will disgrace the disbelievers.
وَأَذَٰنٌ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦٓ إِلَى ٱلنَّاسِ يَوْمَ ٱلْحَجِّ ٱلْأَكْبَرِ أَنَّ ٱللَّهَ بَرِىٓءٌ مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُۥ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِى ٱللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ٣
And [it is] an announcement from Allah and His Messenger to the people on the day of the greater pilgrimage that Allah is disassociated from the disbelievers, and [so is] His Messenger. So if you repent, that is best for you; but if you turn away – then know that you will not cause failure to Allah. And give tidings to those who disbelieve of a painful punishment.
إِلَّا ٱلَّذِينَ عَٰهَدتُّم مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْـًٔا وَلَمْ يُظَٰهِرُوا۟ عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوٓا۟ إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُتَّقِينَ ٤
Excepted are those with whom you made a treaty among the polytheists and then they have not been deficient toward you in anything or supported anyone against you; so complete for them their treaty until their term [has ended]. Indeed, Allah loves the righteous [who fear Him].
فَإِذَا ٱنسَلَخَ ٱلْأَشْهُرُ ٱلْحُرُمُ فَٱقْتُلُوا۟ ٱلْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَٱحْصُرُوهُمْ وَٱقْعُدُوا۟ لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا۟ وَأَقَامُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَوُا۟ ٱلزَّكَوٰةَ فَخَلُّوا۟ سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ٥
And when the sacred months have passed, then kill the polytheists wherever you find them and capture them and besiege them and sit in wait for them at every place of ambush. But if they should repent, establish prayer, and give zakah, let them [go] on their way. Indeed, Allah is Forgiving and Merciful.
وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ٱسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَٰمَ ٱللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُۥ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ ٦
And if any one of the polytheists seeks your protection, then grant him protection so that he may hear the words of Allah. Then deliver him to his place of safety. That is because they are a people who do not know.
كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ ٱللَّهِ وَعِندَ رَسُولِهِۦٓ إِلَّا ٱلَّذِينَ عَٰهَدتُّمْ عِندَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ ۖ فَمَا ٱسْتَقَٰمُوا۟ لَكُمْ فَٱسْتَقِيمُوا۟ لَهُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُتَّقِينَ ٧
How can there be for the polytheists a treaty in the sight of Allah and with His Messenger, except for those with whom you made a treaty at al-Masjid al-Haram? So as long as they are upright toward you, be upright toward them. Indeed, Allah loves the righteous [who fear Him].
كَيْفَ وَإِن يَظْهَرُوا۟ عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا۟ فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ يُرْضُونَكُم بِأَفْوَٰهِهِمْ وَتَأْبَىٰ قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَٰسِقُونَ ٨
How [can there be a treaty] while, if they gain dominance over you, they do not observe concerning you any pact of kinship or covenant of protection? They satisfy you with their mouths, but their hearts refuse [compliance], and most of them are defiantly disobedient.
ٱشْتَرَوْا۟ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَصَدُّوا۟ عَن سَبِيلِهِۦٓ ۚ إِنَّهُمْ سَآءَ مَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ٩
They have exchanged the signs of Allah for a small price and averted [people] from His way. Indeed, it was evil that they were doing.
Saheeh International [English]
لَا يَرْقُبُونَ فِى مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ وَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُعْتَدُونَ ١٠
They do not observe toward a believer any pact of kinship or covenant of protection. And it is they who are the transgressors.
فَإِن تَابُوا۟ وَأَقَامُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَوُا۟ ٱلزَّكَوٰةَ فَإِخْوَٰنُكُمْ فِى ٱلدِّينِ ۗ وَنُفَصِّلُ ٱلْءَايَٰتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ١١
But if they repent, establish prayer, and give zakah, then they are your brothers in religion; and We detail the verses for a people who know.
وَإِن نَّكَثُوٓا۟ أَيْمَٰنَهُم مِّنۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا۟ فِى دِينِكُمْ فَقَٰتِلُوٓا۟ أَئِمَّةَ ٱلْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَآ أَيْمَٰنَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ ١٢
And if they break their oaths after their treaty and defame your religion, then fight the leaders of disbelief, for indeed, there are no oaths [sacred] to them; [fight them that] they might cease.
أَلَا تُقَٰتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوٓا۟ أَيْمَٰنَهُمْ وَهَمُّوا۟ بِإِخْرَاجِ ٱلرَّسُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَٱللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ١٣
Would you not fight a people who broke their oaths and determined to expel the Messenger, and they had begun [the attack upon] you the first time? Do you fear them? But Allah has more right that you should fear Him, if you are [truly] believers.
قَٰتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ ٱللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ ١٤
Fight them; Allah will punish them by your hands and will disgrace them and give you victory over them and satisfy the breasts of a believing people
وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ ۗ وَيَتُوبُ ٱللَّهُ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ١٥
And remove the fury in the believers’ hearts. And Allah turns in forgiveness to whom He wills; and Allah is Knowing and Wise.
مکہ فتح ھونے کے بعد پہلا حج اس حال میں ھوا کہ حج کا انتظام و انصرام حسبِ معمول مشرکین کے ہاتھ میں تھا جبکہ مشرکین اور مسلمانوں نے مشترکہ طور پر حج کے مناسک ادا کیئے – اگلے سال حج کا انتظام مسلمانوں نے اپنے ھاتھ میں لے لیا جبکہ مشرکین نے بھی حج کے مناسک اپنے طور پر ادا کیئے ،، یہ وہ حج تھا جس میں ابوبکر الصدیقؓ امیرِ حج بنا کر بھیجے گئے تھے ، اسی دوران جبکہ قافلہ حالت سفر میں تھا کہ پیچھے مشرکین مکہ سے برأت کی آیات نازل ھوئیں جن کو حج کے مجمعے میں پڑھ کر سنانا تھا نیز یہ اعلان بھی مقصود تھا کہ مشرکین آئندہ حج کے کسی رکن کی ادائیگی کے لئے مسجدِ حرام کی حدود میں داخل نہیں ھو سکیں گے ، اور یہ کہ مسجد حرام کی تولیت یا دیکھ بھال کا کام مشرکین کا نہیں بلکہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والوں کا ھے ، مشرکین کو چار ماہ دیئے جاتے ھیں وہ یا تو اسلام کو قبول کر لیں یا مرنے کے لئے تیار ھو جائیں ، جہاں پائے جائیں گے قتل کر دیئے جائیں گے ،سوائے ان کے جو اسلام سے متعلق کچھ معلومات حاصل کرنا چاھتے ھوں تو ان کو پناہ دی جائے گی اور جب وہ کلام اللہ سن لیں تو ان کو اسی جگہ فیصلہ کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا بلکہ واپس ان کو امن کے علاقے میں پہنچا دیا جائے گا جب تک کہ معاھدے کی مدت باقی ھے –
اس اعلان برأت اور نئ شرائط کو پڑھنے کے لئے نبئ کریم ﷺ کے خاندان کے کسی فرد کا ھونا ھی ضروری تھا – لہذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ ذمہ داری سونپی گئ ، حضرت علیؓ جب قافلے میں پہنچے تو ابوبکر صدیقؓ نے سب سے پہلا سوال یہ کیا کہ ” امیرۤ ام مأمور؟ ” آپ امیر قافلہ بنا کر بھیجے گئے ھیں یا مامور؟ حضرت علیؓ نے فرمایا ” بل مامور” میں آپ کے تابع بنا کر بھیجا گیا ھوں ،مجھے یہ اعلان پڑھنا ھے اس کے علاوہ تمام ذمہ داری آپ کی ھے ،، چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے سورہ توبہ کی متعلقہ آیات مجمع عام میں تلاوت کر کے سنا دیں –
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُوا۟ مَسَٰجِدَ ٱللَّهِ شَٰهِدِينَ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِم بِٱلْكُفْرِ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَٰلُهُمْ وَفِى ٱلنَّارِ هُمْ خَٰلِدُونَ ١٧
It is not for the polytheists to maintain the mosques of Allah [while] witnessing against themselves with disbelief. [For] those, their deeds have become worthless, and in the Fire they will abide eternally.
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَٰجِدَ ٱللَّهِ مَنْ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَى ٱلزَّكَوٰةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا ٱللَّهَ ۖ فَعَسَىٰٓ أُو۟لَٰٓئِكَ أَن يَكُونُوا۟ مِنَ ٱلْمُهْتَدِينَ ١٨
The mosques of Allah are only to be maintained by those who believe in Allah and the Last Day and establish prayer and give zakah and do not fear except Allah, for it is expected that those will be of the
مشرکین مکہ کا مسجد حرام کے قریب نہ آنے دینے کا مطلب ان سے بیت اللہ کی تولیت چھین لینا تھا ، اور ” مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں” مبالغے کا صیغہ ھے جیسے کسی ڈاکٹر کا یہ کہنا کہ اس مریض کو پانی کے قریب بھی مت جانے دینا ،، یا کسی بچے سے کہنا کہ ،مٹھائی کے قریب بھی مت جانا ،، یہ آیت نمبر- 17، مشرکین مکہ کو بیت اللہ کی ذمہ داریوں سے معزول کر رھی ھے اور اگلی ھی آیت نمبر 18 میں اھل ایمان کو اس منصب پر فائز کر رھی ھے –
نہ تو اس آیت میں کہیں بھی یہ حکم موجود ھے کہ غیر مسلم قیامت تک حرم کی حدود میں داخل نہیں ھو سکتا ، اور نہ ھی سنت سے یہ ثابت ھے – اگلے سال حجۃ الوداع پر کئ غیر مسلم قبیلے اور افراد حرم کی حدود کے اندر نبئ کریم ﷺ کے پاس حاضر ھو ھو کر اسلام قبول کرتے رھے ، مگر آپ ﷺ نے کسی کو حرم کی حدود سے نہیں نکالا ، حرم مکی ھی کی شرائط کا اطلاق حرمِ مدنی پر بھی کیا جاتا ھے اور وھاں بھی غیر مسلم کا داخلہ منع ھے جبکہ کئ غیر مسلم غلام اور آزاد مدینے میں موجود تھے ،حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ عیسائی تھے اور 9 ھجری میں مسلمان ھوئے ، غیر مسلمین کا حرمین میں داخل نہ ھونے دینے کا فیصلہ ھمارے عروج کے زمانے کا ھے جس کے پیچھے ھماری عظمت و سطوت کی رعونت کار فرما ھے نہ کہ شریعت –
اللہ پاک کی سنت رھی ھے کہ رسول کی بعثت کے ساتھ ھی انسانیت تین طبقات میں بٹ جاتی ھے ،
1- رسول کو ماننے والے جو مومن و مسلم کہلاتے ھیں ،،
2- رسول کے منکر جو کافر کہلاتے ھیں ،،
3- وہ لوگ جو اپنی کم ھمتی کی وجہ سے نہ مومن کی طرح سر کٹا سکتے ھیں اور نہ ھی کفر کی طرف سے ڈٹ کر لڑ سکتے ھیں جو منافق کہلاتے ھیں ،
یہ تین طبقات ھر رسول کے زمانے میں پائے گئے ھیں ،
ختم رسالت کے بعد اب قیامت تک انسانیت میں یہ مزید تقسیم نہیں ھو گی ،
نہ ھی کوئی ایسا رسول یا نبی یا امام وارد ھو گا کہ جس کے ماننے یا نہ ماننے پر اسلام و ایمان کا دارومدار ھو اور انسانیت ایک دفعہ پھر کسی تقسیم سے دوچار ھو ،،
یہ اللہ پاک کی دائمی حکمت اور ابدی وسرمدی علم میں پہلے سے طے تھا ،،
اس لئے فرما دیا کہ ” ( الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ) المائدة/3
آج تمہارا دین مکمل کر دیا گیا ھے ، اور تم پر اپنی نعمت ( رسالت ) کا اتمام کر دیا ھے اور اسلام کو بطور دین تمہارے لئے پسند کر لیا گیا ھے ،،
دوسری جانب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو خطاب کر کے فرمایا کہ ”
(( قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (136) فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (137)
کہہ دو کہ ھم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو نازل کیا گیا ھماری طرف اور جو نازل کیا گیا طرف ابراھیم ، اسماعیل ،اسحاق ،یعقوب اور اولاد یعقوب کے اور دیا گیا بطور شریعت موسی عیسی اور جو دیئے گئے نبی اپنے رب کی طرف سے ، ھم ان میں کوئی تفریق نہیں کرتے” سب پر اجتماعی ایمان رکھتے ھیں ،، 136
پھر اگر یہ ایمان لائیں انہیں باتوں پر جن پر ایمان لائے ھو تم تو بس ھدایت پا گئے ، اور اگر منہ پھیر لیں ان سے توبے شک وہ ٹوٹ کر الگ ھو گئے ،پھر اللہ کافی ھے ان کو آپ کی طرف سے اور وہ دائمی سننے والا ازلی و ابدی علم رکھنے والا ھے 137،
بس اب قیامت تک ھدایت کے سرٹیفیکیٹ کے لئے یہی پیکیج ھے ، اس میں اب کوئی نیا نبی یا رسول یا امام نہیں ڈالا جا سکتا ،
شیعہ اثنا عشریہ کے یہاں امامت کے سلسلے کو نبوت کی جگہ عصمت دے کر چلانے اور اس کو ایمان و اسلام کا دارو مدار قرار دینے کے بعد تقسیم در تقسیم کا عمل جب شروع ھوا ، اور ھر امام کے دعوئ امامت کے نتیجے میں جس طرح کچھ لوگ ان کو مانتے اور کچھ نئے امام کا انکار کر کے بقول ان کے ایمان سے خارج ھو جاتے جو شیعیت میں دوسرا فرقہ بن جاتے ، اور شیعہ نے دیکھا کہ ھر امام کی بعثت ان کو تقسیم در تقسیم کر کے کمزور کر دیتی ھے ، دوسری جانب حکومتیں بھی ھماری دشمن بنی ھوئی ھیں تو اس تقسیم کو 12 سے اوپر لے جانے کی بجائے انہوں نے 12 واں امام ھی غائب کر دیا تا کہ اس تقسیم کو روکا جائے ،
لہذا اب دنیا مسلم اور غیر مسلم کی تقسیم میں ھی چلے گی تا آنکہ حشر میں اپنے منبع حیات کے سامنے جا کھڑی ھو ، رسالت یا نبوت کی صورت کبھی کسی امتحان سے دوچار نہیں ھو گی، کتاب اللہ کو محفوظ کر دیا گیا ھے تا کہ قیامت تک اصل ٹیکسٹ موجود رھے اور حقیقت مختلف عبقریوں کی تفسیروں اور شرحوں میں کھو نہ جائے اور نہ ھی کچھ مقدسوں ( Saints ) کی طبائع کی جولانیاں صراطِ مستقیم کو پگڈنڈیوں میں تقسیم کر سکیں ، رستے کو نسل در نسل قرآن پر تولنا ھے ، اور قرآن سے ھی ماپنا ھے اور قرآن سے ھی چھاننا اور پھٹکنا ھے ،،
ایک کپڑے کو ایک میٹر سے ماپ کر کاٹا جائے ، پھر میٹر چھوڑ دیا جائے اور اس ایک میٹر کے کٹے ھوئے کپڑے سے ناپ کر نیا کپڑا کاٹا جائے ، پھر نئے کپڑے یا مزید نیا کپڑا کاٹا جائے تو چار پانچ میٹر کے بعد ایک دو انگل کپڑے کا فرق پڑ جاتا ھے ، جب دین کو ھر زمانے میں لوگوں نے ” سینٹ پالوں "سے ماپا تو عیسائیت کی صورت نکل آئی ، اس قسم کی صورتحال سے بچنے کے لئے قرآن کو بطور میزان و فرقان قیامت تک باقی رکھا گیا تا کہ لوگوں کے پاس اپنی گمراھی کا کوئی عذر باقی نہ رھے ،، جہاں شک پڑے اس میزان کونکالو ، اس کا ٹیکسٹ اور سیاق و سباق دیکھو اور پھر تقدس کا جبہ اتار کر قرآن کے قدموں میں رکھ دو اور قرآنِ مقدس کی مانو اور صراط مستقیم پر رھو ، کیونکہ اول زمانے سے دین میں تغیر وتبدل کا جرم مقدسین کے ھاتھوں ھوتا آیا ھے، اور باڑ اپنے کھیت کو کھاتی آئی ھے جو محافظ بنائے گئے تھے وہ لٹیرے نکلتے رھے ھیں اور لوگ تقدس کے نشے میں ان کے پیچھے چلتے آئے ھیں (( اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لا إِلَهَ إِلا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (توبہ -31)
” ان لوگوں نے اپنے مشائخ اور علماء کو رب کا درجہ دے دیا اور مسیح ابن مریم کو بھی ۔ جبکہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ بس ایک ھی الہ کی بندگی کرنی ھے ، اس کے سوا کوئی الہ نہیں ، وہ پاک ھے ان سب شراکت داروں سے جو اس کی طرف منسوب کیئے جاتے ھیں ” –
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (33) ۞ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۗ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (توبہ- 34)
وہ اللہ ھی ھے جس نے بھیجا اپنا رسول تا کہ وہ غالب کر دے اس کے دین کو تمام شعبہ ھائے زندگی پر اگرچہ مشرکین کو یہ کتنا ھی ناگوار گزرے ، اے ایمان والو بےشک بہت سارے علماء اور مشائخ لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے ھیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ھیں ، اور جو سونے اور چاندی کو جمع کرتے ھیں اور اس کو راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے ،پس ان کو بشارت دے دو دردناک عذاب کی ”
سب سے پرانا حوالہ قرآن ھے ، سب سے بڑا مقدس بھی یہی ھے اور صحیح ، صحیح تر اور صحیح ترین بھی یہی ھے ،اس سے بڑھ کر کوئی صحیح نہیں اور اس کے بعد بھی کچھ صحیح نہیں کیونکہ جس طرح اللہ کا بعد نہیں ، اس قرآن کا بھی کوئی بعد نہیں کہ کہا جائے کہ اس کے بعد فلاں صحیح تر ھے ،،
( تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ (جاثیہ -6) )
یہ اللہ کی آیات ھیں ان کو ھم آپ پر پڑھتے ھیں حق کے ساتھ ،پھر اللہ اور اس کی آیات کے بعد کس حدیث پر ایمان لائیں گے ؟
(( فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (والمرسلات-50)
پھر اس "قرآن” کے بعد کس حدیث پر ایمان لائیں گے ؟
قرآن کسی کتاب کا محتاج نہیں کتابیں قرآن کی محتاج ھیں ، سب کتابیں اس کے گرد گھومتی ھیں یہ کسی کتاب کے محور کے گرد نہیں گھومتا ،،
وما علینا الا البلاغ المبین