اللہ کو سمجھنے کے لئے اللہ کی صفات کی حامل قریب ترین ھستی انسان خود ھے، اگر وہ اپنی ذات کو بغور دیکھے تو اسے اللہ کو پالینے میں ذرا بھی دیر نہ لگے،،اللہ تک پہنچنے کا قریب ترین رستہ خود انسان ھے ! کیونکہ کائنات میں انسان کے علاوہ اور کوئی مخلوق اپنے خالق سے اتنی قریب نہیں ھے !مگر بقول شاعر !
اپنے دل کـو بھــول کر سـارا جہــاں ڈھــونڈا کیئے !
تُم کہاں بیٹھے ھوئے تھے،ھم کہاں ڈھونڈا کیئے !
جبرائیل سمیت سارے فرشتے،، ابلیس سمیت سارے جنات ،، جنت سمیت سارے باغات اور جہنم سمیت سارے آتش فشاں چرند پرند ،نباتات و جمادات،، سب کچھ پیدا کرنے کے پیچھے انسان کو پیدا کرنے کی اسکیم ازل سے رب کائنات کے ارادے میں موجود تھی،،یہ سارے مہمانی کے ساماں تھے،، مہمان تو انسان تھا،، فرشتوں سمیت ساری مخلوق روبوٹ ٹائپ چیز ھے،جو اپنی صلاحیتوں اور فنکشز میں بے شک مختلف و متفاوت ھیں،، مگر حقیقت یہ ھے کہ انسان کے کے بغیر یہ کائنات بے نمک کے سالن اور بغیر شکر کے چائے جیسی ھی ھے ! انسان بہت ھی قیمتی پراڈکٹ ھے ،، کاش کہ خود انسان کو اپنی قدر پتہ چل جائے،، اقبال نے اسی بے خبری کا رونا رویا ھے کہ !
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی !
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن( خصماں نوں کھا) اپنا تو بن !
سارا کچھ سجا دینے کے بعد اللہ پاک نے ایک ایسی مخلوق پیدا فرمائی جس میں اس نے اپنی صفات کی خوشبو بسا دی،، اسی خوشبو کا نام روح ھے،، essence یعنی روح ” روح کیوڑا ” ھمارے یہاں انہی معنوں میں مستعمل ھے !
انسان اور باقی مخلوق میں یہی صفاتی روح جس کی نسبت اللہ پاک نے ھر جگہ اپنی ذات کے ساتھ بیان کی ھے،، جہاں بھی مجرد روح کا ذکر کیا گیا ھے وھاں وحی مراد ھے،، انسان میں روح پھونکنے کا ذکر جہاں بھی فرمایا ھے،، وھاں من روحی کی اضافت کے ساتھ ذکر فرمایا ھے،،جب میں اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں،، یہ اپنی روح میں سے کیا پھونک کر ھمیں کچھ سے کچھ بنا دیا ھے ؟ اپنے ارادے میں سے ارادہ پھونکا ! اپنے اختیار میں سے اختیار پھونکا ! اپنی انا میں سے انا پھونکی ! یہ نہ جبریل کے پاس ھے نہ میکائیل کے پاس ،، فرشتے ” من روحی ” کے راز کو سمجھتے تھے کہ کیا خزانہ دیا جانے والا ھے اور جس کو دیا جارھا تھا اس کی کمزوری سے بھی آگاہ تھے ! انہیں ڈر تھا ،مگر خالق کا شوق قابلِ دید تھا،، اربوں کھربوں سال کی تنہائی و سکوت کے بعد محفل سجنے جا رھی تھی اور دھوم دھڑکا شروع ھونے جا رھا تھا،، شوق کا یہ عالم تھا کہ وہ خالق بڑے سے بڑا رسک لینے کو تیار تھا،، اگر اس نئ مخلوق میں 1000 میں سے 999 بھی یہ خزانہ لینے کے بعد بغاوت کر دیں اور صرف ایک بندہ مجھے اپنے اختیار سے سجدہ کرنے والا مل جائے تو بھی میں یہ کام کر کے رھوں گا،میں اس ایک کی خاطر 999 کے بھٹک جانے کا رسک لینے کو تیار ھوں،، اللہ رسک نہیں لیتا، وہ جو کرتا ھے جان کر کرتا ھے،کر کے تجربے سے نہیں جانتا،، وہ مخلوق کی عبادت سے بھی بے نیاز ھے،، ساری مخلوق کسی نبی کے دل کی مانند متقی ھو جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں اور ساری مخلوق فرعون کے دل کی مانند فسق و فجور سے بھر جائے تو اس کا کوئی نقصان نہیں،، مخلوق اس نے اپنے فائدے کے لئے بنائی ھی نہیں ،، اگر یہ ساری باتیں درست ھیں تو اللہ کے رسک کو کم سے کم رکھنے کے لئے سر کیوں اتارے جا رھے ھیں ؟ مساجد کے نمازیوں کو بارود سے کیوں اڑایا جا رھا ھے،،جب ھر شخص اپنے نفعے نقصان کا خود ذمہ دار ھے تو پھر ھم لوگوں کو قتل کر کے کیوں کہتے ھیں کہ اللہ کی خاطر مارا ھے ؟ یعنی اللہ کا رسک کم سے کم کرنے کے لئے مارا ھے تا کہ ایک متقی کے سوا باقی 999 کو ھم مار دیں تا کہ نیکوں کا تناسب اللہ کے حق میں رھے ؟ جب اللہ کا نفع نقصان انوالو ھی نہیں تو اللہ کے نام پر قتلِ عام اور عبادتگاھوں کو اڑانے کا ٹھیکہ کس نے دیا ھے ؟ کوئی تو جواب دے ؟ بات تو میں نے ھلکے پھلکے انداز میں شروع کی تھی مگر کمنٹس والوں نے اسے دوسری طرف گھما دیا ھے تو ھم بھی گھوم جاتے ھیں؟ اب سوالوں کا جواب دیجئے کہ جب قرآن خود کہتا ھے کہ،،من شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر،، جو چاھے وہ ایمان لائے اور جو چاھے تو کفر کرے ! من ابصر فلنفسہ ،، ومن عمی فعلیہا،، جو آنکھیں کھولے گا تو اپنے نفعے کو،،اور جو اندھا بنے گا تو اس کا وبال خود بھگتے گا،،تو آپ رات دن راکٹ لئے کیوں داروغہ بنے پھرتے ھو ؟ چھوڑ دو ھر بندے کو اس کی پسند پر ! جب اللہ مجبور نہیں کرتا ،،تم مجبور کیوں کرتے ھو ؟ کس کے نفعے کو کرتے ھو،،جبر سے مسلمان بنانے میں نہ خدا کا نفع ھے،، نہ تمہارا نفع ھے اور نہ جبر کے تحت مسلمان بننے والے کا نفع ھے،، خواہ مخواہ اللہ کے دین کو کالک ملی ھوئی ھے اور زمین پر خدا بنے ھوئے ھو،، خدائی عدالتیں گلیوں میں قائم کر کے لوگوں کو بسم اللہ ،اللہ اکبر پڑھ کر ذبح کرے ھو، پھر سر کو بلند کر کے دکھاتے ھو کہ اسلام سربلند ھو گیا ھے !!!!!!!!
اللہ پاک انسان کو سمجھانے اور اس پر اتمام حجت کرنے کے لئے اسی کی ذات کو دلیل بناتا ھے اور واقعہ یہ ھے کہ کائنات کے سب سے غلیظ گناہ یعنی شرک کے لئے اللہ پاک نے جتنی مثالیں انسان کو خود اس کی ذات اور روزمرہ معمولات سے دی ھیں کہیں اور سے نہیں دیں،، البتہ تخلیق اور اپنی قدرت کے شواھد کے لئے دیگر ذرائع کو بھی مثالوں کے طور پر استعمال فرمایا ھے،، !
یہانتک کہ انسان سے خدائی کا دعوی بھی سن لیا جو کبھی ابلیس نے بھی نہیں کیا تھا جو مجسم برائی ھے ! انسان کو اپنی تخلیق کی صفت میں سے بھی کچھ عطا فرمایا اور آج انسان جو کچھ بنا رھا ھے،اصلاً اسی صفتِ تخلیق کا اظہار ھے،،ورنہ شیر آج تک کچا ھی کھا رھا ھے اور چڑیاں صدیوں پرانے طریقے پر گھر بنا رھی ھیں ! انا کا تڑکا لگنے کے بعد انسان سے اپنے اختیار کے ساتھ جھکنے کا مطالبہ کیا گیا تو وہ اڑ گیا ! اب طے یہ پایا کہ ایمان نماز سے نماز تک ری نیو کیا جائے گا،، جس نے فجر کو سر جھکایا ظہر تک تجدید کروا لی،، ظہر نہیں پڑھی فقد کَفَرَ،، تو کفر کر دیا،، اسے اقبال نے چھوٹی انا کا بڑی انا کے اگے سرنڈر کرنا بیان کیا ھے،، انسان کو ملکیت کا مزہ چکھایا اور پھر پوچھا تم اپنی ملکیت میں ایک غلام رکھ کر اس قدر پھول جاتے ھو کہ اس کی نافرمانی تمہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔۔لیکن کبھی خود سوچا ھے کہ تیرا بھی کوئی مالک ھے اور تو بھی کسی کا غلام ھے؟ پھر خود دن بھر اس کی نافرمانی کر کے تم کس رد عمل کی امید رکھتے ھو ،، جب انسان کسی کی ناشکری ، احسان فراموشی اور اپنی ناقدری پر کُڑھتا ھے تو اسے یاد دلایا جاتا ھے کہ وہ جس چیز پر خود کڑھ رھا ھے ، وھی کام وہ بڑے اصرار کے ساتھ اللہ جیسی ھستی کے خلاف خود کیئے جا رھا ھے ! قتل الانسان ما اکفرہ؟ مارا جائے یہ انسان ،یہ کتنا ناشکرا ھے،،من ای شئ خلقہ،،اس کو اس کے خالق نے کس چیز سے تخلیق کیا ؟ من نطفہ ! نطفے جیسی چیز سے اور وہ بھی ٹپکایا ھوا،جس کا مقدر ھی گٹر تھا،گٹر میں جاتے کو اٹھایا اور حسین و جمیل بنا کر نفرت سے نہ چھونے والوں کو بھی چومنے پر مجبور کر دیا،، وہ پانی پر نقشے بنانے والا ،،پھر اس نقشے کو تین اندھیروں میں لے جاکر وجود بخشنے والا اور پھر اس تصویر کو رنگ بھر کر سامنے لانے والا المصور،،من ای شئ خلقہ،، دیکھو تو سہی بنا کس چیز سے،، پھر اس کا خناس تو دیکھو ،اعتراض کس پر؟ علم الانسان مالم یعلم،، انسان کو وہ کچھ سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا،،اور جب اس نے جان لیا تو بغاوت کر دی،کلا ان الانسان لیطغی ،، !
انسان اس فانی انا کا ذرا سا تڑکا برداشت نہیں کر سکا،، جبکہ وہ جو سراپا انا ھی انا ھے،، ھمیشہ سے ھے ھمیشہ رھے گا،،اس کی انا کا کیا عالم ھو گا ؟ پھر اس کا معاف کر دینا کتنا برا کرم اور احسان ھو گا ؟