امام اعظم –
میں بارہا عرض کرتا رھتا ھوں کہ امام اعظم نعمان ابن ثابت رضی اللہ عنہ و ارضاہ ،جرأت اور صلابت رائے میں عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی کاپی نظر آتے ھیں – آپ اپنی فقہ کی بنیاد قرآن حکیم پر رکھتے ھیں اور قرآن سے دلیل مل جانے کے بعد کسی طرف نہیں دیکھتے – حدیث میں آپ راوی صحابی کے فقیہہ ھونے کی شرط رکھتے ھیں کہ وہ راوی اس پائے کا ھو کہ نبئ کریم ﷺ کے قول یا فعل کی گہرائی و گیرائی کو پا سکے ،کیونکہ آخرکارنبئ کریم کا قول و فعل بیان کرنے کے لئے اس نے اپنے فہم کو ھی الفاظ کی شکل دینی ھے – آپ حدیث کے طور پر فقہئاے صحابہؓ کے عمل یعنی آثار کو ترجیح دیتے ھیں ، آپ کے نزدیک صحابی حوالہ دے یا نہ دے اس کا عمل نبئ کریم ﷺ کی عملی حدیث کا تتبع ھوتا ھے، اللہ کے رسول ﷺ کو صرف نماز ھی نہیں بلکہ ھر کام دیکھ کر کرنے کا حکم ھے ، اطاعت قول کو مان لینے کا نام ھے اور اتباع بغیر قول کے جیسا وہ کریں ویسا کرتے جانے کا نام ھے ، ایئر پورٹ پر جہاز کو پارک کرانے کے لئے جو گاڑی آگے چلتی ھے ، اس پر خطبہ نہیں لکھا ھوتا بلکہ صرف ایک جملہ لکھا ھوتا ھے ” ٖ Follow Me ” اتبعنی ” قرآن بھی ذات محمد ﷺ کے بارے میں یہی جملہ استعمال فرماتا ھے ” Follow Him” اتبعوہ لعلکم تفلحون”
آثار کے لئے امام ابوحںیفہؒ خلفائے راشدین کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہؓ اور عبداللہ ابن مسعودؓ اور دیگر چند فقیہہ صحابہ کو ترجیح دیتے ھیں ، اس لئے کہ سنت قول نہیں بلکہ فعل کا نام ھے اور نبئ کریم ﷺ کی سیرت ان صحابہؓ کے ذریعے ھی سفر کرتی ھے وہ سنت بنی ھی تب ھے جب صحابہؓ نے اس پر چل چل کر اس کو اس چٹیل رستے میں تبدیل کر دیا ھے جو دور سے صاف نظر آتا ھے ، اس کی چمک کے لئے سورج کی روشنی نہیں بلکہ رات کے چاند کی چمک بھی کافی ھے ، صحابہؓ ھی وہ سفید رستہ ھیں کہ جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ترکتکم علی المحجۃ البیضاء لیلھا کنھارھا ،لا یزیغ عنھا الا ھالک- میں تمہیں ایسے چٹے سفید رستے پر چھوڑ کر جا رھا ھوں جو رات کو بھی اتنا روشن ھوتا ھے جیسے دن کو ، اس رستے سے کوئی تب تک نہیں بھٹک سکتا جب تک کہ خود ھی خودکشی کا ارادہ نہ کر لے –
امام اعظم سند کے بعد متن کو دیکھتے ھیں اور الفاظ سے زیادہ اس بات کو دیکھتے ھیں کہ جن کے بارے میں یہ کہے جا رھے ھیں واقعتاً یہ ان کی شان کے مطابق ھیں ؟ اگر کسی فیصلے کا ذکر کیا گیا اور امام کے نزدیک وہ عدل کے تقاضے پورے نہیں کرتا تو آپ نے اس کو رد کرنے میں ایک لمحہ نہیں لگایا ، اور فرما دیا کہ ” یہ تو خرافات ھے ” اس کی کئ مثالیں دی جا سکتی ھیں ، راوی نے بعد میں آپ پر الزام رکھ دیا کہ میں نے حدیث بیان کی تو ابوحنیفہؒ نے یہ کہہ دیا ، اس نے یہ نہیں سوچا کہ اس نے امام کے سامنے حدیث بیان نہیں کی بلکہ رسول اللہﷺ کی توھین کی ھے اور انہوں نے اذیت کی کیفیت میں وہ سخت الفاظ استعمال کیئے ھیں تا کہ تو جن کے سامنے دوبارہ اس حدیث بیان کرے اور ساتھ ابوحنیفہؒ کا قول پیش کرے تو اگلا بھی خبردار ھو جائے کہ دال میں کچھ کالا ھے –
آپ کے سامنے ایک حدیث بیان کی گئ کہ ایک یہودی عورت کا سر کچلا ھوا ملا ، وہ بول نہیں سکتی تھی ،لہذا اس سے پوچھا جانے لگا کہ تجھے فلاں نے قتل کیا ھے ؟ تو اس نے نفی میں سر ھلا دیا ،یہانتک کہ جب قاتل کا نام لیا گیا تو اس نے اثبات میں سر ھلا دیا ، جس پر رسول اللہ ﷺ نے اس قاتل یہودی کو بلا کر اس کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا ، اس حال میں کہ وہ انکار کر رھا تھا – یہ روایت سنتے ھی امام ابوحنیفہ نے بیساختہ خرافہ قرار دے دیا اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کان قضی الناس و اذکاھم ،، رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عادل اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے والے ذھین ترین شخص تھے وہ ایک سیا فیصلہ کیسے دے سکتے تھے کہ جس میں عدل کے لحاظ سے واضح سقم موجود ھے – اگر اس طرح سزائیں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا جائے تو ھر مرنے والا اس کا نام لے کر اس کو مروا دے گا جس سے وہ نفرت کرتا ھے – ( مثلاً ایک آدمی کوکسی راہ چلتے لوٹتے وقت گولی مار دی اس کو پتہ چل گیا کہ وہ تو نامعلوم ھے پکڑا ھی نہیں جائے گا کیوں نہ اپنے اس سابقہ داماد کا نام لے دوں جس نے میری مظلوم بچی کو بے سبب طلاق دے دی ھے – یا فلاں شخص کا نام لے دوں جس نے میری زمین یا مکان دبایا ھوا ھے )
ایک اور حدیث جس کو ذکر کر کے ھر بندے کو مارنے کا سرٹیفیکیٹ دے دیا جاتا ھے کہ پہلے بندہ مار دو تا کہ وہ اپنا دفاع نہ کر سکے اور پھر کہہ دو کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کی گستاخی کی تھی ، بس آپ ھیرو بھی بن جائیں گے اور مرنے والے کا خون ھدر یعنی بے کار قرار پائے گا –
اس حدیث میں کہا گیا ھے کہ ایک عورت قتل کر دی گئ جس کا قاتل نہیں مل رھا تھا ، لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ ایک عورت قتل ھو گئ ھے اور اس کا قتل نہیں مل رھا – فجر کا وقت تھا آپ ﷺ نے خطبہ دیا کہ میں اس عورت کے قاتل کو اپنے اس حق کی قسم دیتا ھوں کہ جو اس پر میرا حق ھے کہ وہ بتا دے کہ قتل کس نے کیا ھے – چنانچہ ایک نابینا بندہ کھڑا ھوا ، اس کی ٹانگیں کانپ رھی تھیں اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ عورت میری ام ولد تھی ،میری بہت خدمت اور سیوا کرتی تھی اور میرے ساتھ پیار محبت کرنے والی تھی ، اس میں سے میرے دو موتیوں جیسے بیٹے ھیں مگر وہ آپ کی گستاخی کرتی تھی ، آج رات میں نے اس کے پیٹ پر ایک نوکدار چیز رکھ کرخود اس پر لیٹ گیا جس سے وہ اس کے پیٹ میں گھس گئ اور وہ ھلاک ھو گئ ،، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ” سن لو اس کا خون رائیگاں گیا ھے –
پہلے اس حدیث کے متن پر غور فرما لیجئے – ایک بندے کی ام ولد ھے یعنی بیوی کی بجائے اس کی وہ لونڈی ھے جس سے اس کے بچے ھیں اور وہ اس کو اب بیچ نہیں سکتا گویا وہ اب بیوی ھی ھے ، ظاھر ھے سارے مدینے کو معلوم ھے کہ وہ کس کی بیوی ھے یا لونڈی ھے ، کہنے والا یہ کیوں کہ کہتا کہ فلاں نابینا کی ام ولد قتل ھو گئ ھے ؟ تا کہ پہلے اسی نابینے سے ھی پوچھا جائے کہ بھائی تیری کیا کہانی ھے کیونکہ وہ مری تو تیرے بستر پر ھے ، ایک حوالدار کو بھی پتہ ھے کہ تفتیش کی ابتدا کہاں سے کرنی ھے ، خود چیف جسٹس نبئ کریم ﷺ کو ھی پتہ نہیں ؟ چلئے قتل ھوا تو مقتولہ ابھی گھر میں ھی ھو گی باھر لوگوں کو کیسے پتہ چل گیا ؟ اگر قاتل نے اس کو مار کر باھر پھینک دیا تھا تو بھی وہ چہرے سے پہچانی جاتی کیونکہ لونڈیاں پردہ تو کرتی نہیں تھیں ، تب بھی ایک عورت کی بجائے فلاں کی ام ولد قتل ھو گئ ھے کہنا بنتا تھا ، کیا قاتل نے اس کا چہرہ بھی بگاڑ دیا تھا کہ لوگوں کو اس کی شناخت نہیں ھو رھی تھی ؟
ان حالات میں رسول اللہ ﷺ کو اس نامعلوم عورت کے لئے اپنے حق کی قسم دینی پڑی-
ایک طرف نابینا بوڑھے میں اتنی ایمانی جرأت تھی اور دوسری جانب حق بیان کرتے ھوئے اس کی ٹانگیں کیوں کانپ رھی تھیں ؟ اس سے تو اپنا ممتاز قادری شیر نہیں نکلا جو گاڑی میں بیٹھا ھوا اچھل اچھل کر نعرے لگا رھا تھا ؟
اس کی یہ بات سن کر نبئ کریمﷺ نے جھٹ پٹ یقین کیسے کر لیا جبکہ قاتل کو جان بچانے کے لئے جھوٹ بولنے کا حق دیا گیا ھے اور اس سے حلفیہ بیان بھی اسی وجہ سے نہیں لیا جاتا کہ جھوٹ بولنا اس کا رائٹ ھے – کیا یہ قتل کا دروازہ کھولنے والی بات نہیں ھے کہ پہلے آپ اپنی بیوی ، بھائی ،پڑوسی جس کے ساتھ بھی آپ کی عداوت ھو اس کو قتل کر دیں اور پھر کہہ دیں کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی – کیا رسول اللہ جیسا آسمانی عدالت کا چیف جسٹس ایسا کانا اور لولا لنگڑا فیصلہ کر سکتا ھے ؟ یہ تو ھو گیا متن کا حال ،،
سند کا حال بھی سن لیجئے کہ محدثین کے اپنے بنائے گئے اصول کے مطابق کہ اگر کوئی بات مجمعے میں ھوئی ھے یعنی جمعے کے خطبے کے دوران یا نماز کے اجتماع میں اور اس کو صرف ایک شخص ھی بیان کرے تو وہ حدیث مشکوک ھو گی – یہاں نبئ کریم ﷺ فجر کی نماز میں عدالت لگا رھے ھیں ،خطاب فرما رھے ھیں سارے مدینے والے سیکڑوں صحابہؓ موجود ھیں کیونکہ یہ کام کاج کا وقت نہیں اور سرکاری شفٹیں اس وقت ھوتی نہیں تھیں اور نماز تو منافقین کو بھی جماعت کے ساتھ ھی پڑھنی پڑتی تھی ، ان صحابہؓ میں خلفائے راشدین ،عشرہ مبشرہ ، بدر والے ، احد والے ، بیعتِ رضوان والے، فتح مکہ والے ،غزوہ حنین والے سب موجود ھونگے ،، کسی نے نہیں سنا اگر سنا ھے تو ابن عباسؓ نے جو ابھی دس بارہ سال کے تھے –
ابن عباسؓ سے اس واقعے کو صرف ان کا آزاد کردہ غلام عکرمہ روایت کرتا ھے حالانکہ ان کے شاگرد ھزاروں کی تعداد میں تھے – اور عکرمہ وہ ھے کہ جس سے سارے محدثین ڈرتے تھے ، امام شافعی فرماتے ھیں کہ ابتعدوا عن عکرمہ ،اتقوا حدیث عکرمہ ،، عکرمہ کی حدیث سے بچ کر رھو ، اس سے دور رھو، امام مالک اس کی نکیر کرتے ھیں اور امام مسلم فرماتے ھیں کہ ھم عکرمہ کی حدیث نہیں لیتے ،مسلم شریف میں عکرمہ کی صرف ایک روایت بطور متابعت ذکر کی گئ ھے ،کسی باب میں نہیں لی گئ – امام بخاری کے استاد علی المدینی فرماتے ھیں کہ عکرمہ کی حدیث سے دور رھو وہ صبح کے وقت حدیث بیان کرتا ھے اور شام کو اس کے خلاف حدیث سنا دیتا ھے ( یروی الحدیث غدواً و یخالفھا عشیاً) سعید ابن مسیب اپنے شاگرد بُرد سے فرماتے ھیں کہ اے برد تو ھم پر اس طرح جھوٹ مت باندھنا جیسے ابن عباس پر عکرمہ باندھا کرتا ھے حالانکہ وہ اس کو باتھ روم کے دروازے کے ساتھ باندھ کر حدیث سنایا کرتے تھے( تا کہ وہ کوئی لفظ سن نہ لے اور پھر پوری اسٹوری بنا کر پھیلا دے ) یا بُرد لا تکذب علی کما کان عکرمہ یکذب علی مولاہ ابن عباس و قد ربطہ بباب الھُش ،، 104 ھجری میں جب عکرمہ فوت ھوا تو 4 بندے بھی میسر نہ تھے جو اس کا جنازہ اٹھاتے یہانتک کہ چار آدمیوں کو اجرت پر آمادہ کیا گیا ،گویا لوگ اس کے رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ بولنے کی وجہ سے اس قدر نالاں تھے – اس سے آگے عثمان شحام روایت کرتا ھے اور اس کے بارے میں محدثین کی رائے مختلف فیہ ھے –
اس جیسی روایت کو لے کر صاحب صارم المسلول اور ھمارے دیگر دوستوں نے گستاخ کے فوری قتل کے فتوے دیئے ھیں اور قرآن کو پسِ پشت ڈال دیا ھے ،جس نے منافقین کے روکعوں کے حساب سے گستاخانہ قول قرآن میں نقل فرمائے ھیں زجر و توبیخ کا ھر انداز اپنایا ھے اللہ انہیں قتل کرے ، قاتلھم اللہ ،، گیارہ بار ان کو کافر کہا ھے ، لا تعتذروا قد کفرتم بعد ایمانکم ،، ذالک بانھم کفروا باللہ و رسولہ ، ذلک بان آمنوا ثمہ کفروا ،، مگر پھر سب سے آخر میں نازل ھونے والی سورت میں گیارہ بار کافر کہنے کے بعد فرمایا ،،فاعرض عنھم انھم رجسۤ ،، ان سے اعراض کیجئے یہ نری گندگی ھیں ، یعنی ان کا جینا تو اسلام کے کسی کام کا نہیں مگر ان کا آپ کے ہاتھوں مرنا اسلام پر مزید دھبہ لگا دے گا – ان سب آیات کو عکرمہ کی حدیث کے سامنے اٹھا کر پھینک دیتے ھیں ،کتاب اللہ وراء ظھورھم کانھم لا یعلمون –
اس سلسلے کی حضرت علیؓ سے مروی روایت کہ جس میں ایک یہودیہ کو کسی کے رسی گلے میں ڈال کر قتل کر دیا تھا اور بعد میں گستاخی کا عذر پیش کر دیا تھا رسول اللہ ﷺ نے اس کا خون بھی رائیگاں قرار دیا تھا وہ حدیث بھی اسی درجے کی ھے – اور انصاف کے اصولوں کے خلاف –