اسلام میں احکامات کی مختلف قسمیں ھیں جن میں سے کچھ میں تو فرد مخاطب ھے اورجنہیں وہ انفرادی طور پر ادا کر سکتا ھے،اور کچھ احکامات میں نظم یا اجتماعیت مخاطب ھے،، چاھے وہ نظم کسی بھی اصول پر قائم کیا گیا ھو،،وہ کوئی سرداری قبائلی نظم ھو یا آمریت ھو یا خلافت ھو یا جمہوریت ھو،ان میں سے ایک قصاص بھی ھے،ھر فرد کو یہ اجازت نہیں کہ وہ خود آگے بڑھ کر اپنے مقتول کا بدلہ لے لے، پھر دوسرا اٹھے اور اپنے مقتول کے بدلے میں خود کسی بندے کا انتخاب کر کے قتل کر دے یا یہ سوچے کہ جناب ھمارا آدمی تو قاتل قبیلے کے دس آدمیوں کے برابرتھا لہذا ھم دس آدمی ماریں گے،، یا ھمارا تو سردار مارا گیا ھے، جب کہ قاتل عام آدمی ھے تو ھم قاتل کے خاندان کے 10 آدمی ماریں گے،یا یہ کہ قاتل تو ایک عورت ھے، مقتول مرد ھے لہذا ھم بھی بدلے میں لازم مرد ماریں گے،،یا قاتل کوئی غلام ھے جبکہ مقتول آزاد ھے تو ھم بدلے میں آزاد ماریں گے،،
جب بھی افراد انفرادی طور پر بدلہ لینے نکلتے ھیں تو وہ کبھی بھی حدِ اعتدال میں نہیں رھتے اور نہ وہ انصاف کر پاتے ھیں،بلکہ غیظ و غضب انہیں ھمیشہ زیادتی پر اکساتا ھے،، وہ چاھتے ھیں کہ نہ صرف بدلہ اتر جائے بلکہ ھم کچھ ایسا کریں کہ دوسرے فریق پر ھماری دھاک بیٹھ جائے اور ھمارا ھاتھ اوپر رھے !
یوں ھوتا یہ ھے کہ جب وہ بدلہ لینے نکلتے ھیں تو یا تو اپنے مزید بندے مروا کر پلٹتے ھیں،، بدلہ ایک کا لینے گئے تھے،مگر وھاں مزاحمت ھو گئ اور مزید دس بندے مارے گئے،،یا فریق مخالف نے مزاحمت کی اور اصلی قاتل تو محفوظ رھا جبکہ دیگر دس آدمی مارے گئے،،یہ طریقہ قصاص پھر نسلوں تک چلتا رھتا ھے کہ قبیلے کے قبیلے اس اندھے انتقام کی بھینٹ چڑھ جاتے ھیں !
اجتماعیت اس بات کو ممکن بناتی ھے اور یہ ممکن بنانے کے لئے ادارے قائم کرتی ھے جو اصلی قاتل کو گرفتار کرے، اس پر مقدمہ چلائے اور اسے سزا دے،یوں قاتل کو مقتول کے قبیلے کو سونپ دینے میں اپنی ناک کٹ جانے کا احساس رکھنے والوں کو اسے حکومت کو سونپ دینے میں آسانی رھتی ھے !
اس طرح ایک جان کے بدلے میں عدل و انصاف کے ساتھ ایک ھی جان سے قصاص لیا جاتا ھے، جو قاتل ثابت ھو،، اس کے لئے غیر جانبدار عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جاتا ھے !
شریعت مجھے اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتی کہ میں خود آگے بڑھ کر اپنے بھائی کے قاتل کو قصاص کے نام پر قتل کر دوں ،بلکہ اگر میں اپنے بھائی کے بدلے میں قاتل کی جان لیتا ھوں تو قانون کی نظر میں قاتل جیسا ھی مجرم قرار پاتا ھوں اور وھی دفعہ میرے اوپر بھی لاگو ھوتی ھے ،
یہ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ عملی طور پر بھی جب میرے دو بھائیوں کو 29 مارچ 1995 میں قتل کیا گیا، جن کی عمریں 18 سال اور 22 سال تھیں ،، قاتل گرفتار ھوا جو کہ حوالات میں بند تھا،اس کے ساتھ اس کا والد اور بھائی بھی تھا،تینوں ایک ھی دس بائی دس فٹ کے کمرے میں بند اور میرے سامنے تھے،، میرے پاس پستول تھا جس کی میگزین میں 9 گولیاں تھیں،، ملزم سامنے بیٹھا تھا اور میں اکیلا تھا وھاں پولیس کا پہرہ بھی نہیں تھا ،میں تقریباً پانچ منٹ تک ان سے مکالمہ کرتا رھا ،جس میں قاتل مجھے گالیاں بھی دیتا رھا ،میں اگر چاھتا تو اپنے بھائیوں کے بدلے میں قاتل اور اس کے بھائی کو قتل کر کے حساب برابر کر سکتا تھا،اور یہی پولیس کا عندیہ بھی تھا کہ عدالت سزا دے گی بھی تو ایک کو دے گی،جبکہ آپ یہاں دو کو پھڑکا سکتے ھیں اور آپ پر دفعہ بھی 304 کی لگے گی،، مگر الحمد للہ قاتل کے اشتعال دلانے کے باوجود اور قتل کر سکنے کے تمام تر اسباب پر دسترس رکھنے کے باوجود مجرد اللہ کے خوف کی بنیاد پر میں نے کوئی اقدام نہیں کیا اور ملزم کو عدالت کے ذریعے 11 سال بعد سزا دلوائی ! عدالت کو ملزم کے فعل پر شک ھو سکتا ھے مگر مجھے تو اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ قاتل کون ھے،،وہ شریعت جو مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں سامنے بیٹھے ایک یقینی قاتل کو قتل کروں ، وہ شریعت کسی گروہ کو اسلام کے نام پر قتلِ عام کا لائسنس کیسے دے سکتی ھے کہ وہ جہاں چاھے جس کو چاھے جتنے چاھے بندے مارے ؟؟ میں یہ بات اس یقین کے ساتھ کہہ رھا ھوں کہ اگر خدانخواستہ میرے بیوی بچوں سمیت میرا پورا خاندان کسی ڈرون کا شکار ھو جاتا تو بھی میرے الفاظ میں کوئی کمی بیشی نہ ھوتی ،اور میرا موقف یہی ھوتا کہ میرے مجرم وہ ھیں جن کی وجہ سے یہ سب ھوا !! اللہ پاک کا ارشاد ھے ” اے ایمان والو تم پر مقتولین کے معاملے میں قصاص فرض کیا گیا ھے،، آزاد اگر قاتل ھے تو بدلے میں وھی آزاد اور اگر غلام قاتل ھے تو بدلے میں وھی غلام اور اگر کوئی عورت قاتلہ ھے تو بدلے میں وھی عورت قتل کی جائے گی،اور قصاص میں ھی تمہاری زندگی کی ضمانت ھے اے عقلمندو، ،، اسکے درمیان ایک تخفیف کی صورت رکھی کہ اگر مقتول کے ورثاء چاھئیں تو وہ دیت لے سکتے ھیں،، لیکن عدالت یہ فیصلہ قبول کرنے سے پہلے بحیثیتِ مجموعی اس بات کا جائزہ لے گی کہ اس بندے کو چھوڑ دینا کہیں باقی اجتماعیت کے لئے زہرِ قاتل تو نہیں ؟ قتل کی مختلف قسمیں ھیں اور صلح کی بھی مختلف قسمیں ھیں ! ایک قتل وہ ھے جو برادری کی سطح پر کسی لڑائی جھگڑے میں ھوا ھے، اور برادری ھی کی سطح پر صلح ھوئی ھے،، ایک قتل وہ ھے جو ڈکیتی کے دوران ھوا ھے،، ان دو میں زمین آسمان کا فرق ھے،،تیسرا قتل وہ ھے جو کسی گینگ وار کے دوران ھوا ھے،،چوتھا قتل وہ ھے جو کسی وڈیرے نے اپنی دھاک بٹھانے کے لئے کیا ھے ،، اب اسی طرح صلح کی بھی قسمیں ھونگی،، برادری کی صلح کو عدالت مان بھی لیتی ھے،،مگر جب بات ڈکیتی اور وڈیرے کی دھشت کی آ جاتی ھے تو عدالت سمجھتی ھے کہ فریق مخالف پر دباؤ ڈال کر مجبور کیا گیا ھے اور عدالت اگر ملزم کو چھوڑ دیتی ھے تو گویا امیر کو یا وڈیرے کو اپنے اثر رسوخ کی بنیاد پر قتل کا لائسنس دےدیتی ھے،، اس صورت میں اجتماعیت کے وسیع تر مفاد میں وہ اس صلح کو مسترد کرنے اور قصاص کی فرضیت کے حکم پر عملدرآمد کی ذمہ دار ھے،، کیونکہ اللہ پاک نے یہ کہہ کر کہ تمہارے اجتماعی وجود کے لئے قصاص ھی زندگی کی ضمانت ھے ،اسی طرف توجہ دلائی ھے