میں نے ان سے کہا کہ وہ متعلقہ مواد مجھے بھیج دیں، انہوں نے وھی تحریر مجھے بھیجی جو کہ میں نے آج اپنی وال پر لگائی ھے !
یہ فقہ حنفی کی کتاب الھدایہ کی تحریر کا اقتباس ھے، جو کہ کتاب الحدود سے لیا گیا ھے !
ومن تزوج امرأَۃً لا یحل لہ نکاحہا فوطئہا لا یجب علیہ الحد ولکن یوجع عقوبۃً اِذا علم ذلک
انَۜ العقد صادف محلہ، لانَۜ محل التصرف ما یُقبَلُ مقصودہ، والانثی من بنات آدم قابلۃٓ للتوالد و ھو المقصود، و کان ینبغی ان یُنعقد فی جمیعِ الاحکام ، الا انہ ارتکب جریمۃً و لیس فیہا حدٓ مقدر فیُعزر !
اگر کوئی شخص کسی ایسی عورت سے شادی کر لے جو اس پر حلال نہیں تھی بلکہ محرمات میں شامل تھی !! تو اس کو حد نہ ماری جائے گی بلکہ کوئی اور درمیانی سزا دے دی جائے گی ،، نکاح کا حکم ثابت ھو جائے گا،، جس کے بعد سارے احکامات نکاح کے جاری ھونگے ! نکاح کے صادف ھونے کےلئے اس کا مقصود حاصل ھونا ضروری ھے ! چونکہ آدم کی ساری بیٹیوں میں توالد کی صلاحیت موجود ھے،اور نکاح سے وھی مقصود ھوتا ھے لہذا نکاح کا حکم جاری کیا جائے گا،،اگر وہ شخص نہیں جانتا تھا کہ منکوحہ اس کی محرمات میں سے ھے تو کوئی سزا نہیں البتہ علم کی صورت میں بھی چونکہ اس کی کوئی مقرر سزا نہیں لہذا اسے تعزیراً سزا دی جائے گی !
پہلی نظر میں یہ بات درست لگتی ھے کہ وھی کچھ کہا گیا ھے جو کہ ھمارے ممدوح مفتی سلفی صاحب نے فرمایا ھے !
مگر یہ کتاب النکاح کا موضوع نہیں !
نکاح ھو چکا ھے اب اس مسئلے کا حل کھوجنا ھے، اس لئے کتاب الحدود میں زیرِ بحث آیا ھے ! میرے وہ استاد جو میرے تخصص کے ممتحن تھے، اتفاقاً تشریف لائے ھوئے تھے،میں نے الہدایہ اصلی عربی متن والی نکال کر ان کے سامنے رکھی اور پوچھا کہ یہاں امام صاحب کیا فرمانا چاھتے ھیں ؟ وہ مسکرا کر بولے کہ اگر امام فرما رھے ھیں تو جو کچھ بھی فرما رھے ھیں ٹھیک ھی فرما رھے ھونگے ؟ میں نے کہا کہ یہ بات تو وھی ھوگئ جو ابوبکر صدیقؓ نے رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمائی تھی،ان کان قالہ فقد صدق: مگر یہ بات تو صرف نبیﷺ کے بارے میں ھی کہی جا سکتی تھی،، باقی تو سب کو دلیل دینی پڑے گی ! خیر انہوں نے اسے اتنا سیریس نہیں لیا اور نہ میں نے انہیں بتایا کہ یہ کسی کا اعتراض ھے !
الہدایہ قانون کی کتاب ھے اور قانون کی زبان استعمال کرتی ھے،یہ کوئی فضائل اور ترغیب و ترھیب کی کتاب نہیں ،، نہ ھی یہ حدیث کی کتاب ھے جس میں ھر قسم کی بات مل جاتی ھے،، جب تک آپ اس کی زبان کو نہ سمجھیں گے آپ اس کی دو چار سطریں بھی ھضم نہیں کر پائیں گے !
پہلی بات یہ کہ اس تحریر میں لفظ” اگر وہ جانتا ھے کہ وہ اس کی محرم ھے ” سے ایک بات واضح ھو گئ کہ وہ عورت اس کی ماں ،بہن ،بیٹی ، پھوپھی اور خالہ نہیں ! کیونکہ یہ معلوم رشتے ھوتے ھیں !
یہ مقدمہ رضاعی بہن کا ھے کہ اگر کسی شخص نے ایک عورت سے شادی کر لی ،، اب جیسا کہ عرب کا رواج تھا کہ ایک ھی عورت بہت سارے بچوں کو دودھ پلا دیا کرتی تھی،، جیسا کہ نبی کریمﷺ حضرت حمزہؓ کے دودھ شریک بھائی بھی تھے اور ثوبیہؓ نے دونوں کو دودھ پلایا ھوا تھا ! عرصہ سال یا دو سال بعد یا دس سال بعد ایک عورت آ کر بتاتی ھے کہ اس نے تو اس شخص کی بیوی اور اسکو دونوں کو دودھ پلایا ھوا ھے اور اس کی بیوی تو اس کی رضاعی بہن ھے جس سے اس کا نکاح جائز نہیں ! اب کیا ھو گا ؟
یہ ھے اصل مقدمہ،، نہ کہ ماں بہن بیٹی سے نکاح کرنا ،جیسا کہ مفتی سلفی صاحب نے لکھا تھا !
اب امام ابوحنیفہ فرما رھے ھیں کہ یہ نکاح اب توڑ کر بھی سابقہ عرصے میں صادف نکاح کے طور پر سمجھا جائے گا، ایک لیگل نکاح کی طرح سارے معاملات ھونگے،،
1-اس دوران پیدا ھونے والے بچے اس شخص کی جائز قانونی اولاد تصور ھونگے !
2- وہ باپ کا نسب پائیں گے !
3- وہ اپنے باپ کے وارث ھونگے !
4- وہ عورت ان کی ماں قرار پائے گی نہ کہ پھوپھی !
5- اور وہ عورت ان بچوں کی ماں کی حیثیت سے ان کی وراثت پائے گی !
یہ اصل میں ایک حدیث کی وضاحت کی ھے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے جو کہ بخاری نے کتاب العلم اور کتاب النکاح میں بیان کی ھے !
عقبہ بن الحارثؓ نے ایک عورت سے شادی کی،، ایک دن ان کے گھر ایک کالی حبشی عورت آئی اور اس نے کہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ھوا ھے،، اس پر وہ مکے سے مدینہ آئے اور حضور ﷺ سے مسئلہ پوچھا ! آپ نے ان کو حکم دیا کہ وہ بیوی کو طلاق دے دیں ! انہوں نے بہت کہا کہ وہ جھوٹی عورت ھے،مگر حضورﷺ نے فرمایا ،،مگر وہ گواھی دے چکی ھے ! اس حدیث سے بہت سارے مسائل اخذ ھوتے ھیں گواھی کے متعلق بھی،،مگر فی الحال ھم ان کو ھی ذکر کرتے ھیں جن کا تعلق امام ابوحنیفہ کے فتوے سے ھے !
1- حضورﷺ نے ان کو طلاق کا حکم دیا ! ( گویا نکاح کا سابقہ عرصہ جائز مانا )
2- حضور ﷺ نے ان پر کسی سزا کا اطلاق نہیں کیا،،نہ حد نہ تعزیر !
یہی دونوں باتیں امام ابوحنیفہ نے بھی کہی ھیں پھر غلط کیا کہا ھے ؟؟