اب بھی آ جاؤ کچھ نہیں بگڑا

 
(اس کے نام جو کہتا ھے ” میں کبھی مسلمان تھا اب کچھ بھی نہیں ")
مگر کسی کے لئے تم ھی سب کچھ ھو ،،
اس نے تمہیں سوچا تو پھر اس کے بعد کسی کو نہیں سوچا ،،،
اس نے جو بنایا ، تمہارے لئے ھی بنایا ،،،
خلق لکم ،،،
سخر لکم ،،،،
جعل لکم ،،،
انشاء لکم ،،،
ضرب لکم ،،،
زمین و آسمان میں جو کچھ ھے تمہارا ھے ، بس تم اس کے ھو ،،
زمین و آسمان میں جو کچھ ھے وہ تمہاری خدمت کے لئے ھے ، تم اس کی خدمت کے لئے ھو،،،،،،
وہ انہیں اپنی مرضی نہیں کرنے دیتا ،جبر سے تمہاری خدمت کراتا ھے ،،،
تم پر اعتبار کی حد ھے کہ اس نے تمہیں تمہاری مرضی کے حوالے کر دیا ھے ،،،
وہ تمہیں یاد کرتا ھے،یاد رکھتا ھے حالانکہ تم اسے بھلا دیتے ھو ،،،،
وہ تمہیں بخشنے کے لئے تمہیں بلاتا ھے ، اور تم اس سے بھاگتے ھو ،
وہ تمہیں تمہارے کام سے بلاتا ھے ،یدعوکم لیغفرلکم ،، مگر تم انکار کر دیتے ھو ،،
تم اس سے کراھت کرتے ھو اور وہ تم سے محبت کرتا ھے ،،،،
تم اس کے گِلے کرتے ھو اور وہ تمہاری تعریفیں کرتا ھے ،،
آسمان تمہاری نافرمانیاں دیکھ کر تم پہ کچھ گرا کر ھلاک کرنے کی اجازت مانگتا ھے اور وہ اس کو جھڑک دیتا ھے ،،
زمین تمہاری گستاخیاں دیکھ کر تمہیں دھنسا دینے کی خواھش کرتی ھے اور وہ اسے ڈانٹ دیتا ھے ،،،،
سمندر تیری حرکتوں کی وجہ سے تمہیں غرق کرنے کے لئے تڑپتا ھے اور وہ اسے روک دیتا ھے ،،،،
وہ تیرے گناہ گنواتے ھیں تو وہ کہتا ھے تم مجھے اور میرے بندے کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے ؟ اگر گندہ ھے تو میں صاف کرنے والا ھوں ،گنہگار ھے تو میں معاف کرنے والا ھوں ، یہ میرا ھے اور میں اس کا ھوں ،، ان تاب فانا حبیبہ ،، پلٹ آئے تو میں اس کا حبیب ھوں و ان غاب فانا طبیبہ ،، اور اگر نہ پلٹے تو میں اس کا طبیب ھوں اگر تم نے اسے پیدا کیا ھوتا تو تم ضرور اس کو معاف کر دیتے ،،،
وہ کسی سے تیری غیبت سننا پسند نہیں کرتا ،،
ابلیس نے سجدوں کے زعم میں تیری غیبت کی اور تجھے خاک ھونے کا طعنہ دیا ،، اس نے ابلیس کے سجدے اٹھا کر پھینک دیئے ،، تو پھر بھی اس کو سجدہ نہیں کرتا ،،
فرشتوں نے تجھ پہ اعتراض کیا تو اس نے ان کو جھڑک دیا ،، اسے میں ھی جانتا ھوں تم نہیں جانتے ،، میں نے اسے جان کر بنایا ھے ، بنا کر نہیں جانا ، مجھے یہ اپنی ساری خامیوں سمیت قبول ھے ،، اور تجھے رب اپنی ساری خوبیوں سمیت قبول نہیں ،،
اس نے تیرے بارے میں معصوم فرشتوں کے اعتراض کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھا اور تو فاسقوں اور فاجروں کی مجلسوں میں بیٹھ کر اس کے خلاف باتیں سنتا ھے ،،
اتنا کوئی صبر نہیں کرتا جتنا وہ صبر کرتا ھے ،اس لئے وہ صابر نہیں صبور ھے ،،
اتنا کوئی کسی کا انتظار نہیں کرتا جتنا وہ تیرا انتظار کرتا ھے –
اور جب تو پلٹنے کا بس ارادہ ھی کرتا ھے کہ وہ سمندر کی طرح تیری طرف لپکتا ھے ،،
یہ ناراضیاں بس ایویں ھی ھیں ،، اندر سے وہ تمہیں ٹوٹ کر چاھتا ھے اور بہانے ڈھونڈتا ھے تجھے معاف کرنے کے لئے ،،
تیرے لولے لنگڑے عذر بھی بغیر جرح کے قبول فرما لیتا ھے ،،،،،
تو ایک قدم آتا وہ دس قدم آتا ھے تو چل کے آتا ھے وہ دوڑ کر آتا ھے ،،،
تُو پلٹتا ھے تو وہ تجھے طعنہ نہیں دیتا ،سہارا دیتا ھے ،،،،،،،،،،،،،،،،
وہ تیرے گناہ گن گن کے رکھتا ھے تا کہ تو جب ان سے توبہ کرے تو وہ تجھے ان کے بدلے میں نیکیاں تبدیل کر کے دے ،،،،
اس نے تجھے عقل دی کہ وہ تیری خادم بنے ،، اور تو اسے اپنے آقا کے حق میں استعمال کرے ،،،مگر تو نے اس خادم کو ھی آقا بنا لیا اور اپنے حقیقی آقا سے بغاوت کر دی ،،
یہ عقل تو ایک آفس بوائے کی طرح ھے جو تیرے حکم پر تیری پسند کی فائلیں نکال نکال کر لاتی ھے ،،، تو والدین کے خلاف سوچ یہ تجھے والدین کی درجنوں غلطیاں نکال کر دکھائے گی ،، تو ذرا والدین کے حق میں سوچ کر دیکھ یہ تجھے والدین کی درجنوں خوبیاں نکال کر دکھائے گی ،، تو ذرا بیوی کے خلاف سوچ ، یہ تجھے بیوی کی سیکڑوں خامیاں نکال دکھائے گی ، تو ذرا بیوی کے حق میں سوچ یہ تجھے بیوی کی سیکڑوں خوبیاں نکال کر دکھا دے گی ،، یہ تو خود تیری پسند اور ناپسند کی غلام اور کرائے کی وکیل ھے ، تو نے اللہ کے خلاف سوچا تو اس نے تجھے بغاوت کے دلائل فراھم کر دیئے ،، تو ذرا اللہ کے بارے میں مثبت انداز میں سوچ کر دیکھ ، یہ تجھے اللہ کے ھزاروں احسانات گن گن کر دکھائے گی ،،،،
کائنات میں اپنا مقام دیکھو ؟ ایک دن سر سجدے میں رکھ کر اسے اپنی مادری زبان میں بتا دو کہ تم کہاں کھڑے ھو ؟ چھوڑ گئے ھو تو بھی بتا دو ،،کوئی نوٹس دے دو اسے ،، کسی ادارے کو بھی بندہ چھوڑتا ھے تو کوئی الزام لگاتا ھے ،، کوئی عذر پیش کرتا ھے ،، جتنی اعلی پوسٹ پہ ھوتا ھے اتنا قوی سبب بیان کرنا پڑتا ھے تو لوگ یقین کرتے ھیں –
رب کی نیابت کو ترک کرنے کا سبب تو سے بتاتے جاؤ ،، چلو الزام ھی لگا دو ،، میں یقین سے کہتا ھوں کہ جس دن تم نے سر سجدے میں رکھ کر اس سے اپنی مادری زبان میں گفتگو شروع کی – بات تمہید سے آگے بڑھ ھی نہیں سکے گی ،، وہ تمہیں اس طرح اپنی طرف کھینچے گا جس طرح سمندر قطرے کو کھینچ لیتا ھے تم اپنی بات مکمل نہیں کر پاؤ گے ،،
افسوس یہ ھے کہ اللہ کے کلام کو ھم سمجھتے نہیں ،، اور اپنی زبان میں اس سے بات کرتے نہیں ،،نہ ھمیں نماز میں خدا ملتا ھے ،نہ نیاز میں خدا ملتا ھے،، نہ راز ونیاز ھوتے ھیں نہ دل ھلکے ھوتے ھیں ،، انسان اگر عربی سے واقف ھو تو اللہ کا طرز تخاطب ھی انسان کو اللہ کے پیار سے اس طرح بھر دیتا ھے جیسے شہد کا چھتہ شہد سے بھرا لِچ لِچ کرتا ھے ! انسان الفاظ کی بھول بھلیوں میں کھو جاتا ھے ،، الفاظ پیار کھا جاتے ھیں ،،بعض دفعہ کہنے سے زیادہ چپ کر کے اپنے آپ کو اللہ کے آگے ڈال دینا زیادہ سودمند ھوتا ھے ،، جذبوں کو بےلگام چھوڑ دینا زیادہ اچھا ھوتا ھے،، الفاظ رب کی طرف سے آتے ،وہ الفاظ زندگی ھوتے ھیں وھی روح ھوتے ھیں ،، فتلقی آدم من ربہ کلماتٍ ،، فتاب علیہ ،،، آدم علیہ السلام نے صرف آنسو دیئے تھے ،، الفاظ رب نے دیئے تھے !
چلئے میں حسن ظن رکھتا ھوں کہ آپ نے اپنے آپ کو اللہ کے حضور پیش کر دیا ،، اس نے پوچھا کہاں سے رستہ بھولے تھے ؟ تو آپ کے پاس کیا جواب ھو گا ؟ بتانا پڑتا ھے ناں کہ میں نے فلاں جگہ سے دائیں یا بائیں ٹرن لے لیا ھے تا کہ اگلے کو پتہ چلے کہ آپ کس رخ پہ ھیں ؟ یہ سوال اللہ پاک ھر بھولنے والے سے کرتا ھے !
یا ایہا الانسان ! مَا غَرَۜک بِرَبِک الکریم ؟ ائے حضرتِ انسان تمہیں اپنے رب جیسی کریم ھستی کے بارے میں دھوکا کہاں سے لگا ؟ الذی خلقک ،فسواک ،فعدلک ،، فی ائ صورۃٍ ما شاء رکبک؟؟؟
وہ تمہیں سیدھا مسٹر وائی نام کے اس دُمدار کیڑے کے سامنے لا کھڑا کرتا ھے ،، یہاں سے تو چلا تھا ناں ؟ افرأیتم ما تمنون ؟ جو تم ٹپکاتے ھو اسے کبھی غور سے دیکھا ھے؟ یہاں سے تو چلا تھا ،، اسی گندگی سے نکلا تھا تو ،،تو جس کپڑے کو لگا وہ کپڑا چھونے کا روادار بھی کوئی نہ تھا ،اسے پاؤں کی ٹھوکر سے ھینڈل کیا جاتا تھا ،، ھم نے تمہیں اٹھا لیا ،، اپنی جسامت کو دیکھ ! یہ 6 فٹ والی نہیں وہ نمک کے دانے کے پچاسویں حصے والی جو کھلی آنکھ سے نظر بھی نہیں آتی تھی ،، تیرے اس حجم کے حساب سے رحم مادر تک تجھے جانے میں 25 ھزار کلومیٹر کا سفر کرایا گیا( انسانی سپرم کا حجم جو نمک کے دانے سے بھی 50 گنا چھوٹا ھوتا ھے کو رحم مادر تک کے فاصلے سے ضرب دی جائے تو یہ فاصلہ ایک چھ فٹ کے انسان کے حجم سے اتنا بنتا ھے ) ،تیرے دائیں بائیں محافظ لگائے گئے رستے میں ھر کیمیکل تجھے کھانے اور مارنے کو کافی تھا ،مگر ھم تمہیں لے گئے تیری منزل تک،، تیری والدہ میں جو تیرا آدھا حصہ رکھا تھا تجھے اس سے جا ملایا ،،
أانتم تخلقونہ ام نحن الخالقون ؟ اب اس مسٹر وائی کو ھم نے تخلیق کے مراحل سے گزارا یا تم نے پیدا کیا یا وہ کیڑا خود ھی فیصلے کر رھا تھا ؟
چلئے آ پ کہتے ھیں کہ وہ تو جینز فیصلے کر رھے تھے ، بفرض محال ھم بھی مان لیتے ھیں کہ بقول آپ کے جینز شکل و صورت کے فیصلے کر رھے تھے، اور ان جینز کے پیچھے کسی بڑے کا ارادا نہیں تھا !!
مگر باپ بھی وھی ھے ،، پھر ایک مسٹر وائی بھی وھی ھے ،، تیری ماں بھی وھی ھے ،، فیمیل ایگ بھی وھی ھے ،، ڈی این ائے بھی وھی ھے !
پھر تیرے بھائی کی شکل کیوں اور ھے ؟ تیری اپنی تھیوری کے مطابق اسے تیرے جیسا ھونا چاھئے تھا ناں ،،
بدلا کیا ھے جو تیرے بھائی کی شکل بدل گئ ھے ؟ فی ای صورۃٍ ما شاء رکبک ! یہ کسی اور کا ارادہ بدلا ھے کہ تیرے بھائی کی شکل تجھ سے الگ بنائی جائے !! بس وھی خدا ھے ،، وھی جو یخلقکم فی بطون امہاتکم خلقاً من بعد خلقٍ فی ظلماتٍ ثلاث ،، جو تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ میں ایک کے بعد ایک شکل دیئے چلے جاتا ھے ،، اور وہ بھی تین اندھیروں کے اندر !!! وہ تو تمہیں اندھیروں میں ڈیویلپ کر کے روشنیوں میں لایا تھا ،، اور تم پلٹ کر پھر اندھیروں میں جا پھنسے ھو ! توبوا الی اللہ ،، پلٹو اللہ کی طرف،،، اللہ ھی کائنات میں روشنی کا واحد سورس ھے ،، باقی سارے ذرائع اس کی مخلوق ھیں،، اللہ نور السماوات والارض ،، روشنی کا سورس آسمان پر ھو یا تمہاری اپنی ذات کے اندر کا Visual System ھو اس کا خالق صرف اور صرف اللہ ھے،، وھی اللہ جو آج تمہیں نظر نہیں آتا حالانکہ وہ ھر چیز کے پیچھے سے جھانکتا ھے،،
کھول آنکھ زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ !
مشرق سے ابھرتے ھوئے سورج کو ذرا دیکھ !
باز آ ، باز آ ، ھر آنچہ ھستی باز آ –
گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ-
این درگاہِ ما،درگاہِ نومیدی نیست !
صد بار اگر توبہ شکستی باز آ