ایک تو بچیوں کے رشتے ملتے نہیں،اور جو ملتے ہیں وہ جھٹ پٹ کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جاتے ہیں ـ اس میں کوئی استثنی نہیں فرسٹ کزنز میں بھی طلاقیں ہو رہی ہیں ، غیروں کا تو معاملہ ہی الگ ہے ، اسباب بھی بڑے پیچیدہ ہیں ، سوشل میڈیا نے لڑکیوں کو بولڈ کر دیا ہے ، ٹف تعلیم نےان کو ڈی پریس کر دیا ہے ، گھر بسانے کے لئے جو elasticity and flexibility درکار ہے وہ ان میں ناپید ہے ـ گھریلو زندگی میں ہمیشہ دو اور دو چار نہیں ہوتے کبھی پانچ اور کبھی تین بھی ہو جاتے ہیں ـ سوشل میڈیا پر Tit for Tat چلتا ہے مگر گھر میں نہیں چلتا ـ دو چار سال پچ پہ کھڑا رہ کر پچ کا اندازہ کر کے شاٹس کھیلنے ہوتے ہیں ، سسرال سے متعلق لوگوں کی گہری اسٹڈی کرنی پڑتی ہے ، ان کی عداوتوں کے بیک گراؤنڈ دیکھنا ہوتا ھے کہ ان کی کس کس کے ساتھ عداوت ہے ، وہ کس کا گھر میں آنا پسند کرتے ہیں ، لہذا ان کی ہی لائن لینی پڑتی ہے ،، اس گھر کے دشمن اس گھر کی بربادی کے لئے دلہن کو نئے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دلہن کو یہ ہتھیار بننے سے بچنا چاہئے ،، ضروری نہیں جو محلے والی یا شوھر کی کوئی رشتے دار آپ سے محبت جتا رہی ہے وہ واقعی آپ سے محبت کرتی ہو ، وہ آپ سے محبت جتا کر بارودی سرنگ دبا رہی ہوتی ھے ـ
ایسے کسی بھی فرد سے آپ کا میل ملاپ جس سے سسرال والے چڑتے ہوں گھر اجاڑنے کی بنیاد بن جاتا ہے ، جب ساس اور بہو میں چپقلش شروع ہو تو ایسی عورتیں آپ کو بہت اچھی بلکہ ماں اور بہن کی طرح لگنا شروع ہو جاتی ہیں جو دلہن کی سائڈ لیتی ہیں اور ساس کی غیبت اور برائیاں کرتی ہیں ، جو اس کی نندوں کے اسیکنڈل اس کو بتا کر اسلحے سے لیس کرتی ہیں اور عورت اس جنگ میں کود پڑتی ہے جو ہر حال میں اسی کو ہارنی ہوتی ہے ـ میں ہمیشہ لکھتا ھوں کہ گھر قانونی پؤائنٹس سے نہیں بستے اور نہ روز جرگے لگانے سے بستے ہیں ،کوئی جج کوئی مولوی اور مفتی کسی کا گھر نہیں بسا سکتا اگر خود میاں بیوی وہ گھر بسانے پر راضی نہ ہوں ـ آپ کو شاید تجربہ ھوا ہو کہ جب بس خراب ہو جاتی ہے تو جن کی جیب میں کرایہ ہوتا ھے وہ جھٹ اتر جاتے ہیں کہ دوسری بس پکڑ لیں ،، کچھ لوگ مل ملا کر بکنگ کر لیتے ہیں مگر جس کی جیب میں وہی کرایہ ہوتا ھے جو وہ کنڈکٹر کو دے چکا ہے ، وہ ڈرائیور سے بار بار اصرار کرتا ہے کہ یار ایک دفعہ پھر سیلف مار کر تو دیکھو ،، یار تم کوشش تو کرو ،، عورت وہی سواری ہے جو اپنا سب کچھ اس گھر پہ لٹا چکی ہوتی ہے لہذا اسی کو کوشش کرنا ہوتی ہے کہ یہ گھر سیلف سے نہیں تو دھکے سے ہی چل پڑے ،، اس لئے کہ ؎
تو نے تنکے سمجھ کے پھونک دیا ،
میری دنیا تھی آشیانے میں ـ
کے مصداق مرد کو تین حرف نکالتے دیر نہیں لگتی ، اس کی جیب میں کرایہ ہوتا ھے وہ پھر سے گھر بسانے کی پوزیشن میں ہوتا ھے لہذا بےاحتیاطی پہ تیار رہتا ہے ، اگر ٹرک والا سامنے سے آ رہا ھے اور موٹر سائیکل کو دیکھ کر ٹرک کو سائڈ پہ نہیں کرتا تو موٹر سائیکل والا اس قانونی پؤائنٹ کو لے کر کہ میرا بھی سڑک پر حق ہے موٹر سائیکل کو سڑک سے نیچے اتارنے کی بجائے ٹرک سے ٹکرا نہیں دیتا بلکہ اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے ،، خواتین اپنے رائٹس کے بارے میں بحث کرتی ہیں کہ ہمارے کوئی رائٹس نہیں ؟ رائٹس تو آپ کے ہیں مگر ایک بندہ دینے پہ تیار نہیں تو آپ کیا کریں گی ؟ نہ وہ خدا سے ڈرتا ہے نہ قانون سے ،، تو آپ رائٹس لیتے لیتے واپس ابا جی کے گھر چلی جائیں گی ؟ اس کی بجائے کچھ رائٹس کی قربانی دے کر اگر آپ گھر بچا لیں ،، اور بھائیوں بھاوج کے برتن دھو کر اور ان کے بچوں کی آیا بن کر جینے کی بجائے اپنے گھر کی غریب ملکہ بن کر رہیں تو بہتر نہیں ؟ سسرال میں جیسی بھی گزرے والدین کے گھر پلٹ کر جانے سے بہتر ہی ہوتی ھے اور میکے میں بھی اسی کی عزت ہوتی ھے جو سسرال میں بس رہی ہو ـ لچک پیدا کرنا ، گنجائش نکالنا ، صبر کرنا اور اس لمحے کو نکل جانے دینا کہ جو گھر کو آگ لگا سکتا ہے عورت کا گھر بسانے کے لئے ضروری ہے ، اپنے رائٹس کے لئے آواز اٹھائیے مگر جب رائٹس ملنے کی بجائے اس گھر میں رہنے کا حق بھی ہاتھ سے نکلتا نظر آئے تو قدم پیچھے کر لیجئے ،، ہمیشہ آگے بڑھنا ہی جیت نہیں ہوتا ، رسہ کشی میں وہی ٹیم جیتا کرتی ہے جو الٹے قدموں پیچھے ہٹنا جانتی ہے اور دشمن کو منہ کے بل گرا دیتی ہے ـ
ساس کو مقابلے کی ٹیم سمجھ کر ٹکرا مت جایئے ، آپ کا اور ساس کا کوئی مقابلہ بنتا نہیں ،، اس کو ماں سمجھ کر اس کی ڈانٹ ڈپٹ کو تربیت کا حصہ سمجھ کر قبول کر لیں اور اس کی مرضی کی بنتی چلی جائیں ، پہلے آپ اپنی ماں کی مرضی کی بنی تھیں اب اگر ساس آپ میں کچھ تبدیلیاں کرنا چاہتی ہے تو یہ ایک فطری چیز ہے ۔ گاڑی جب نئے مالک کے پاس جاتی ہے تو وہ اس کو اپنے مزاج اور ذوق کے مطابق سجاتا ہے ، نیا گھر لیا جائے تو بھی نئے مالک یا کرائے دار اپنے ذوق کے مطابق اس میں تبدیلیاں کرتے ہیں یہی کچھ بہو کے ساتھ سسرال میں ہوتا ہے ،، جو بہو سسرال کی تبدیلیوں کا ساتھ نہیں دیتی وہ گھر نہیں بسا سکتی ـ جب آپ جوسر لیتی ہیں تو اس کے ساتھ کچھ چیزیں ضرورت کے وقت لگتی اور الگ ہو جاتی ہیں جیسے مصالحہ جات پیسنے والی مختلف گرینڈرز مگر خود مشین Detachable نہیں ہوتی وہ ایک مستقل ثابت وجود رکھتی ھے ،، بہو اس گھر کی Detachable چیز ہے ضرورت کے تحت لائی گئ ہے ، ٹوٹ جائے تو دوسری اور تیسری بھی لائی جا سکتی ھے مگر شوھر کی ماں ،بہن اور والد بھائی یہ اس گھر کی حقیقت ہیں وہ بےشک آپس میں سالوں نہ بولیں مگر جدا نہیں ہو سکتے ،، کل غمی خوشی پر وہ پھر ایک ہونگے ،، وہ تبدیل نہیں ہو سکتے ،replace نہیں ہو سکتے ،، اب آخری بات جو سب سے اہم ہے اور وہ ہے سسرال کی رازداری، گھروں میں ڈھیر سارے معاملات ہوتے ہیں جو کوئی بھی پسند نہیں کرتا کہ باہر نکلیں ، جس طرح بہو اپنے میکے کے پردے رکھتی ہے اسی طرح اس کو سسرال کے پردے رکھنے ہونگے ، اپنے میکے جا کر اپنے سسرال کا تھیئٹر لگانا خود اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھانے والی بات ہے ، سسرال آپ کا اپنا گھر ہے ، اپنی بادشاہی ہے اور آپ کی اولاد کا مستقبل ہے ، بہو کا جنازہ بھی سسرال کے قبرستان میں دفن ھوتا ہے لہذا کبھی بھی اپنے میکے والوں میں اپنے سسرال کی برائی مت کیجئے ـ گھوم پھر کر بات نکل جاتی ہے اور آپ سسرال کی نظروں سے گر جاتی ہیں ـ اللہ پاک نے سورہ نساء میں ان عورتوں کی تعریف فرمائی ہے جو سسرال کے رازوں کی حفاظت کرتی ہیں حافظات للغیب بما حفظ اللہ کا مطلب یہی ہے کہ جن رازوں پر اللہ پاک نے پردہ ڈالا ھوا ہے وہ ان کو افشاء نہیں کرتیں ـ اپنی اس حیثیت کو اگر عورت سامنے رکھے گی تو کبھی گھر نہیں اجڑے گا ،، بہت ساری قربانیوں اور ڈھیر سارے وقت کے بعد پھر وہ وقت آتا ہے جب بہو ساس بن کر خود un-detachable بن جاتی ہے ،، مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ ـ
ازدواجیات ۔
ہماری ایک عزیزہ کی بیٹی کی شادی مری میں ہوئی ہے۔ اگست میں وہ بیٹی کے پاس مری گئ ہوئی تھی رات کو اسے سردی لگی تو اس نے گوجرخان اپنے گھر والوں کو فون کیا کہ ڈنگر اندر باندھ دیں باھر ٹھنڈک ہے۔ بیٹے نے غصے سے کہا یہاں آگ برس رہی ہے اور آپ کو ٹھنڈک لگی ہوئی ہے ۔
امریکہ اور کینیڈا والی خواتین یہی حال پاکستانی خواتین کے ساتھ کرتی ہیں۔ خود تو سوشل سیکورٹی والے ممالک میں رہتی اور طلاق کی صورت میں نصف جائداد کی مالک بن جاتی ہیں جبکہ پاکستانی بچیوں کو بانس پر چڑھا کر طلاق کی راہ ہموار کرتی ہیں اور ان کا گھر اجڑ جانے کے بعد پلٹ کر پوچھتی بھی نہیں کہ ان کے مشورے نے لڑکی کا کیا حشر کیا ہے۔ پاکستان والی لڑکیاں مشورہ قبول کرنے سے پہلے آنٹی کی پروفائل چیک کر لیا کریں کہیں وہ ٹورانٹو سے تو نہیں بول رہیں۔
ہماری ایک عزیزہ کی بیٹی کی شادی مری میں ہوئی ہے۔ اگست میں وہ بیٹی کے پاس مری گئ ہوئی تھی رات کو اسے سردی لگی تو اس نے گوجرخان اپنے گھر والوں کو فون کیا کہ ڈنگر اندر باندھ دیں باھر ٹھنڈک ہے۔ بیٹے نے غصے سے کہا یہاں آگ برس رہی ہے اور آپ کو ٹھنڈک لگی ہوئی ہے ۔
امریکہ اور کینیڈا والی خواتین یہی حال پاکستانی خواتین کے ساتھ کرتی ہیں۔ خود تو سوشل سیکورٹی والے ممالک میں رہتی اور طلاق کی صورت میں نصف جائداد کی مالک بن جاتی ہیں جبکہ پاکستانی بچیوں کو بانس پر چڑھا کر طلاق کی راہ ہموار کرتی ہیں اور ان کا گھر اجڑ جانے کے بعد پلٹ کر پوچھتی بھی نہیں کہ ان کے مشورے نے لڑکی کا کیا حشر کیا ہے۔ پاکستان والی لڑکیاں مشورہ قبول کرنے سے پہلے آنٹی کی پروفائل چیک کر لیا کریں کہیں وہ ٹورانٹو سے تو نہیں بول رہیں۔
ازدواجیات ۔
You can force the Horse to the pond,but you can not force him to drink.
سادہ الفاظ میں کہا جا رہا ہے کہ تم گھوڑے کو زبردستی تالاب تک تو لا سکتے ہو ، مگر زبردستی پانی نہیں پلا سکتے۔
گہری بات یہ ہے کہ تم بیٹے یا بیٹی کی شادی تو زبردستی کر سکتے ہو، مگر اسے شوھر یا بیوی سے محبت کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ وہ بچے بھی پیدا کرتے رہیں گے،بچے پالتے بھی رہیں گے ، مگر یہ محبت کا ثبوت نہیں۔
اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا کہ ولوا کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک۔ اگر آپ تند خو، اور سخت دل ہوتے تو یہ یعنی صحابہ کرام آپ کے گرد سے چھٹ جاتے،تتر بتر ہو جاتے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہستی تھے کہ جن کے چہرہ اقدس کو اللہ پاک بھی بشوق تکا کرتے تھے۔ فانک باعیننا۔،، الذی یراک حین تقوم،و تقلبک فی الساجدین۔ آپ ہماری آنکھوں میں بستے ہیں، وہ رحمان جو آپ کو تکتا رہتا ہے جب آپ قیام میں ہوتے ہیں اور جب آپ سجدہ کرنے والوں میں سے گذر کر آتے جاتے ہیں تب بھی وہ آپ کو ہی تکتا رہتا ہے”۔ اللہ پاک ہر چیز کو دیکھتا ہے مگر تکتا صرف اپنے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو تھا۔ دیکھنے اور تکنے میں seeing& watching والا فرق ہے۔
پھر عورت ایک تندخو,سخت دل،کینہ پرور،اور منتقم مزاج شوھر کے ساتھ بخوشی کیسے رہ سکتی ہے وہ ایک حد تک برداشت کرتی ہے پھر جب دیکھتی ہے کہ اس کی اولاد اس کی مجبوری بن گئ ہے اور ستم شعار اس مجبوری کو ایکسپلائٹ کر رہے ہیں تو وہ بچے نہر میں پھینک دیتی ہے اور یہی کچھ مرد کی طرف سے بھی ہوتا ہے کہ وہ سب کو سوتے میں ذبح کر دیتا ہے۔ آخر کوئی اس انتہائی اقدام تک کیسے پہنچتا ہے؟ رویئے ساون کی جھڑی کی طرح انسان کے اندر سرایت کرتے اور اس کی شخصیت کو کمزور کرتے رہتے ہیں۔
لہذا پہلا قدم درست رکھیں گے تو دیوار بھی سیدھی بنے کی اولاد کو اس کی شادی کے بارے میں مشورے میں شریک کریں, اور پہلے منگنی کریں نکاح نہیں، سال چھ ماہ لڑکی لڑکے کو ایک دوسرے کی طبیعت سے واقف ہونے دیں، اگر لڑکا منگنی کی حالت میں ہی کپڑوں پر اعتراض شروع کر دیتا ہے یا پابندیاں لگانا شروع کر دیتا ہے کہ فلاں فلاں کے گھر مت جایا کرو تو یقین جانیں شادی کے بعد وہ والدین کے گھر بن بھی نہیں جانے دے گا۔ طلاق کی نسبت منگنی توڑنا بہتر ہے ۔ شادی کے بعد میاں بیوی خوراک سے زیادہ اپنے رویوں پر نظر رکھیں۔
مرد اگر بات بے بات عورت پر سختی کرے گا,اور اس کو اس طرح ڈیل کرے گا جیسے بندر اور ریچھ کو سکھانے والے کرتے ہیں تو گھر کبھی نہیں چلے گا،اسی طرح عورت اگر شوھر سے پولیس والوں کی طرح سلوک کرے گی اور روز عدالت لگائے گی، فون کی کال ہسٹری اور میسیجز چیک کرتی پھرے گی تو بہت جلد فارغ ہو جائے گی۔ یا مرد رسی تڑا کر بھاگ نکلے گا اور بیوی شادی کی البم دیکھ کر دل بہلاتی پھرے گی۔ اپنی زبان و بیان اور روئیے پر نظر رکھیں ۔
ھذا ما عندی،والعلم عنداللہ
قاری حنیف ڈار بقلم خود