اسلامی نظام” کی اصطلاح وہ ٹرک کی بتی ہے جس کے نام پر دنیا بھر میں جماعتیں اور تنظیمیں بنی ہوئی ہیں۔ جبکہ اس مشہورِ عالم اسلامی نظام میں نظام یا سسٹم کی پہلی اینٹ ہی موجود نہیں۔ یعنی اس نظام کا سربراہ کیسے چنا جائے گا؟
اس کی مدت کتنی ہو گی ؟
اس کا مؤاخذہ کیسے کیا جائے گا اور ھٹایا کیسے جائے گا۔؟
سسٹم کی لاکھوں پیچیدگیوں کو ایک طرف رکھئے ایک سسٹم میں معمول کی کارروائی یعنی حکومت کا سربراہ تبدیل کرنا جو جاپان میں بعض دفعہ سال میں تین مرتبہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے،اپنے یہاں جب کرائسس پیدا ہوا تو کوئی ایسا ادارہ ہی سرے سے موجود نہیں تھا جہاں خلیفہ کے خلاف شکایت کی جاتی اور اس ادارے کا فیصلہ خلیفہ سمیت سب کے لئے ماننا ضروری ہوتا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ چھت پر کھڑے ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ گلی میں کھڑے ہیں، بلوائیوں سمیت باقی لوگ بھی گلیوں میں کھڑے ہیں اور چیخ چیخ کر مذاکرات ہو رہے ہیں۔ خلیفہ زار و قطار رو کر اپنے خلاف الزامات کی صفائی۔ دے رہے ہیں اور اسلام کے لئے اپنی خدمات گنوا رہے ہیں، نیز اپنے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعریفی و توصیفی ارشادات پیش فرما رہے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کچھ باتوں پر خلیفہ وقت سے عہد و پیمان لیتے اور مجمعے کو ٹھنڈا کرتے ہیں، حضرت عثمان ذوالنورین چھت سے اتر کر آندر جاتے ہیں تو مروان بن الحکم چھت پر چڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ تم لوگ خلیفہ کی سادگی اور رحمدلی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ان سے شرطیں منوا رہے ہو, ہمارا اور تمہارا فیصلہ تلوار کرے گی۔
تلوار کا فیصلہ ہو جانے کے بعد نیا سربراہ حکومت کون بنے گا یہ طے کرنے کو کوئی ادارہ موجود نہیں تھا ، بلوائیوں نے جس شخصیت کو خلیفہ منتخب کیا وہ مسلمانوں کے لیے کوئی غیر معروف ہستی نہیں تھے، نہ ہی وہ عراق وشام کے باشندے تھے آنجناب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد،چچازاد بھائی اور لے پالک بھی تھے، عشرہ مبشرہ میں سے بھی تھے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کمیٹی کے رکن بھی تھے، ان کی صلاحیتوں کی تعریف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئ بار فرمائی تھی۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسی ہستی کے لئے ایک نظام میں کوئی جگہ نہیں تھی تو پھر اس کو نظام اور پھر اسلامی نظام کہنا کہاں تک انصاف ہے؟
آج کے دور میں اسلامی نظام کو قائم کرنے کے دعویداروں نے جہاں بھی قدم رکھا بستیوں کی بستیاں ویران کر دیں، ملک اجاڑ دئیے، بیواؤں اور یتیموں کی لاکھوں کی کھیپ تیار کر دی اور اسلام کا خونخوار چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ال ش ب اب نے صومالیہ تہس نہس کر دیا، ب و ک و حرام نے نائجیریا میں دھشت پھیلا دی اسکولوں کالجوں کی ھزاروں لڑکیاں اٹھا کر لونڈیاں بنا لیں اور ان کی خرید وفروخت کے بازار قائم کیئے دا ع ش نے شام و عراق میں بربریت کا وہ کھیل کھیلا کہ ھلاکو بھی اس کے سامنے شرما جائے۔ اور ہمارے یہاں غازی برادران کی امت نے انسانی سروں سے فٹبال کھیلا ۔ کونسا اسلام اور کونسا نظام ؟؟ مولوی عبد العزیز ٹیبل بجا کر کہتا ہے کہ ہم پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے،ہمارا آئین قرآن ہے ، کیا یہ قرآن اس وقت موجود نہیں تھا جب حکومت کی تبدیلی پر بہترین لوگ بھی اس قرآن میں سے کوئی حل نہ دریافت کر سکے؟ اسی چھیاسی ہزار انسان مر مٹے، اور قیامت تک امت میں نفرت و عداوت کی دیواریں کھڑی ہو گئیں۔
قرآن نہ کسی نظام کی بات کرتا ہے، نہ اس نظام کا ڈھانچہ پیش کرتا ہے، قرآن صرف اور صرف انفرادی تزکیئے کی بات کرتا ہے،قرآن کا مخاطب فرد ہے کوئی ملک یا نظام نہیں۔ افراد کا تزکیہ قرآن کا موضوع ہے۔ مولوی یہ مشکل کام کرنے اور اخلاقی قدروں کی ترویج کی بجائے "اسلامی نظام” کے نعرے کے پیچھے اپنی سیادتیں اور سرداریاں قائم کرنے کے چکر میں معاشرے کی تباہی کا سامان کر رہے ہیں۔
صوفیاء کے عقائد ونظریات پر بحث کی گنجائش موجود ہے،مگر سچی بات یہ ہے کہ لوگوں کے تزکیئے کے لئے صوفیاء نے درست منہج اختیار کیا، کسی انسان کو بدلنے کے لئے جس تقدس کی ضرورت ہوتی ہے وہ نبوت کے بعد حکومت نہیں بلکہ صوفیاء کی بیعت نے پیدا کیا،قانون کے خوف کی بجائے اللہ پاک کے قرب کی راہ دکھائی اور اس قرب کی خاطر بری عادات کو قربانی کے طور پر ترک کرنے کی راہ سجھائی۔ افراد اگر کم ماپنا تولنا چھوڑ دیں۔ ملاوٹ کرنا چھوڑ دیں، جھوٹ بولنا ترک کر دیں ہر قسم کی حرام خوری سے باز آ جائیں۔بیواؤں اور یتیموں کو ان کا حق دیں۔ ایک دوسرے سے محبت و مودت کا رشتہ قائم کریں، اپنی ضرورت کو تج کر کسی مسکین کو لقمہ کھلا دیں ، تو قرآن انہی تعلیمات سے بھرا پڑا ہے،یہی اسلام بھی چاہتا ہے۔۔ وعداللہ الذین آمنوا” منکم "و عملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض۔ صرف صحابہ سے وعدہ تھا جو پورا کر دیا گیا۔ اب حکومت کی بجائے افراد کی تربیت پر توجہ دیجئے،یہ نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت ہیں علماءِ کے ہاتھ میں اور قیامت کے دن ان علماء سے یقینا اس امانت کے بارےمیں پوچھا جائے گا کہ ان کو کہاں اور کیسے ضائع کیا۔