قریش کی دونوں شاخوں یعنی بنو امیہ اور بنو عباس نے خلافت کے نام پر جو گل کھلائے،،جس بے دردی سے علماء کو شہید کیا،، صحابؓہ کو شہید کیا، جس دھڑلے سے حرمین یعنی مکہ اور مدینہ کی بے حرمتی کی ،بیت اللہ کو منجنیقوں سے مسمار کیا،،آگ لگا دی،حضرت اسماعیل علیہ السلام کے زمانے کے تبرکات، تک جلا دیئےگے،حرم کا صحن جو کچا ریت والا تھا ،اس میں انسانی خون جب تک گھوڑوں کے سموں تک نہیں پہنچا حجاج قتل عام کرتا رھا کیوں کہ اس نے قسم کھائی تھی کہ جب تک میرے گھوڑے کے سُم خون مین نہیں ڈوبیں گے تب تک قتال نہیں روکوں گا،، علماء کو بلاتا اور ان کو پوچھتا کہ بتاؤ تمہیں کس طریقے سے قتل کروں،، خلافتِ عباسیہ میں مشہور خلیفہ یا بادشاہ ،منصور السفۜاح،سفاح اس کا لقب اس کی بے دردی کی وجہ سے پڑا تھا،یعنی خونخوار،بے رحم،اس کا بیٹا مہدی،پھرمہدی کے دو بیٹے،الھادی اور ھارون رشید،، اس ھادی کو لونڈی کے ذریعے یحی برمکی نے قتل کرایا،، یہی حال اسپین کی خلافت کا تھا،، ان خلیفوں کے آگے ،زرداری اور مشرف جیسے پانی بھرتے ھیں،، آپ کوئی سی بھی تاریخ اسلام اٹھا لیجئے اور آج کے سیاستدانوں سے تقابل کر لیجئے! ایک خلیفہ صاحب نے تو ماشاء اللہ اپنی لونڈی کو حالتِ جنابت میں اپنا جبہ پہنا کر بھیج دیا تھا کہ عصر کی نماز پڑھا آئے!!
اب آیئے اپنے ملک پاکستان کی موجودہ صورتِحال کی طرف !
الحمدُللہ پاکستان دنیا کا انوکھا ملک ھے،،اس جیسا کوئی ملک نہین ھے، اس کی مثال دنیا مین نہیں ھے،، دنیا کا واحد ملک ھے،جس نےبحیثیت ملک کلمہ پڑھا ھے،، سعودیہ سمیت دنیا کے کسی اسلامی ملک کے آئین میں یہ نہیں لکھا ھوا کہ” اس ملک ِ خداداد میں کوئی قانون قرآن اور سنت کے خلاف نہیں بنایاجا سکتا(No legislation will be done repugnant to the Quran and theSunnah) اب یہ پاکستان کا لا الہ الا اللہ،محمدرسول اللہ ھے ، جس طرح ھم کلمہ پڑھ کے ڈھیر ساری خلاف ورزیاں کر رھے ھیں،،اسی طرح اس ملک سے بھی خلاف ورزیاں کروا رھے ھیں،، مگر یہ ملک ایک خاص مقام رکھتا ھے،اللہ کی قضاو قدر کے فیصلوں میں، اور اللہ ھی اس کو بچاتا چلا آرھا ھے،،اس کی زمین کو خزانوں سےبھر کے رکھ دیا ھے،، جو بات اس کے پانی میں ھے وہ کسی اور ملک کے پانی میں نہیں ھے،،وھی پانی انڈیا میں بہتا ھے تو اور ذائقہ رکھتا ھے مگر جب پاکستان میں داخل ھوتا ھےتو اس کے پھلوں مین وہ ذائقہ اور خوشبو بھر دیتا ھے، جو انڈیا والوں کو چکھاتا بھی نہیں،،،
پاکستان میں نظام کی درستگی اصل سوال ھے،اوراگر دینی جماعتیں چاھییں تو آسانی کے ساتھ ایک فلاحی ریاست قائم کر سکتی ھیں،، متناسب نمائندگی کا انتخابی قانون بنوا لیں،،ھر جماعت اپنے منشور میں اس کا ذکر کرتی ھے مگرمخلص نہیں ھے،،اس کے چند فائدے ھیں جو موجودہ جمہوریت کو ھی موعودہ خلافت میں تبدیل کر دیتی ھے،،موعودہ سے مراد وہ خلافت جس کا خواب علماء قوم کو 65 سال سے دکھا رھے ھیں!1= اس سے حلقہ بندیوں کے عذاب اور دھاندلی سے نجات مل جائے گی،،2= اس سے پورے ملک مین پڑنے والا ایک ووٹ بھی ضائع نہیں ھو گا!! 3-اس سے امیدواروں کی بلیک میلنگ سے نجات ملے گی کہ میں سیٹ وننگ امیدوار ھوں،،اور پارٹی گرفت مضبوط ھو گی جو امیدواروں کو بےلگام ھونے سے روکے گی،،اگر کوئی امیدوار گڑبڑ کرے گا تو پارٹی اسی وقت کان سے پکڑ کرباھر نکال دے گی اور بغیر ضمنی الیکشن کے اسی دن دوسرے بندے کو حلف دلا دے گی ،، یوں ضمنی الیکشن کے اخراجات سے بھی نجات ملے گی-4= پارٹیوں کی مجبوری ختم ھو جائے گی کہ وہ لازماً ایک کرپٹ مگر اثر و رسوخ والے امیدوارکو ٹکٹ دے،، ھر جماعت کو ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے اسے سیٹیں ملیں گی اور وہ اپنی مرضی کے مطابق لائق فائق بندے حلف کے لئے دے گی،، مثلاً جماعت اسلامی کو 30 سیٹیں ملتی ھیں تو ،جماعت کی شوری طے کرے گی کہ وہ 30 کون کون ھوں،،بحث ھو گی شوری میں، اور پھر طےھو گا،،یوں یہ گلہ بھی دور ھو جائے گا کہ جناب موچی اور چیف جسٹس کا ووٹ برابر ھے،”یہاں بندوں کو گنا کرتے ھیں تولا نہیں کرتے” والا کانسپٹ بھی مر جائے گا،، اب شوری تول کر فیصلہ کرے گی،، جن ممالک میں اسلامی حکومتیں آئی ھیں،سب میں متناسب نمائدگی والا نظام ھے،، ورنہ اسلامی جماعتوں کا ووٹ بینک سب سے زیادہ ھونے کے باوجود بے بس اور بے فائدہ ھو کر رہ جاتا ھے،، موجودہ نظام میں اگر یہ تبدیلی کر لی جائے تو یہ نظام اس اموی اور عباسی خلافت سے ھزار درجہ بہتر ھے،، جس کا خواب دیکھتے ھم بھی بوڑھے ھوگئے ھیں !!
اسلام، خلافت اور جمہوریت !
نبی کریمﷺ کواللہ پاک نے اس امت کے لئے اسوہ بنا کر بھیجا ھے اور آپﷺ نے اللہ کی زیرِ ھدایت دین مکمل طور پر علمی اور عملی دونوں صورتوں میں پہنچا کر نبیوں کے بعد سب سے بہترین لوگوں سے اس کی گواھی لے لی ھے اور اللہ کو گواہ بنا لیا ھے،، آپ سے جب بھی کوئی مسئلہ دریافت کیاجاتا تھا ،آپ خاموشی اختیار فرماتے ،تا آنکہ آپ کو رب کی طرف سے جواب القاء کیاجاتا،، نبیﷺ نے حلت اور حرمت کے سارے فیصلے فرما دیئے ھیں اور اب اس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں،، اب قیاس سے ھی کسی چیز کو جائز یا ناجائز کہا جائے گا،، قرآنِ حکیم نے حلت اور حرمت کو محفوظ کر لیا ھے اور افراد کے ذاتی علم و تقوے کو حلت اورحرمت کا جواز نہیں بنایا جا سکتا ! قرآن کی مروجہ تفسیر نبیﷺ نے نہیں فرمائی،،اورحلت و حرمت کے علاوہ کسی تکوینی امور کی تفسیر کو نہیں چھیڑا اور اسے آنے والی نسلوں کے علمی ارتقاء پر چھوڑ دیا اور یہ امتِ مسلمہ پر نبی کریمﷺ کا بے پایاں احسان ھے ،، ورنہ نبیﷺ کی تفسیر کے بعد عام لوگوں کے لئے مجال بہت محدود ھو جاتی !اور مسائل پیدا ھوتے،، اس کا اندازہ آپ کواس بات سے ھو جائے گا کہ نبیﷺ کریم کےحتمی تفسیر نہ کرنے کے باوجود لوگوں نے اپنے زمانے کی تفاسیر کو ھی فائنل تفسیرسمجھا اور اس کے خلاف کو خلافِ اسلام سمجھا اور اس سے اختلاف کرنے والے کو گمراہ قرار دیا گیا، اپنے رسم و رواج کو اسلام اور تقوے کی سند عطا کر کے لوگوں کو اسے ماننے پر مجبور کیا گیا، چاھے وہ دباؤ،عہدے کا ھو یا سماجی ھو،، مگر عقلوں پرقدغن لگانے کا ھر دستیاب ذریعہ آزمایا گیا ،اگر کسی نے خود جبر نہیں کیا تو اس کےچاھنے والے،اور حواریین نے اپنے شیخ اور ،مرشد، اور استاد کو حرف آخر گردانا،، اب اس وقت جو مسئلہ زیرِ بحث ھے وہ اسلام میں شورائی نظام کی عملی صورت ھے،،کہ قران نے مسلمانوں کے معاملات مشورے سے طے کرنے کا اصول دیا اور اس کی کوئی فائنل عملی شکل طے نہیں کی اور نہ نبی کریمﷺ نےاپنے عمل سے اس کی تفصیل طے فرمائی ، آپ نے عملاً کسی کو اپنا خلیفہ نہ بنا کر،رستہ کھُلا چھوڑ دیا کہ عمرانی ارتقاء کے ساتھ جو صورت بھی مشورے کی طے کر لی جائے گی،،اسلام کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ! اصل میں مذھب کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ھونے جا رھا تھا کہ نبی سے نبی ٹیک اوور نہیں کر رھا تھا،،کیونکہ نبوت ختم ھوگئی تھی،، پہلے یوں ھوتا تھا کہ پہلا نبی دوسرے نبی کو چارج دیتا تھا،اور وہ نبی پھر آگے مختلف علاقوں میں اپنے نمائدے مقررکرتا تھا، جن کو کبھی نقیب،تو کبھی حواریین کہا جاتا تھا،، مگر اب پہلی دفعہ ایک نبیﷺ رخصت ھو رھے تھے،مگر چارج لینے کو کوئی نبی دستیاب نہیں تھا،کیونکہ نبوت کاادارہ ختم ھو گیا تھا،، اب اگر نبیﷺ کسی کو بھی خلیفہ مقرر فرماتے تو خدشہ یہ تھاکہ بعد والے اس کو نبی قرار دے دیتے، یا حکومت کو اس کا آسمانی حق سمجھ کر ھمیشہ اس کے خاندان میں مستقل کر دیتے،،لہٰذا نبیﷺ نے اپنی ذاتی خواھش کے باوجود اس سےاجتناب فرمایا اور حاکم کا انتخاب قیامت تک مومنوں کی صوابدید پر چھوڑ دیاغالباً اس میں اللہ پاک کی رضا شامل تھی،، اگرچہ آپ نےحضرت عائشہؓ سے اپنی اس خواھش کا اظہار فرمایا کہ میرا جی چاھتا تھا کہ میں تمہیں کہوں کہ اپنے باپ اوربھائی کو بلاؤ تا کہ میں لکھوا دوں،ایسا نہ ھو کہ کوئی طمع کرنے والا حکومت کےمعاملے میں طمع کرے،، مگر پھر میں نے سوچا کہ اللہ اور اس کا رسول اور مومن سوائے ابوبکرؓ کے کسی اور پر راضی نہ ھوں گے( بخاری) مگر یہ بات میاں بیوی کی پرسنل ڈسکشن کی حد تک تھی،نہ تو نبیﷺ نے مجمعے میں اس کااظہار فرمایا اور نہ ھی ابوبکرؓ کی خلافت کے وقت اس حدیث کو دلیل بنایا گیا –
نظام خلافت کیسےقائم ھو گا ؟
نبئ کریم ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہؓ میں اگر خلافت 30 سال سے بھی پہلے خونی ھو گئ تھی ، اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت ایک محدود علاقے پر ھی قائم ھوئی ،زیادہ تر مفتوحہ علاقے حضرت معاویہؓ کے قبضے میں رھے ، اس کی وجوھات پر نہایت باریک بینی سے غور کرنے کی ضرورت ھے !
1- مشورے کا طریقہ کار کیا ھو گا ؟
2- مشورہ دینے والوں کی اھلیت کیا ھو گی ؟
3- خلیفہ کی ٹرم کتنی ھو گی اور اس کو موت ھی ھٹائے گی یا کوئی اور طریقہ بھی ھے ؟
ابتدائی مشورہ سقیفہ بنو سعد میں ھوا ، جس میں بنو ھاشم سرے سے شامل نہیں تھے ،، بعد میں ووٹ آف کانفیڈنس مسجدِ نبوی میں لیا گیا ،،
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سیدھا سیدھا حضرت عمرؓ کو نامزد کر دیا !
حضرت عمر فاروقؓ نے عشرہ مبشرہؓ میں سے باقی بچ جانے والے 6 اصحاب پر مشتمل کمیٹی بنا دی ، جس سے خلیفہ چنا جا سکتا تھا ،، جو اپنی امیدواری واپس لے لے وہ الیکشن کمشنر بن جائے گا ، یوں حضرت عبدالرحمان بن عوف نے امارت کی دوڑ سے باھر ھو کر چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات سنبھال لئے ، اور گھر گھر جا کر ،مسجد مدرسے اور حج عمرے کے اجتماعات میں لوگوں سے رائے لے کر ،، پھر دونوں امیدواروں سے انٹرویو کر کے عمامہ حضرت عثمان غنیؓ کو باندھ دیا !
حضرت عثمان غنیؓ کو ھٹانے کا اختیار سوائے ان کی ذات کے اور کسی کے پاس نہیں تھا ،، نہ کوئی ایسا ادارہ تھا جہاں خلیفہ کے خلاف مقدمہ درج کرایا جائے اور وہ عدالت اتنی آزاد اور طاقتور ھو کہ لوگ مطمئن ھوں کہ وہ خلیفہ کو ھٹا سکتی ھے ،، یوں سوائے استعفے یا شہادت کے اور کوئی رستہ نہیں تھا ،حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے شہادت کا رستہ اختیار فرمایا ! اس کے بعد کا دور انارکی کا دور ھے ،حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جیسے درویش صفت انسان نے عشرہ مبشرہ میں سے باقی دو بچ جانے والے اصحاب حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کو پیش کش کی کہ ان میں سے کوئی خلافت کا منصب سنبھالے تو وہ اس کی بیعت کر لیں گے اور مسلمان انارکی سے بچ جائیں گے ،مگر ان دونوں نے انکار کر دیا ، اصولاً اب ان دونوں کو حضرت علیؓ کی بیعت کر لینا چاھئے تھی کیونکہ یہی تین تو اس کمیٹی میں سے بچتے تھے جس کو حضرت عمرؓ فاروق بنا کر گئے تھے ،، بس وھی رات تھی جو فیصلہ کن تھی جس کا کفارہ 86000 مسلمانوں کے خون کو ادا کرنا پڑا اور امت قیامت تک تقسیم ھو کر رہ گئ ،، وہ دونوں راتوں رات فرار ھو کر مکے چلے گئے ، اور مکے والوں کے ساتھ مل کر بصرہ چلے گئے ،، اور پھر چل سو چل !
اب بھی اگر ان سوالوں کو پہلے طے نہ کیا گیا تو وھاں 30 سال تو چلی تھی یہاں خلافت 3 سال بھی نہیں چل سکتی !
ھم نے تنظیم اسلامی میں تحریک خلافت کے بارے میں بڑے دروس اور مواعظ سنے ،مگر جب فیصلے کا وقت آیا تو ڈاکٹر صاحب اپنے بیٹے کو اپنا خلیفہ بنا کر رخصت ھو گئے ،، بقول ڈاکٹر صاحب ھو سکتا ھے کہ قرآن اکیڈیمی کے باھر بیٹھا چوکیدار مجھ سے زیادہ نیک اور رب کے قریب ھو مگر وہ تنظیم نہیں چلا سکتا ،،جب تنظیم کی خلافت جو ٹوٹل 1000 بارہ سو افراد پر مشتمل ھے ، اس کا بار اٹھانے کے لئے ،نیکی اور تقوی کوئی معیار نہیں بلکہ تنظیمی صلاحیت معیار ھے تو 20 کروڑ پر بھی تقوی نہیں "Ability” اور ” Capability” لازمی معیار ھو گی ، ،،
دوسری جانب جماعت اسلامی میں شوری اتنی طاقتور ھے کہ وھاں امیر ایک ڈمی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا نہ اس کی کوئی مرضی ھے ، وہ اچھی اچھی تقریریں کر سکتا ھے مگر وہ وھی فیصلہ نافذ کرنے کا پابند ھے جو شوری دے گی ، اس کے پاس کوئی ویٹو پاور نہیں ،، یہ دوسری انتہا ھے ،، شوری میں 90٪ جمعیت والے ھیں ، علمی پسِ منظر کے لوگ بہت قلیل ھیں یوں جماعت اسلامی پر اسلامی سے زیادہ سیاسی ” Flavor ” غالب ھے !
طے کیجئے !
1- کیا خلیفہ علماء چنیں گے اور انہی کو اور ان کے دینی مدارس کو خلیفہ چننے کا حق حاصل ھو گا ؟
2- اگر تقوے کی بجائے اھلیت معیار ھے تو کیا دیگر ماھرین بھی ایک لائق فائق نظام معیشت سے واقف خلیفہ چننے کے عمل کا حصہ ھونگے یا نہیں ؟
3- کیا باقی سارے پاکستانی مسلمان رضاکارانہ طور پر اپنا خلیفہ چننے کا یہ حق چھوڑ دیں گے ،یا انہیں کسی قانون یا تلوار کے ذریعے مجبور کیا جائے گا ؟
4- قرآن نے ” و امرھم شوری بینھم ” میں سارے مسلمان شامل کیئے ھیں ،، مسلمانوں کی ایلیٹ کلاس ” علماء ” کس دلیل کی بنیاد پر باقی مسلمانوں کو محروم کریں گے ؟
5- اگر بات تمام مسلمانوں تک چلی گئ تو اکثریت فاجر فاسق لوگون کی ھے تو مرضی تو پھر انہیں کی چلے گی ،، یوں امت پھر Square One پہ جا کھڑی ھو گی ،،
6- خلیفہ کو ھٹانے کا کیا طریقہ کار ھو گا ، اس کا ریفرنس کیا ھو گا ؟ جمہوریت کی طرح مدت مقرر کی جائے گی ؟ اس کی کوئی مثال ھماری خلافتِ راشدہ میں نہیں ھے ، کوئی عدلیہ اس کو ھٹائے گی ؟ یا وہ استعفی دے گا ،، ان تینوں باتوں کا کوئی ثبوت خلافتِ راشدہ میں نہیں ھے !
خلیفہ خود خلافت کا امیداوار ھو گا ؟ یا کوئی پینل یہ فصلہ کرے گا ، یا ھر جماعت اپنا خلیفہ پیش کرے گی ؟؟؟
بات بات پر دوسرے فرقے کو کافر قرار دینے والے ایک خلیفہ پہ کیسے راضی ھونگے ، جیسا کہ بریلوی فرقہ اکثریتی فرقہ ھے ، شیعہ کا ووٹ بھی بریلوی کو ملے گا ،، تو کیا دیوبندی سلفی ایک بریلوی خلیفہ کی خلافت کو تسلیم کر لیں گے جو ان کے پیچھے نماز پڑھنا تو دور کی بات انہیں مسلمان بھی نہیں مانتے ؟ اگر دیوبندی سلفی مل کر ایک خلیفہ چننے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ دیوبندیوں کے ساتھ بھی سلفیوں کا وھی رویہ ھے جو بریلویوں کے ساتھ ھے ؟
یہ سارے مسائل ملک کو کومے کی حالت میں رکھ کر طے نہیں کیئے جا سکتے بلکہ انہیں پہلے بیٹھ کر طے کیجئے ،، پھر خلافت کی بات کیجئے ،،
ورنہ بندوق کے زور پہ خلافت زیادہ پائیدار ثابت نہیں ھو گی