جو لوگ یہ کہتے ھیں کہ کوئی مسلمان آسان مسئلے پہ عمل نہ کرے؟ ، وہ کہاں چاھتے ھیں کہ کوئی آسان راہ بھی دکھائی دے ،، حالانکہ ” آسانی ” خود اللہ پاک کا حکم ھے کہ یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر ،، اللہ ھمارے لئے تنگی نہیں چاھتا مگر مفتی صاحب ضرور چاھتے ھیں ،، یرید اللہ ان یخفف عنکم ،، اللہ تم سے تخفیف چاھتا ھے ،، مگر مفتی صاحب نہیں چاھتے کیونکہ اس میں ھر فقہ کے گاھک کم ھو جاتے ھیں ،، ایک طرف آپ فرماتے ھیں کہ امام سارے برحق ھیں ، دوسری جانب آپ دوسرے کے حق کو اس لئے نہیں اختیار کرنے دیتے کہ وہ ذرا آسان ھے ،، اگر کوئی دکاندار یہ شرط عائد کرے کہ اس شرط پر یہ چیز بیچوں گا کہ باقی سب چیزیں بھی میری دکان سے خریدو تو میرا نہیں خیال کہ ایسی دکان چل سکے گی ،، پھر کہتے ھیں کہ اگر آپ نے آسان مسئلہ اختیار کیا تو گویا اپنے نفس کی پیروی کی دین کا اتباع چھوڑ دیا ، آپ کو دلائل سے کیسے پتہ چلا کہ دوسرے امام کا مسئلہ مبنی بر صواب ھے ،،میں کہتا ھوں کہ حضرت وہ تو امام ھے کوئی ایگزکٹ والوں سے ڈگری لے کر تو امام نہیں بنا ، وقت نے اس کو امام ثابت کیا ھے ، میں اس امام کے قول پہ اعتماد کیوں نہ کروں جبکہ میں 54 سال سے ھر ان پڑھ قصائی کی بات پہ اعتماد کر کے گوشت خریدتا رھا ھوں ، یہ جانے بغیر کے اس نے تکبیر کہی بھی تھی یا نہیں ،، اور یہ کہ گائے ذبح کی تھی یا گدھا ،،، مجھے اپنی آسانی سے مطلب ھے جس کی اجازت میرے اللہ نے مجھے دی ھے اور میرے نبی ﷺ نے حکم دیا ھے کہ یسروا ولا تعسروا ،، آسانی پیدا کرو مشکل مت پیدا کرو ،، آسانی کے اس آپشن کو کسی کا ابا جی بھی واپس نہیں لے سکتا ، جب کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا و عن ابیہا کے بقول میرے نبی ﷺ کو جب بھی اختیار دیا گیا آپ ﷺ نے ھمیشہ آسان رستہ اختیار فرمایا ،، اسی طرح خلیج میں کام کرنے والے 100٪ پاکستانی انڈین یہاں کی فقہ کا اتباع کر رھے ھیں ،،سنگل اقامت ،دوسری جماعت اور فجر کی سنتیں جماعت کے بعد پڑھ لینا وغیرہ ،، دو عربی ھوتے ھیں تو دس پاکستانی ھوتے ھیں اور دوسری ، تیسری ، چوتھی جماعت کی امامت بھی پاکستانی ٹیکسی والا کر رھا ھوتا ھے ،، گویا دشمن چاچا فلم کی طرح مفتی صاحب سے پوچھے بغیر تو سہولت اختیار کی جا سکتی ھے ،جس نے مفتی صاحب سے پوچھ لیا وہ پھنس ھو گیا ،، اللھم اھدنا فیمن ھدیت ،