بھائی لوگو !
معاف کـــــرنا !
میں نے تو اپنی مقدور بھر کوشش کر دیکھی ھے،، پوری کوشش کی ھے، ھر طریقہ آزما دیکھا ھے !
مگر اللہ کی قسم مجھے اللہ سے ڈر نہیں لگتا !
مجھے اللہ سے ڈرا نہیں جاتا ! اللہ کی محبت نے سیلاب کے پانی کی طرح اندر سب کچھ جل تھل کر کے رکھ دیا ھے ھر جگہ پیار کا پانی بھرا پڑا ھے،خوف اور ڈر اندر گھستے ھوئے ڈرتے ھیں،،
میں نے بہت چاھا کہ اس میں ڈراوے اور خوف کا کوئی عنصر تلاش کر لوں ! مگر ناکام رھا،، میں خوف اور ڈر نام کی کوئی چیز اپنے اندر نہیں پاتا ،میں نے اسے سراپا رحمت ھی رحمت، پیار ھی پیار پایا ھے ! معاف کرنے والا ،در گزر کرنے والا ،نہ صرف عذر قبول کرنے والا بلکہ خود عذر دماغ میں سجھانے والا،، اسی نے آدم علیہ السلام کو توبہ کا صیغہ اور طریقہ سجھایا تھا !
آپ جب کسی سے کوئی لوکیشن پوچھتے ھیں تو وہ خود جس رستے سے اس منزل تک گیا ھوتا ھے ،بالکل اسی رستے سے آپ کو سمجھاتا ھے،،وھی چوک ، وھی سگنل، وھی رائٹ سے لیفٹ اور لیفٹ کے بعد دوسرا کٹ !
اللہ کا رستہ سجھانے والے بھی قسم قسم کے لوگ ھیں،،مگر میں نے تو اسے پیار میں ھی پایا ھے،، پیار کے رستے سے ھی لوکیشن سمجھاتا ھوں ،اس میں کوئی رائٹ اور لیفٹ ھے ھی نہیں،، آپ سے اللہ تک درمیان میں کوئی ھے بھی نہیں !
میں جب بھی مصنوعی خوف طاری کرنے کی کوشش کرتا ھوں تو لگتا ھے جیسے وہ اللہ طنزیہ انداز میں دیکھتا ھے اور ایک لمبــــــــــــــــــی ھـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــوں کر کے فرماتا ھے ” تیری ساری زندگی تیرے چونچلے برداشت کرتے،، تجھے سنبھالتے، سنوارتے ،اٹھاتے بناتے گزر گئی،، اب جب ھم سے ملاقات کا وقت آیا تو جناب کو ھم سے ڈر لگنا شروع ھو گیا ؟ ذرا ھمیں بھی دکھاؤ جی وہ ڈر کدھر ھے ؟ تا کہ ھم اس کا علاج کریں ! تمہارے اندر تو کوئی نہیں ، ڈر بھی کوئی نہیں اور ڈر کی جگہ بھی کوئی نہیں ،ھمیں تو سارے سٹور پیار سے ھی بھرے ملے ھیں !
"لا خوفٓ علیھم ولا ھم یحزنون ” سے ھی تو ھماری دوستی شروع ھوتی ھے ! اب یہ دوستی کی انتہا میں خوف کہاں سے آ گیا ؟ جب لوگ دوسروں سے ڈرتے ھیں تو اللہ انہیں فرماتا ھے کہ ‘ اگر ڈرنا ھے تو پھر میں زیادہ حقدار ھوں کہ مجھ سے ڈرو ،کیونکہ تمہارا نفع نقصان تو میں کر سکتا ھوں،،فلا تخافوھم و خافونِ ” چنانچہ تم ان سے مت ڈرو ،مجھ سے ڈرو،، فلا تخشوھم واخشونِ” ان سے سہمے سہمے مت رھا کرو ھم سے سہمے رھا کرو ! یہ تو خوف کے مریض کو دوا دی جا رھی ! خوف مرض ھے اور پیار صفت ھے،، محبت مطلوب ھے !
البتہ میں اس سے محبت کرتا ھوں ،دنیا کی ھر چیز مجھ سے محبت کرتی ھے کیونکہ وہ اللہ سے بھی محبت کرتی ھے اور اللہ سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت کرتی ھے،اللہ کی ساری کائنات مجھے اپنی اپنی لگتی ھے اور اللہ جب میرے ساتھ ھوتا ھے تو وہ سیلوٹ کرتی نظر آتی ھے، وہ مجھے رشک کی نگاہ سے دیکھتی ھے ،، جان دار اور بے جان کی کوئی تخصیص نہیں ھے! مجھے یہ احساس کہ اللہ میرے ساتھ ھے،، کسی سے ڈرنے نہیں دیتا،کسی سے دبنے نہیں دیتا ،، کسی سے مرعوب نہیں ھونے دیتا،، دشمنوں سے خوفزدہ نہیں ھونے دیتا،، میرے پیارے نبی ﷺ کی دعا ھے، اللھم بک ادرأ فی نحور الاعداءِ والجبابرہ ،، ائے اللہ میں تیرے بھروسے پر دشمنوں کی گردنوں پر ھاتھ ڈال دیتا ھوں اور جابروں سے ٹکــرا جاتا ھوں ! مجھ سے جب کوئی ایسی غلطی سر زد ھو جاتی ھے جس سے مجھے احساس ھوتا ھے کہ میرا اللہ مجھ سے ناراض ھو گیا ھو گا تو میں سہم جاتا ھوں اس شوخے بچے کی طرح جو باپ کی موجودگی تو بڑی ڈھینگیں مارتا ھے ،مگر جونہی ان سے بچھڑتا ھے تو اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک جاتی ھے اور چہرے پر ھوائیاں اڑنے لگتی ھیں ! میرا بھی یہی حال ھوتا ھے،،مجھے اپنی پشت خالی لگتی ھے،میں اپنے کو لاوارث سمجھتا ھوں، اپنی گاڑی سے بھی ڈر لگتا ھے،، گاڑی کے ٹائر سے بھی ڈر لگتا ھے کہ یہ اچانک پھٹ سکتا ھے،، ھر چیز مجھے ڈراتی ھے جیسے انہیں پتہ چل جاتا ھے کہ میں لاوارث ھو گیا ھوں ! میں اللہ سے بچھڑ کر ھر چیز سے ڈرتا ھوں ،، میں رو رو کر اپنے رب کو منانے کی کوشش کرتا ھوں،، جنت کے لئے نہیں ! اور نہ آگ کے ڈر کی وجہ سے ! بس مجھے اللہ کی ناراضی میں دنیا ھی جہنم لگنے لگتی ھے،، وہ جو رو رو کر چاھتے تھے کہ ان کو سنگسار کیا جائے وہ رب کو ناراض کر بیٹھے ھیں ،، ان سے پوچھئے انہیں کیا ھو جاتا ھے انہیں یہ زندگی عزیز کیوں نہیں رھتی ؟؟ نہ وہ جنت جانے کے لئے سنگسار ھونے آئے تھے اور نہ جہنم سے بچنے کے لئے !! محب کے لئے محبوب کی ناراضی سب سے بڑی سزا ھے ! اور محبوب کی خوشی سب سے بڑا انعام ھے،، اس لئے جنت کی ساری نعمتوں کا ذکر فرما کر آخر میں فرمایا کہ،، و رضوان من اللہ اکبر ! اللہ کی رضا سب سے بڑی نعمت ھے ! نبیﷺ نے ان کو سزا نہین دی تھی،، سزا سے نجات دی تھی،، ان پر مہربانی کی تھی ! اللہ سے ان کا راضی نامہ کرا دیا تھا،، نبی پاکﷺ کی یہ سنت رھی ھے کہ جس نے اپنے لئے جو سزا تجویز کر لی پھر آپﷺ نے اسے اس کے پیار کے حوالے کر دیا،، جس نے اپنے کو ستون سے باندھ لیا ،،فرمایا اب اسے رب ھی کھولے گا کیونکہ یہ محب اور محبوب کی بات آگئ ھے،، اسی طرح ان سگنسار والوں نے بار بار کے منع کرنے اور موقع دیئے جانے کے باوجود اپنے محبوب کو راضی کرنے کا ایک طریقہ پسند کر لیا تو نبیﷺ نے حسبِ دستور پھر مداخلت نہیں کی !
بات کا رخ تبدیل ھو گیا ھے،،تو عرض یہ ھے کہ مجھے میرے گناہ ڈراتے ھیں،، اور ڈر اللہ کی ناراضی کا ھوتا ھے کہ میرا خالق ،میرا مالک، میرا مصور،، میرا محسن،میرے دکھوں کا ساتھی ،میرے سکھوں اور خوشیوں کا منبع میرا پیارا رب ناراض نہ ھو جائے،، اس ڈر کے سوا مجھے کبھی اور کوئی ڈر نہیں لگا،،
یقین کریں میں اپنے آپ کو اپنے اللہ سے ڈرا نہیں پایا !! اس کا پیار مجھے ڈرنے نہیں دیتا،،اس نے میرے ساتھ ڈرنے ڈرانے والا کوئی معاملہ کیا ھی نہیں ! پھر جھوٹا ڈر بھی تو ایک قسم کا جھوٹ ھی ھوتا ھے اور مجھ سے یہ جھوٹ بولا نہیں جاتا !! اب لگا لیجئے جو فتوے لگانے ھیں !!