العلم علمان ، علم الابدان و علم الادیان ،
( ابن خلدون )
العلم تو دو علوم کے ملنے سے بنتا ھے ،
1-The knowledge of physical Sciences 2-The knowledge of normative Sciences ,,
جس طرح پانی ھائیڈروجن اور آکسیجن کے ملنے سے بنتا ھے , دونوں الگ الگ ھوں تو صرف گیسز رہ جاتی ھیں پانی نہیں کہلا سکتیں،، اسی طرح سائنسی علوم اور اخلاقی علوم الگ الگ ھوں تو صرف علم رہ جائیں گے ،العلم نہیں کہلائیں گے !
بدر کے 70 قیدیوں کا مجمع سامنے سر جھکائے بیٹھا ھے ،، ان کی قسمت کا فیصلہ ھونے جا رھا ھے – یہ سب جنگی قیدی نہیں بلکہ جنگی مجرم War criminals ھیں ،، اللہ کے رسولﷺ نے فیصلہ سنایا کہ فلاں فلاں سے تو فدیہ لیا جائے گا ،البتہ جو لوگ پڑھے لکھے ھیں ان سے مالی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا ،، وہ ھمیں وقت اور صلاحیت فدیئے میں دیں اور ھمارے دس بچوں یا بڑوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں گے ،، جس دن ھمارے بچوں نے پڑھنے لکھنے کا مظاھرہ کر دیا اگلے دن وہ آزاد ھو گا !
صرف اس ایک واقعے سے آپ نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے محبت کا اندازہ کر سکتے ھیں اور تعلیم بھی وہ جسے آج کل دنیاوی تعلیم کہہ کر حقیر جانا جاتا ھے اور اسے شک اور نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا ھے ، آخر مکے کے مشرک اور کافر مدینے کے بچوں اور بڑوں کو کوئی قرآن و حدیث تو نہیں پڑھا رھے تھے ،، پھر آج اس علم کو دین اور دنیا کی تقسیم کے نام پر کیوں غیر مقدس سمجھا جاتا ھے ؟
علم تو علم ھے،، اس کا استعمال دینی اور دنیاوی دونوں مقاصد کے لئے کیا جا سکتا ھے،،جو دنیاوی علم کے نام سے ڈاکٹر بنتے ھیں چاھیں تو اس علم کو روٹی کمانے کے ساتھ انسانیت کی خدمت کے لئے استعمال کر سکتے ھیں،، اور جو اس کو دین کے نام پر آٹھ دس سال لگا کر حاصل کرتے ھیں وہ بھی آخر روٹی ھی کماتے ھیں،، اگرچہ اسے دینی ضرورتوں کے لئے بھی استعمال کرتے ھیں،، سارے حافظ بن کر مسجدوں میں بھی نہیں بیٹھ سکتے،،پھر نہ صرف معاشرے کی دیگر ضرورتیں پوری نہیں ھونگی بلکہ حافظوں کو تنخواہ دینے والے اور مساجد تعمیر کرنے والے بھی نہیں ملیں گے،،یہ بڑی بڑی درسگاھیں اور جامعات دنیا داروں کے سر پر چل رھی ھیں،، شیخ الحدیثوں کے سر پر نہیں،، اس لئے علم کی دینی اور دنیاوی تقسیم کر کے ایک طبقے کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرنا اور دوسرے کو ھِز ھولی نیس بنا دینا درست نہیں،، دونوں اللہ کی رضا و مشیئت کو پورا کرتے ھیں،، اب آپ اپنے بچے کی صلاحیت دیکھیں اور اس کے مطابق استعمال کریں،، آج کی دنیاوی تعلیم پرانے زمانے کی طرح نہیں ھے۔۔بلکہ بہت جان مار اور ھمہ جہتی اور ھمہ وقتی کام ھے،،
بچہ اسکول پڑھے گا تو بہت مشکل سے اسکول کو ھی کور کر سکے گا،، آدھا یہ آدھا وہ کرنے کا زمانہ گزر گیا،، آج کل ایف اے بی اے کل کے مڈل اور میٹرک کے برابر ھے،، قرآن حفظ کرنا فرض نہیں البتہ اس پر عمل کرنا فرض ھے،، تعلیم گھر سے شروع ھوتی ھے اور پیدا ھوتے ھی بچہ سیکھنا شروع کر دیتا ھے،، یاد رکھئے سچ کتابوں میں پڑھا کر نہیں سکھایا جا سکتا،، سچ بول کر سکھانے کی چیز ھے،، بچہ پیدا ھوتے ھی والدین کو سمارٹ ھو جانا چاھئے اور اپنی بری عادات ختم کر دینی چاھئیں،، اگر اپ چاھتے ھیں کہ بچہ سگریٹ نہ پیئے تو آپ خود مت پیجئے پچہ بھی نہیں پیئے گا،، جھوٹ مت بولیئے،، ایک دوسرے کو گالیاں مت دیجئے،، صلہ رحمی کیجئے،،سسرال کی عزت کیجئے،، والدین کی باتوں کو برداشت کیجئے اور اپنی اولاد کے سامنے انہیں برا مت کہیئے،، بچہ گریجوئیٹ ھو جائے تو کسی بھی ادارے سے قران کا تین ماہ کا کورس کر لے تو جمعہ جماعت کرانے کے قابل ھو جائے گا اور یوں جاب کے ساتھ ساتھ اس طرف کی صلاحیت بھی بڑھاتا رھے گا،، اپنی روٹی خود کما کر بغیر تنخواہ لیئے جو بھی جمعہ پڑھانے گا، بےخوف ھو کر حق بیان کرے گا ،، ورنہ روٹی کی مجبوری اسے حق سے روکے رکھے گی اور وہ صرف دنیا کا بن کر رہ جائے گا،، فمثلہ کمثل الکلب، ان تحمل علیہ یلہث او تترکہ یلہث ،، غیروں کی روٹی پہ حق کا تبیان کتنا مشکل کام ھے یہ وھی جانتے ھیں جو ایک سال میں دس مسجدیں بدلتے ھیں یوں ان کے بچے تعلیم سے بھی محروم رھتے ھیں!
دوسرا طریقہ یہ ھے کہ بچے کو میٹرک کے بعد کسی اچھی سی جامعہ میں ڈال دیں،،اور اسے عالم بننے دیں،مگر پھر بھول جائیں کہ اس سے دنیا کی کمائی کرانی ھے،اس کو کوئی بزنس وغیرہ کرا دینا جہاں سے اس کی روٹی چلتی رھے،، میرا ذاتی خیال یہ ھے کہ جامعات کو خام مال جہاں سے ملتا ھے وہ ایک ندی کی طرح خود بخود انکی طرف رواں دواں ھے اور یونیورسٹیوں کو جہاں سے خام مال ملتا ھے ان کی ندی بھی ان کی طرف رواں دواں ھے،، دینی مدارس والے بچے آتے ھی ان گھرانوں سے ھیں جہاں پیاز اور لسی چٹنی کے ساتھ بھی روٹی بخوشی کھا لی جاتی ھے،اور یہی کچھ آج کل مدارس سے نکلنے والوں کو ملتا ھے 99 فیصد،،! اب کل ایک بھائی کے بچے پراڈو میں پھریں اور دوسرے کے سائیکل چلائیں تو بھائی ھوتے ھوئے بھی آپس میں رشتے ناتے کرنا مشکل ھو جاتا ھے،یوں خاندان بھی بکھر جاتا ھے،، یہ کوئی ایک بچے کا مسئلہ نہیں،، بہتر یہ ھے کہ اگر آپ اسے ڈاکٹر یا انجینئر بنا سکتے ھیں تو بنا دیں،، دین کورسز کی صورت سیکھا جا سکتا ھے ! عام طور پر علماء کی جانب سے طنز کیا جاتا ھے کہ پھر جنازہ اور نکاح بھی اسی مولوی سے پڑھاتے ھو،، یا نکاح اور جنازہ بھی بش سے یا ٹونی بلیئر سے پڑھوا لینا ! تو جناب نکاح اور جنازہ دونوں مولوی کے بغیر پڑھائے جا سکتے ھیں،، کورٹ میں نکاح ھو سکتا ھے چاھے جج یا میجیسٹریٹ عیسائی ھی کیوں نہ ھو،، خطبہ نکاح کے فرائض میں سے نہیں اور خطبہ نکاح کا مقصد دونوں میاں بیوی کو ان کے حقوق و فرائض بتانا ھوتا ھے جو کہ لوگ بتاتے ھی نہیں اور عربی پڑھ کر چل دیتے ھیں،،
جنازہ وارث کو پڑھانا چاھئے یعنی بیٹے یا پھر بھائی یا باپ کو ،، عربی میں دعا نہیں آتی تو اللہ کی تعریف اپنی زبان میں بھی کر سکتا ھے،درود نماز والا پڑھ سکتا ھے اور دعا بھی اپنی زبان میں کر سکتا ھے ! مگر پلٹ کر کوئی یہ کہہ دے کہ سرکار پھر آپ بھی مدرسے مفتی فلاں صاحب اور فلاں شیخ الحدیث سے بنوا لینا،، ایک ایک کروڑ کی چھت بھی یہی دنیا دار اور بزنس مین ھی ڈلوا کر دیتے ھیں جن کی دنیا داری کو آپ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ھیں،، کہتے ھیں منہ کھائے اور آنکھیں شرمائیں،، مگر ھمارے ساتھیوں کی آنکھیں بھی نہیں شرماتیں،، کہ ان ھی کے آگے تنخواہ بڑھانے کی درخواست بھی پیش کرتے ھیں اور اپنی مجبوریاں بھی گڑگڑا کر بیان کرتے ھیں،، مگر اگلے جمعے ان کے پیچھے بھی لگے ھوتے ھیں،، اوپر والا ھاتھ نیچے والے ھاتھ سے بہتر ھے،، دین کا علم اور دنیا کا علم بجلی کے نیگیٹیو پازیٹیو تاروں کی طرح ھیں،، دونوں سے دین اور دنیا چل رھے ھیں،،اور کوئی ان میں برا نہیں،، جس کی صلاحیت بچے میں ھو وہ اس کی پسند اور خواھش پر چھوڑ دیں ! اس ساری کہانی کے پیچھے ایک غلط فہمی ھے کہ دنیا کمانے کا ھنر سیکھنا ایک گھٹیا کام ھے اور دنیا داری ایک بری بات ھے اور دنیا ایک آلائش ھے،، جبکہ یہ قرآن کے خلاف سوچ ھے،، قرآن تو مال کو خیر اور اللہ کے فضل سے یاد کرتا ھے،ان ترک خیراً اگر اس نے خیر چھوڑی ھے یعنی مال چھوڑا ھے،، اور جمعے کے بعد جاؤ اللہ کا فضل ڈھونڈو،، مال اپنی ذات میں خیر ھی خیر ھے البتہ اس کا استعمال اچھا بھی ھے برا بھی ھے،، میں جب کہتا ھوں کہ ھمارے مولوی حضرات جب دنیا کی مذمت کچھ زیادہ ھی شد و مد اور بغیر کسی استثناء کے کرتے ھیں وہ اصلاً ایک جزبہ رقابت کے تابع کرتے ھیں ،،
کہ چونکہ ھمیں نہیں ملی اس لئے بری ھے، ورنہ نبی پاک ﷺ کا غزوہ تبوک پر بار بار یہ اعلان کہ کون ھے جو سو اونٹ تیار کر کے دے اور جنت لے لے اور چھ بار حضرتِ عثمان کا اٹھ کر اعلان کرنا کہ میں سو اونٹ دیتا ھوں یوں چھ سو اونٹ انہوں نے اللہ کی راہ میں دیئے یہانتک کہ خود حضور ﷺ نے فرمایا کہ بس کر عثمان جنت تیری ھی ھے ! اسی طرح بینکنگ کے معاملات میں بھی ھم حقائق سے نظریں چرا کر فتوی لگاتے ھیں کہ جو شخص بینک میں کام کرتا ھے اس کی دعوت کھانا حرام ھے،، جب تک متبادل موجود نہ ھو مضطر معذور ھوتا ھے ، ! ڈاکٹر اور انجینئر بن کر لاکھوں کما کر مساجد اور مدارس بنا کر بھی صدقہ جاریہ بنایا جا سکتا ھے،، صرف حفظ نہیں بلکہ حفظ کے انتظامات کر کے بھی سارے حافظوں جتنا اجر کمایا جا سکتا ھے،، یتیموں کی کفالت جس کی بشارت نبیﷺ نے دی ھے کہ اس کی جنت میری جنت سے یوں جڑی ھو گی جس طرح شہادت کی انگلی درمیان کی انگلی سے جڑی ھے ،وہ بھی اپنی کمائی کرنے والا ھی کر سکتا ھے،، مولوی صاحب نہیں،، پھر کفالت بھی اس طرح کہ اسے جیب کترا نہیں بنانا بلکہ تعلیم دلا کر ایک مفید انسان بنانا ھے،، یہ یتیموں اور بیواؤں کی کفالت بھی یہی دنیا دار ھی کر سکتے ھیں،، اپنے بچے کو کھلانے والا شہباز بنائیں،،