دین اگر قیامت تک ھے تو پھر انسان عمرانیات میں جتنی ترقی کر لے ، اسلام کے لئے ان میں سے کسی ترقی اور ایجاد کو سرپرائز نہیں ھونا چاھئے بلکہ اس کا حل پیش کرنا چاھئے ،مگر جب ھم دین کو اپنے اپنے کلچر ، اپنے اپنے علاقے اور قبیلے کا دین بنا لیتے ھیں تو پھر ھمارا کلچر ھی دین اور حرفِ اخر ھوتا ھے یوں ھم کنوئیں کے مینڈک بن جاتے ھیں ،، نئے آنے اور سوچنے سمجھنے والوں کی آدھی سے زیادہ عمر ان ثقافتی ،علاقائی اور قبائلی زنجیروں کو توڑنے میں ھی خرچ ھو جاتی ھے ، کاش کہ ھم اسلام کو آفاقی اور عالمی دین رھنے دیں اور اپنی اپنی شلواریں ،دھوتیاں ، باجامے ،شیروانیاں ،اس کے گلے میں نہ ڈالیں ،، اللہ نے جس طرح ھوائی جہازوں اور خلائی شٹل کی ایجاد سے پہلے ان کے لئے اونچا آسمان بنا دیا تھا ، اسی طرح اس دین میں ھر ترقی کو اپنا لینے کے لئے لچک اور وسعت بھی رکھی ھے ،،