، وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا (73 الفرقان)،، کا یہ ترجمہ محلِ نظر ہے کہ ’’ جن کے سامنے جب اللہ کی آیات ذکر کی جائیں تو وہ ان پر اندھوں بہروں کی طرح نہیں گرتے ‘‘ پہلی بات یہ کہ اللہ پاک کی آیت پر اسی طرح فوری طور پر عمل کرنا چاہیئے ، جیسے قرآن کی آیہ سجدہ سن کر امام سمیت سارے سجدے میں گر پڑتے ہیں ،خرّ راکعا و اناب ، اس کو انابت کہتے ہیں یہ کوئی قابلِ مذمت بات نہیں ، قرآن کی آیت سامنے آ جانے کے بعد تو کسی حیل حجت اور بال کی کھال نکالنے کی گنجائش ہی نہیں بچتی ،جبکہ یہ ترجمہ تو بال کی کھال نکلانے کی دعوت دے رہا ہے ـ دوسری بات ذرا سمجھنے والی ہے کہ ایک اندھا اور بہرہ کیسے کسی چیز پر ٹوٹ کر پڑ سکتا ہے ؟ نہ تو اس نے دیکھا کہ سامنے سیب پڑے ہیں ، نہ کوئی گول نشان بنا کر اس کو سیب کا اشارہ کر سکتا ہے اور نہ سنتا ہے کہ کوئی اس کو بتائے کہ حافظ صاحب سامنے سیب پڑے ہیں ،؟؟ تو پھر اندھے بہرے کی طرح ٹوٹ پڑنا کیا بات ہوئی ،، They never respond Like Deaf& Dumb ،، کا مطلب ہے کہ اندھا بہرہ ہاتھ باندھے بیٹھا رہے گا جس سے ثابت ہو گا کہ اس کو نہیں پتہ کہ روٹی کُھل گئ ہے جمپ لگا کر دوڑ لگانی اور بوٹیاں نوچنی ہیں ،، یہ ہے لم یخروا علیہا صما و عمیانا ـ وہ اس آیت پر اس طرح بےحس و حرکت نہیں بیٹھے رہتے گویا کہ وہ اندھے اور بہرے ہیں ، جس طرح خر ساجدا ہے اسی طرح خر صامدا بھی ہے کہ Idle بن کر کھڑے کا کھڑا رہ گیا ـ
قاری حنیف ڈار