میں نے گزراش کی تھی کہ انسانیت سے ابلیس کے آخری خطاب سے متعلق کچھ عرض کرونگا – جمعے کے خطبے میں بات ھوئی بھی مگر آڈیو ریکارڈنگ نہیں ھو سکی ،کیمرے کے ساتھ لگا مائیک آف ھی چلتا رھا ،، سوچا بات کو تحریر کا روپ ھی دے دیا جائے شاید اسی میں اللہ پاک کی کوئی حکمت ھو – جس طرح ھم اپنی تاریخ سے ٹھیک طرح سے آگاہ نہیں ھیں ،کچھ یہی حال ابلیس کی تاریخ اور جغرافیئے کا بھی ھے ،،،
ابلیس ھم سے پہلے با اختیار مخلوق یعنی جنات سے تعلق رکھتا تھا – اور اللہ پاک سے شدید محبت کرتا تھا زمین آسمان کے چپے چپے کو اس نے اپنے سجدوں سے سجا کر رکھ دیا تھا ، جب رب کی شان بیان کرتا تو فرشتے غش کھا کر گر پڑتے تھے ، اس کی محبت میں ایک نقص تھا بس ایک آنچ کی مار تھی کہ وہ محبت میں اپنی ذات کو مٹا نہ سکا ،، یہ مرحلہ عشق کہلاتا ھے جب محبوب کی پسند اپنی پسند بن جاتی ھے ،اور یہ عشق ابلیس کے مقدر میں نہیں تھا اور شاید رب کی اپنی مشیئت بھی یہی تھی ،،
محبت جتنی شدید ھوتی ھے ، زخمی ھونے پر اسی تناسب سے شدید رد عمل دیتی ھے – یوسف علیہ السلام کے بھائی اپنے والد سے شدید محبت کرتے تھے ،مگر جب اپنے محبوب ابا جی کا رخ یوسف اور بنیامین کی طرف دیکھا تو وہ محبت بھڑک اٹھی اور اس نے اعلانِ بغاوت کر دیا ،، اُقتلوا یوسف او اطرحوہ ارضاً یخل لکم وجہ ابیکم ،،، قتل کر دو باپ کے محبوب یوسف کو یا اسے کہیں کسی دور بستی میں پھینک آؤ تا کہ وہ تمہارے باپ کا چہرہ تمہارے لئے خالی کر دے ، یعنی باپ کو تم بھی نظر آ جاؤ کہ اسی گھر میں رھتے ھو اور وہ تمہاری طرف بھی توجہ دے ،،،،،، والدین اگر ایک بچے کو توجہ دیں تو دشمن گھر میں ھی پیدا ھو جاتے ھیں ،، اور پھر جب ساتھ یہ ڈراوے بھی ھوں کہ جلدی سے کھا لو ورنہ بھائی کھا جائے گا ، بھائی کے آنے سے پہلے پی لو ورنہ بھائی پی لے گا – یا بھائی تم سے اچھا پڑھتا ھے ، بھائی تم سے زیادہ نیک ھے ، الغرض اس قسم کا تقابل عموماً منفی نفسیات کو پیدا کرتا ھے اور بچہ یہ سمجھنا شروع ھو جاتا ھے کہ بھائی میرا دشمن ھے ، اس کی وجہ سے مجھے ھمیشہ پھٹکار پڑتی ھے ،، ھر ایک کی اپنی صلاحیتین ھوتی ھیں اور اپنی فطرت ھوتی ھے پیدا کرنے والے نے جب ایک جیسے پیدا نہیں کیئے تو آپ کیوں ان کو رگڑ رگڑ کر اور پلیٹیں اور ریت بھرے تکیئے اس کے سر کے نیچے رکھ کر ایک جیسا بنانے کی سعی کر رھی ھیں ، پلیٹ سالن کے لئے بنائی گئ تھی ،، سر بنانے کے مقصد سے نہیں بنائی گئ تھی ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
یعقوب علیہ السلام کی محبت نے ساری زندگی ان کو بھی خون رلایا ، یوسف علیہ السلام کو بھی در بدر رلایا اور اسباط کے کردار کو بھی دھبہ لگا دیا ، اس ایک غلطی کے سوا ان سے اور کوئی غلطی نہیں ھوئی تھی اور وہ آگے چل کر نبی بنے ،، حضرت یعقوب علیہ السلام بڑی اچھی طرح جانتے تھے کہ بیٹوں نے یہ کارنامہ ان کی محبت کی خاطر حسد میں مبتلا ھو کر کیا ھے ،لہذا انہوں نے پوری سورہ یوسف میں اپنے بیٹوں کے ساتھ نرمی کے ساتھ بات کی ، اور سب معلوم ھونے کے باوجود انہیں جتلایا نہیں ، البتہ مختلف انداز میں انہیں جتاتے رھے کہ یوسف زندہ ھیں اور تم لوگ جا کر ان کو ڈھونڈ کر اپنی غلطی کا مداوہ کرو ،،،،،،،،،
جب آدم علیہ السلام کو اللہ پاک نے نیابت اور خلافت کا منصب سونپا اور فرشتوں سے ان کو سجدہ کرنے کا کہا تو ابلیس بھڑک اٹھا ،، اس کی ذات ابھی مری نہیں تھی ، اس نے اپنی خوشی کو اللہ کی خوشی ،اپنی پسند کو اللہ کی پسند نہیں بنایا تھا ،، اگر وہ عشق کا یہ مرحلہ بھی طے کر لیتا تو آدم کے پاؤں بھی چومتا کیونکہ وہ اس کے محبوب کا محبوب تھا ،، عشق ری ایکشن کی نفسیات سے نکل جانے کا نام ھے جب کہ محبت ابھی ری ایکشن کے چکر کے ساتھ جُڑی ھوتی ھے ،، کان من الجن ،، ففسق عن امر ربہ ،، چونکہ وہ جنات میں سے تھا یعنی صاحب اختیار تھا لہذا انکار کا اختیار استعمال کر بیٹھا ،جب کہ فرشتے انکار کے مجاز نہ تھے کیونکہ یفعلون ما یومرون ،، وہ بس وھی کر سکتے ھیں جس کا حکم دیا جاتا ھے ،،، ابلیس نے محبوب کے محبوب کو اپنا محبوب بنانے کی بجائے اس کے حسد میں مبتلا ھو گیا ، یہی وہ مقام ھے جہاں سورہ الفلق میں ” من شرِ حاسدٍ اذا حسد ” کہا گیا ھے ،، یہاں حاسد شیطان ھی ھے جو جب بھی حسد کو نکالنے کی راہ سوچے تو اللہ اس کی اس چال سے پناہ دے ،، اللہ یہ چاھتا ھے کہ انسان کو رب کی رضا حاصل رھے ، جبکہ ابلیس ھمیشہ یہ کوشش کرتا ھے کہ نیکی کی صورت ھو یا برائی کی ھر حال میں انسان سے وہ حرکت کرا دے جس سے رب اس پر غصے ھو ۔نماز پڑھے تو ریاکاری کر دے ، صدقہ دے تو دکھاوے کا دے ، قربانی دے تو پورے محلے کے تأثرات نوٹ کرے ،، بس یہی گیم ھے جو ساری زندگی ھمارے ساتھ کھیلی جاتی ھے ،، ھم دیکھتے تھے کہ جو بھائی بہن ماں کی نظروں کا تارا ھے اس سے کوئی ایسا کام کرا دیں اور ھمدرد بن کر کرا دیں ، پھر خود دوڑ کر ماں کو بتا دیں کہ تیرے تارے نے چن چڑھا دیا ھے ، پھر ماں کا غصے ھونا ، اس کو ڈانٹنا ھمارے سینے میں وقتی طور پر ٹھنڈ ڈال دیتا تھا ،، اسی طرح ساس کوشش کرتی ھے کہ بیٹے کی نظروں میں اس کی محبوب بیوی کو معتوب بنا دے اور بیوی کوشش کرتی ھے کہ وہ بیٹے کی نظروں میں ماں کو دشمن ثابت کر دے ، بس یہ محبتوں کی جنگ ھے کہ جس میں انسان نے آنکھ کھولتے ھی اپنے آپ کو معرکہ زن پایا ،،
حشر کے دن اللہ پاک کی عدالت میں فیصلے ھو جانے کے بعد شیطان انسانوں سے اپنا آخری خطاب کرے گا ، اور اس خطاب میں اللہ پاک کی حمایت کرے گا ، انسانوں کے برے اعمال سے مدلل اعلانِ برأت کرے گا ، اور دعوی کرے گا کہ وہ باغی تو ھے مگر مشرک نہیں ھے ،، واضح رھے کہ حشر میں ابلیس پر کوئی مقدمہ نہیں چلے گا ،، وہ اقراری مجرم ھے ، اور اسے اسی ڈیل کے بدلے دنیا میں اس کی ھر طلب کردہ صلاحیت دے دی گئ ھے ،، حشر کے میدان میں اس کی موجودگی لوگوں کے اس اعتراض کی بنیاد پر ھو گی کہ ھم سے سب کچھ ابلیس نے کروایا ھے ورنہ ھم تو بس اللہ کی گائے تھے ، اپنی صفائی میں یہ ابلیس کا آخری خطاب ھو گا اور اس مین انسانوں کو لگ پتہ جائے گا کہ وہ دلیل کہتے کس بلا کو ھیں ،، اللہ پاک نے انسانوں کو بار بار خبردار کیا ھے کہ ” ان الشیطان لکم عدوۤ ” بے شک شیطان تمہارا دشمن ھے ،، ان الشیطان للانسانِ عدوۤ مبین ، بے شک شیطان انسان کا دشمن ھے ،، کہیں بھی اللہ پاک نے یہ نہیں فرمایا کہ شیطان میرا دشمن ھے ،، وہ اچھی طرح جانتا ھے کہ شیطان نے اس کی محبت میں انسان سے حسد کیا ھے ،، لہذا اللہ پاک نے اپنا موقف بالکل واضح رکھا ھے ، اور انسان کو شیطان کی دشمنی سے بچانے کے لئے شریعت کے ذریعے وہ رستے بند کیئے ھیں جہاں سے شیطان انسان پر اللہ کے غضب کو بھڑکا سکتا تھا ،، یہی بات حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی یوسف علیہ السلام سے کہی تھی اور اسی محبت کا تقابل کیا تھا یوسف کے بھائیوں کے حسد کے ساتھ کہ جس طرح شیطان نے اللہ کی محبت میں انسان سے حسد کر کے اس کو اس کی منزل سے بے راہ کرنے کے لئے چالیں چلیں ، اسی طرح تیرے بھائی بھی چالیں چل کر تجھے اس منزل سے دور کرنے کی کوشش کریں گے ، قال یا بنی لا تقصص رؤیاک علی اخوتک فیکیدوا لک کیداً – ان الشیطان للانسانِ عدوۤ مبین –
قصہ آدم و ابلیس !
عموماً دیکھا گیا ھے کہ جب گھر میں کوئی نیا بچہ پیدا ھوتا ھے اور سارا گھر اس کی طرف متوجہ ھوتا ھے ، مبارکبادوں کے تبادلے ھو رھے ھوتے ھیں اور ننھے کے نام پر مشورے چل رھے ھوتے ھیں ،ھر کوئی اس کی شکل پہ تبصرے کر رھا ھوتا ھے تو گھر میں پہلے سے موجود بچہ احساس کمتری کا شکار ھو جاتا ھے اور نیکی یا بدی ،جنت یا جھنم کے تصور سے ناشناس ھوتے ھوئے بھی حسد کا شکار ھو جاتا ھے ،، وہ کوشش کرتا ھے کہ کسی طرح والدین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائے ،کبھی زبردستی ان کی گود میں جا بیٹھتا ھے اور ان کا منہ ھاتھ سے اپنی طرف موڑتا ھے ، اور پھر تنگ آمد بجنگ آمد ” أُقتلوا یوسف ” کے مقام پہ جا کھڑا ھوتا ھے ، وہ کبھی تو چھوٹے کی آنکھ میں چپکے سے انگلی گھسیڑ دیتا ھے ، کبھی اس کے کان کھینچ لیتا ھے ، کبھی اس کا فیڈر چھپا دیتا ھے ،،
بس یہی کچھ ابلیس کے ساتھ گزر رھی تھی ،، آدم کی تخلیق سے پہلے ابلیس اللہ پاک کو فرشتوں سے زیادہ عزیز تھا ، وہ خطیب الملائکۃ تھا ، وہ اللہ کی نافرمانی برداشت نہیں کر سکتا تھا ، اس نے شریر جنات کے خلاف کئ معرکے لڑے اور فرشتوں کے لشکر کی قیادت کی ،کئ کو قتل کیا اور بہت سوں کو بھاگ کر دور کہیں پانیوں میں اور کہیں دور دراز سیاروں پہ پناہ لینے پر مجبور کر دیا ،، محبت شرک برداشت نہیں کرتی ،یہی وجہ ھے کہ اللہ پاک جو انسان سے محبت کرتا ھے ،، برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ اس کی محبت میں کسی کو شریک کرے ، اور انسان اللہ کو چھوڑ کر جس سے محبت کرتا ھے ، وہ اسے اسی کے ھاتھوں مزہ چکھا کر دکھاتا ھے ،، ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر من دونِ ذالک لمن یشاء ،، اللہ پاک یہ تو کسی کو کبھی نہیں بخشے گا کہ وہ شرک کرے اللہ کے ساتھ ، البتہ اس کے علاوہ کی خطائیں جس کی چاھے گا معاف فرما دے گا ،،،
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رب سے روایت کرتے ھیں کہ آدم جب تخلیق کے مراحل سے گزر رھے تھے تو ابلیس روز چکر لگایا کرتا تھا ،جنات فرشتوں کو دیکھ سکتے ھیں کیونکہ یہ ان کے قریب تر تخلیق ھے ، لہذا تجلی کے ارتکاز کو بھی جانچ لیتے ھیں ، جس طرح آج آلات سے کھوج لگایا جا سکتا ھے کہ کس نمبر پر کس جگہ سگنل جا رھا ھے ،، اللہ پاک کی تجلیوں کا محور آدم تھے اور ابلیس کے دل میں کھٹک تھی کہ کچھ نیا ھونے جا رھا ھے ،کہتے ھیں محبت بے بھروسہ ھوتی ھے جو بیوی شوھر سے جتنی زیادہ محبت کرتی ھے اُتنی ھی زیادہ وسوسوں کا شکار رھتی ھے ،، حضور ﷺ حدیثِ قدسی میں روایت کرتے ھیں کہ ” کان یطیف علیہ ابلیس ” ابلیس آدم علیہ السلام کے پاس چکر لگاتا رھتا تھا اور کہتا تھا ” خلقت ِلاَمرٍ عظیم ” تو کسی بڑی اسکیم کے تحت ھی پیدا کیا جا رھا ھے ،،، تجلیات کے ارتکاز نے اسے حسد میں مبتلا کرنا شروع کر دیا تھا اور آخر اس نے کہہ ھی دیا کہ اللہ کی قسم اگر اللہ نے تجھے میرا تابع بنایا تو میں تجھے بھٹکا دونگا ،، اور اگر مجھے تیرا تابع بنایا تو تجھ سے بغاوت کر دونگا ،،، اور پھر وہ مرحلہ آ گیا !
فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا گیا تو ابلیس اس حکم میں شامل تھا کیونکہ وہ جن ھوتے ھوئے بھی اپنی عبادت اور لگن کی بدولت اعزازی طور پر فرشتوں میں پروموٹ کر دیا گیا تھا فرشتوں نے بھی اعتراض کیا تھا مگر جواب پر سرِ تسلیم خم کر دیا تھا ،،، ابلیس کھڑے کا کھڑا رہ گیا اور سر جھکانے سے انکار کر دیا ! اللہ نے پوچھا ابلیس کیا ھوا ؟ میں نے اتنے پیار سے بنایا اتنے پیار سے تو میں نے زمین و آسمان نہیں بنائے ، اور تو نے سجدے سے انکار کر دیا ،،،،،،، ابلیس جس نے اس سے پہلے ایک بھی گناہ نہیں کیا تھا ، فرشتے کا فرشتہ تھا ،، اللہ کی محبت نے اسے کسی اور طرف متوجہ ھی نہیں ھونے دیا تھا ، عشقِ مجازی ھوتا تو اسے پتہ ھوتا کہ محبت کسی وجہ کی محتاج نہیں ھوتی وہ تو بس ھو جاتی ھے ،، وہ ھمیشہ ستودہ صفات خدا کو سجدہ کرنے والا تھا جس میں کوئی عیب نہیں تھا ،اس سے اس کے ذوق نے بدبودار مٹی کی تخلیق کو سجدہ نہ کرنے دیا ،،، وہ آدم کی تخلیق کے عیب گنوانا شروع ھو گیا ، کہا پروردگار تو نے مجھے تو آگ سے بنایا اور اس کو مٹی سے بنایا ، بے عیب کو سجدے کرنے کے عادی سے بھلا بدبودار مٹی کی تخلیق کو سجدہ کیسے ھو گا ،، ؟ مجھ سے تو ایسا نہ ھو سکے گا ،،
باہجھ میرے تسی سجدہ نہ کرنا ، آپے ھی تُو بولے !
حکم تیرا اُس سچ کر منیا ، سر جُتیاں تے پَولے !
ربا تیری حکمت والے بھید نئیں جاندے پھَولے !
ابلیس نے زندگی بھر شرک نہیں کیا اور اپنی بات پر حشر میں رب کو گواہ بنائے گا ،قرآن کہتا ھے کہ ابلیس نے جب بھی قسم کھائی تو اللہ کی کھائی ،، اور جب بھی پکارا تو رب کو پکارا ، آدم کو سجدے سے انکار کے علاوہ اس کے نامہ اعمال میں کوئی گناہ نہ تھا ،، مگر تُف ھے ان لوگوں پر جو ابلیس کے ” خلقتنی من نارٍ و خلقتہ من تراب ” اے پروردگار تو نے مجھے پیدا کیا آگ سے اور تُو نے پیدا کیا آدم کو مٹی سے ” کے مقابلے میں کہتے ھیں کہ میرا یہ بیٹا بابا شاہ کمال کا ھے ، دوسرا بابا شادی شھید کا ھے اور بیٹی دمڑیاں والی سرکار کی ھے ،، اور یہ مشرک لعنت کرتا ھے ابلیس پر ،، اور مسلمان بھی کہلاتا ھے ! کتنی بے بسی کا مقام ھے کہ وہ کہتا ھے محبت کے لئے میں آدم سے بہتر ھوں ،، تخلیق کے لحاظ سے بھی عمر اور تجربے کے لحاظ سے بھی اور پھر مجاھدے اور قربانی کے لحاظ سے بھی ،، مگر محبت وجہ کی پابند نہیں اور بس یہی وہ نکتہ تھا جو ابلیس کی سمجھ سے بالا تر تھا ،، وہ آدم کی تخلیق کا ایک ایک مرحلہ گنوا رھا تھا کہ شاید کسی مرحلے پہ اللہ کو آدم سے کراھت آ جائے ،،
اذا حلفت فحلف باللہ او لیصمت ” اللہ کے رسول ﷺ ارشاد فرماتے ھیں قسم کھانی ھے تو اللہ کی کھاؤ یا چپ کر جاؤ ،،
بغیر ترجمان خدا ابلیس سے ھمکلام ھے ،، اور آخر اس کو دھتکار دیتا ھے مگر عدل کرتا ھے ظلم نہیں کرتا ،،،،،،
٣٣) قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ (٣٤) وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ (٣٥) قَالَ رَبِّ فَأَنْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (٣٦) قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ-
کہا پس تو نکل جا اس ( حالت یعنی فرشتے کے اسٹیٹس سے ) سے پس تو راندہ گیا ھے ، اور تجھ پر لعنت ھے ” بدلے کے دن تک ” کہا رب میرے مجھے مہلت دے یوم بعثت تک ، کہا تجھے مہلت ھے ایک معلوم دن تک ،،
چونکہ ابلیس نے انکار کر کے فرشتوں کی سرشت سے جدا ایک کام کر دیا تھا ،، جبکہ اس سے پہلے وہ فرشتوں کی طرح ھی رب کا تابع فرمان اور معصوم تھا اور فرشتوں کی طرح ھمیشہ وھی کیا جس کا حکم دیا گیا ،لہذا یہاں اسی اسٹیٹس کو ضبط کیا جا رھا ھے ، پھر شیطان پر لعنت ھمیشہ کے لئے نہیں ھے ” یوم الدین ” تک ھے ،، اور تیسرا یہ کہ اللہ نے بھی اس کی توحید کا بھرم رکھا ھے اور اس پر خاص طور پر الگ کر کے ” مجرد اپنی ھی لعنت ” کی ھے اور اس لعنت میں کسی اور کو شریک نہیں کیا ، جس طرح ابلیس نے کبھی رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کیا تھا فرمایا ” وإن عليك لعنتي إلى يوم الدين قال رب فأنظرني إلى يوم يبعثون قال فإنك من المنظرين إلى يوم الوقت المعلوم ) ، وهو النفخة الأولى ،،،
اور تجھ پر ھے ” لعنتی ” میری لعنت یوم الدین یعنی نفحہ اولی تک !
جبکہ علماء سوء کے بارے میں فرمایا ” اولئک جزائھم ان علیھم لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین – خالدین فیھا ،، لا یخفف عنھم العذاب ولا ھم ینظرون ،،
یہ وہ لوگ ھیں جن پر لعنت ھے اللہ کی اور فرشتوں کی اور تمام نوع انسانیت کی ،، یہ اس لعنت میں ھمیشہ مبتلا رھیں گے ( جبکہ ابلیس پر لعنت الی یوم الدین ھے ھمیشہ کی نہیں ھے ) اس لعنت کی وجہ سے ان سے عذاب مین تخفیف نہیں کی جائے گی اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی ،،،،،،،،،،،،،،،،
قصہ آدم و ابلیس کے پوشیدہ پہلو !
ابلیس نے قسم بھی کھائی تو رب کی بے نیازی اور عزتِ نفس کی قسم کھائی اور کہا ” فبعزتک لاغوینھم اجمعین ،، تیرے عزت و جلال کی قسم ( جس بے نیازی کے ساتھ تو نے مجھے انسان کے خلاف جھٹ مہلت دے دی اسی بے نیازی کی قسم میں ان سب کو گمراہ کرونگا ،، ) ابلیس نے جو کرنا تھا پوری تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا منافقت سے کام نہیں لیا ، ابلیس پر منافقت ثابت نہیں کی جا سکتی ،، ” میں ان کے لئے تیری سیدھی راہ پہ گھات لگا کر بیٹھونگا ، ان کے آگے سے بھی حملہ کرونگا ، پیچھے سے بھی حملہ کرونگا ، دائیں سے بھی آؤں گا اور بائیں سے بھی آؤنگا اور تُو ان کی اکثریت کو اپنا شکر گزار نہیں پائے کہ ( کہ تو نے مجھ کو چھوڑ کر ان کو اپنی محبت کے لئے منتخب کر کے ان پر کتنا بڑا انعام کیا تھا ) میں ان میں تمنائیں پیدا کرونگا پھر انہیں گمراہ کرونگا ، پھر حکم دونگا تو یہ غیروں کے نام پر جانوروں کے کان چھیدیں گے اور حکم دونگا تو تیری تخلیق کو بدل دیں گے ،،،، اور ھم ھیں کہ ان میں سے ایک ایک حرکت کر رھے ھیں مگر مجال ھے جو کبھی شرم محسوس ھوئی ھو ،، شیطان نے اپنا ایجنڈا چھپا کر نہیں رکھا اور رب نے ھر آسمانی کتاب میں اس کا منشور بیان کیا تا کہ انسان خبردار ھو جائیں ،،
جب اللہ پاک نے اسے مہلت دے دی تو پھر اس نے اللہ سے وہ ایکسٹرا صلاحیتیں بھی مانگ لیں ،وہ پاس ورڈز بھی مانگ لئے جن سے انسان کے اندر تک رسائی ممکن تھی ،، یوں انسان ایک Shown to all device ھے یہ شیطان سے کبھی بھی Hidden موڈ میں نہیں رہ سکتا ،،
ابلیس کا ٹرائی بال !
ابلیس نے اپنے کام کی ابتدا آدم علیہ السلام سے کی جن کو اللہ پاک نے ایک باغ میں رھائش عطا فرمائی تھی ،، اسکن انت و زوجک الجنۃ ،، تُو اور تیری بیوی اس باغ میں رھو ،، اس باغ کا ھر پھل کھاؤ ، بس شجرہ ممنوعہ کے قریب مت جانا ورنہ حد میں نہیں رھو گے بلکہ زیادتی کر بیٹھو گے،، یہ اسی قسم کی پابندی تھی جیسی ھم پر احرام کی حالت مین لگتی ھے کہ بیوی کے قریب نہیں جانا اور خلاف ورزی پر دم دینا پڑتا ھے ، یا رمضان کے روزے کی حالت میں دن کو قرب کی ممانعت کر دی ،، بالکل یہی معاملہ آدم علیہ السلام اور اماں حوا کے ساتھ ھوا ،، یہ شجرہ ممنوعہ وہ تھا جس کے ساتھ آدم علیہ السلام کا نام چلنا تھا یوں ان کو خلود ملنا تھا ،، اس شجرہ ممنوعہ کو دونوں نے کھانا تھا ، ایک کے کھانے کا سوال ھی پیدا نہیں ھوتا ،، اس کے نتیجے میں ان کے کپڑے اترنے اور ستر ننگے ھونے تھے ،، یہ سارے پؤائنٹس اس شجرہ ممنوعہ کی حقیقت بیان کر رھے ھیں ،،
قلنا یآدم ان ھذا عدوۤ لک ولزوجک ،، فلا یخرجنکما من الجنۃ فتشقی ، ان لک الا تجوع فیھا ولا تعری ، و انک لا تظمأ فیھا ولا تضحی ،،
ھم نے کہا کہ اے آدم یہ شیطان تم دونوں کا دشمن ھے یہ تم دونوں کو کہیں جنت سے نکلوا نہ دے پھر تم مشقت میں پڑ جاؤ گے ، اس میں تمہیں نہ کوئی بھوک کا مسئلہ ھو گا ( ھر چیز کھانے کو دستیاب ھے ) اور نہ تمہیں عریانی کا سامنا ھو گا ، اور نہ تجھے یہاں پیاس ستائے گی نہ تمہیں دھوپ تنگ کرے گی ،،
آدم علیہ السلام کا ابھی ھنی مون پیریڈ ختم نہیں ھوا تھا ، سب کی نظروں کا تارہ تھے فرشتے سلامیاں دیتے پھرتے تھے کہ ایک دن ابلیس بھی حاضرِ خدمت ھوا اور ان سے سوال کیا کہ اے آدم تو نے موت کے بارے میں بھی کچھ سوچا ھے ؟ موت کیا ھوتی ھے ؟ آدم علیہ السلام نے پوچھا ،، موت یہ ھوتی ھے ابلیس نے جواب دیا اور خود پر جانکنی کا عالم طاری کر لیا ، اس نے کچھ اس خوفناک انداز سے ھاتھ پاؤں موڑ کر ، زبان دانتوں میں پھنسا کر اور تڑپ تڑپ کر جان دینے کا منظر پیش کیا کہ آدم علیہ السلام کے فرشتے بھی ساتھ چھوڑ گئے ،، میں نے اس طرح مرنا ھے ؟ جی جی سب نے اسی طرح مرنا ھے ، مگر سوال یہ ھے کہ پھر یہ بیچاری پیچھے کیا کرے گی اس لق و دق باغ کے اندر ؟ اور اگر یہ مر گئ تو تم کیا کرو گے ؟ آدم علیہ السلام نے پوچھا کہ پھر اس موت کے مسئلے کا حل کیا ھے ؟ اس کا حل یہ ھی ھے کہ تم ایک دوسرے کے قریب آؤ اور اللہ تعالی تم سے بہت سارے آدم پیدا کرے جو اللہ کی تسبیح و تحمید بھی کریں اور تمہارا نام بھی ھمیشہ کے لئے چلتا رھے ؟ تم نہیں ھو گے تو تمہاری بیوی ان بچوں سے اپنا دل بہلائے گی جو تمہاری نشانی ھونگے ،، اور میں قسم کھا کر کہتا ھوں کہ تمہارا خلود اسی طریقے سے ممکن ھے ورنہ موت تمہارا نشان مٹا کر رکھ دے گی ،، فدلھما بغرور ،، چنانچہ اس نے ان کو دھوکے سے گائیڈ کیا ( ایک حقیقت کی طرف ،مگر دھوکا یہ کیا کہ ان کو یوں ظاھر کیا گویا اللہ پاک ان کو ھمیشہ ایک دوسرے سے دور رکھا چاھتا ھے ،، جبکہ حقیقت میں یہ چند روزہ پابندی تھی جس میں آدم علیہ السلام کو یہ بتانا تھا کہ ابلیس کس طرح حقائق کو توڑ مروڑ کر اور وقت کو آگے پیچھے کر کے کس طرح انسان سے گناہ کرا لیتا ھے ؟ پھر گناہ سے نکلنے کا تجربہ کرانا بھی مقصود تھا کہ آدم علیہ السلام کو ایگزٹ بھی دکھایا جائے گویا آدم علیہ السلام ھاؤس جاب پہ تھے ،، اور ابلیس جو کر رھا تھا وہ اسکیم کا حصہ تھا اور آدم علیہ السلام کی تخلیق سے بھی 40 سال پہلے پلان کیا گیا تھا ،، جبکہ ابلیس اپنی طرف سے چالاکی دکھا رھا تھا مگر اللہ کی مشیئت کو ھی پورا کر رھا تھا کہ آدم کو امتحان سے گزار رھا تھا ،، جس طرح یوسف علیہ السلام کے بھائی جب یوسف کو کنوئیں میں دھکا دے رھے تھے تو اصل میں ان کو بادشاھی کے تخت پر بٹھا رھے تھے ، علامہ شعراوی فرماتے ھیں کہ اگر یوسف کے بھائیوں کو پتہ ھوتا کہ اس کنوئیں میں گرنے کا مطلب بادشاہ بننا ھے تو وہ ایک دوسرے کی منتیں کرتے کہ مجھے دھکا دے دو ،، اس واقعے کے بعد جس طرح آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو توبہ کا انعام ملا جو ابلیس کے خلاف انسان کا سرپرائز ویپن ھے ، اگر ابلیس کو اس کا اندازہ پہلے ھوتا تو شاید وہ یہ حرکت کرنے کا کبھی سوچتا بھی نہ ،،،،،،،،
فوسوس الیہ الشیطان ، قال یآدم ھل ادلک علی شجرۃ الخلد و ملکٍ لا یبلی ،فاکلا منھا فبدت لھما سوآتھما و طفقا یخصفان علیھما من ورق الجنۃ ،،
پس اس کو وسوسہ دیا شیطان نے کہ اے آدم کیا میں تجھے پتہ بتاؤں اس درخت کا جو ھمیشگی کا درخت ھے اور ایسی بادشاھی کا جو کبھی پرانی نہیں ھو گی ،، پس ان دونوں نے کھا لیا اس کو اور ان کے ستر ننگے ھو گے جن کو وہ شرم سے ڈھانپتے پھرتے تھے درخت کے پتوں سے ،،،، اسکے بعد پچھتاوے کا شدید حملہ ھوا اور آدم علیہ السلام نے اللہ کے یہاں معافی مانگی ” دونوں نے اپنی ندامت کا اظہار کیا اور دونوں نے اپنی غلطی کا بلا اگر مگر اور ابلیس پر الزام لگائے بغیر اعتراف کیا ” قالا ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین ،، شیطان کا نام لینا اصل میں اپنی مذمت خود کرنا ھے اور شیطان کی فتح کا اقرار کرنا ھے ،، لہذا توبہ کا بہترین طریقہ اپنے آپ کو ملامت کرنا اور رب کے حضور گھٹنے ٹیک کر معافی مانگنا ھے ،، ابلیس کا مشورہ بھی تو ھم نے ھی مانا تھا ، اس نے کونسا ھم پر جبر کیا تھا ،، اور اس کی دشمنی کے بارے میں ھر کتاب اور ھر نبی بتا کر گئے ھیں ، پھر اللہ کی بات پر اعتبار نہ کرنا اور شیطان کی مات ماننے کا اقرار کر کے سمجھنا کہ بوجھ شیطان پر ڈال کر ھمیں دیسی گھی کی چوری کھلائی جائے گی سراسر غیرمناسب ھے ، البتہ حضرت آدم و حواء علیہما السلام اور موسی علیہ السلام اور یونس علیہ السلام کی طرح صاف کہنا کہ ” ربنا ظلمنا انفسنا ” رب انی ظلمت نفسی ” لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین ،، ایک بہترین حکمت عملی ھے اللہ پاک کی رحمت کو متوجہ کرنے کی !
شیطان اللہ کی عدالت میں !
وقال الشيطان لماقضي الأمر إن الله وعدكم وعد الحق ووعدتكم فأخلفتكم وماكان لي عليكم من سلطان إلا أن دعوتكم فاستجبتم لي فلا تلوموني ولوموا أنفسكم، ماأنا بمصرخكم وماأنتم بمصرخي، إني كفرت بما أشركتمون من قبل إن الظالمين لهم عذابٌ أليم”.( ابراھیم-22 )