امام مہدی کی حقیقت،احادیث کے آئینے میں !

امام مہدی کی حقیقت،احادیث کے آئینے میں !
اس سلسلے میں سب سے بہترین حدیث، عبداللہ ابن مسعودؓ سے مروی ھے جسے ان سے زر بن حبیشؓ نے اور پھر عاصم کوفیؓ نے روایت کیا ھے ! حدیث کا متن کچھ اس طرح ھے !
نبی کریم ﷺ نے فرمایا ؛ کہ اگر دنیا کے خاتمے میں ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو اللہ اس دن کو طویل فرما دے گا،حتی کہ میرے اھلِ بیت میں سے ایک شخص اٹھے گا،جس کا نام وھی ھو گا جو میرا ھے اور اس کے باپ کا نام بھی وھی ھو گا جو میرے والد کا ھے، وہ زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا،جسطرح وہ ظلم و جور سے بھری ھوئی تھی !! ابو داؤد،، ترمذی،، ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ھے !
لیکن یہ روایت تین زمانوں تک خبرِ واحد رھی، اسے ان الفاظ میں عبداللہ ابن مسعودؓ کے علاوہ کو روایت نہیں کرتا،،اور ابن مسعودؓ سے اسے سوائے زر بن حبیش کے اور کوئی روایت نہیں کرتا، جبکہ زر بن حبیش سے سوائے عاصم کے اور کوئی روایت نہیں کرتا،، البتہ پھر عاصم سے اسے روایت کرنے والے بہت لوگ ھیں !! اور یہیں سے روایت کے الفاظ بھی مختلف ھونا شروع ھوئے ھیں!
عبداللہ ابن مسعود بلا شبہ عادل ھیں ،، زر بن حبیش بھی عادل وثقہ بلکہ بعض احادیث کی روایت سے پتہ چلتا ھے کہ وہ خود بھی صحابی تھے،، یہاں تک یہ سند قوی اور بے غبار ھے،، مگر عاصم کوفی کی ذات انتہائی مشکوک ھے،دنیا یہ تو تسلیم کرتی ھے کہ وہ قرأت کے امام ھیں ( اور یہ طرفہ تماشہ ھے کہ جسے حدیث میں ضعیف قرار دیا گیا ھے،قرآن کی روایت میں اسے نہ صرف قوی قرار دیا گیا ھے بلکہ امام مانا گیا ھے،،اور آج ساری دنیا ان کی قرأت سے قرآن پڑھتی ھے، اگر قرآن کی روایت اس ضعیف راوی سے چلی ھے تو پھر قرآن کا اللہ ھی حافظ ھے،اس سلسلے میں ان علماء کا مؤقف 100٪ درست ھے جو قرآن کی روایت اجماع امت سے مانتے ھیں نہ کہ کسی ایک فرد سے، قرآن نبی ﷺ سے ایک جماعت نے لیا اور جماعت سے جماعتیں روایت کرتی چلی آ رھی ھیں )
حدیث میں ان کا مقام کچھ یوں ھے کہ ابن عدی کامل میں اور ذھبی میزان الاعتدال میں رقمطراز ھیں کہ ‘ عاصم قرات میں تو مسلم ھیں مگر حدیث میں قابلِ تسلیم نہیں اگرچہ یہ سچے ھیں مگر حدیث میں انہیں وھم ھوتا ھے، ابن خراش کہتے ھیں ان کی احادیث منکر ھوتی ھیں، امام الرجال یحی القطان فرماتے ھیں مین نے جتنے بھی عاصم نام کے افراد دیکھے ھیں ان سب کا حافظہ خراب پایا،، امام ذھبی فرماتے ھیں،،ا گرچہ امام بخاری و مسلم نے بھی ان سے روایتیں لی ھیں مگر سب استشہاد کے طور پر،،دلیل کے طور پر کوئی بھی نقل نہیں فرمائی،ابن سعد کہتے ھیں اگرچہ ثقہ ھیں مگر حدیث مین غلطیاں کرتے ھیں، امام ابو حاتم رازی لکھتے ھیں وہ اس لائق نہیں کہ انہیں ثقہ کیا جائے،میزان الاعتدال،غالباً یہی وجہ ھے کہ امام بخاری و مسلم نے ان سے یہ روایت نہیں لی ورنہ عاصم کے علاوہ اس کے سارے راوی ثقہ ھیں،،اس لیئے یہ روایت محدثین کے معیار پر پوری نہیں اترتی،، بلکہ بقول ابن خراش منکر حدیث ھے اور بقول ابی حاتم ضعیف ھے !

 

ابن ماجہ نے حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے ایک اور حدیث نقل کی ھے جس کے الفاظ اور واقعے کی تفصیل یکسر تبدیل ھو گئ ھے !

وہ فرماتے ھیں کہ ھم حضورﷺ کی خدمت میں حاضر تھے،اتنے میں بنو ھاشم کی ایک جماعت آئی ،انہیں دیکھ کر حضورﷺ رونے لگے، اور آپﷺ کے چہرے کی رنگت تبدیل ھو گئ، ھم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ھم آپ کے چہرے پر تکلیف کے آثار دیکھ رھے ھیں،اس کی کیا وجہ ھے؟ آپ نے فرمایا ھم اھلِ بیت کے لئے اللہ تعالی نے دنیا کے مقابلے میں آخرت کو پسند فرمایا ھے ( تو اللہ کی پسند پرنبیﷺ کو رونے کی کیا ضرورت تھی؟ ) اور میرے بعد میرے اھل بیت کو تکالیف پہنچیں گی،، اور انہیں دھکے دیئے جائیں گے،حتی کہ مشرق کی جانب سے ایک گروہ آئے گا جس کے ساتھ سیاہ جھنڈے ھوں گے لوگ ان سے خیر کا سوال کریں گے تو وہ ان کو نہیں دیں گے،جس پر لوگ ان سے جنگ کریں گے تو اللہ کی طرف سے اس گروہ کی مدد کی جائے گی،جس پر وہ لوگوں کی خواھشات پوری کریں گےلیکن ان کو خلیفہ تسلیم نہیں کریں گے،حتی کہ یہ گروہ میرے اھل بیت میں سے ایک آدمی کی طرف دعوت دے گا،جو زمین کو انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ جور سے بھری ھوئی تھی،، اس زمانے کے جو لوگ اس گروہ کو پائیں وہ اس گروہ کے پاس پہنچ جائیں،خواہ انہین برف پر گھسٹ کر جانا پڑے،، ( ابن ماجہ)
اب آیئے اس حدیث کا جائزہ لیتے ھیں،، یہ ایک ھی صحابی کی حدیث ھے اورپہلی حدیث کو اور اس کو دیکھ لیں،،کہ کیا کچھ مختلف ھے !! میں نے اکثر دیکھا ھے اور صبح سے تو پڑھ پڑھ کے طبیعت خراب ھو گئ ھے،، ضعیف اور موضوع روایات میں نبی پاکﷺ کو خواہ مخواہ رلایا جاتا ھے،کیونکہ رونا دھونا اس ٹولے کا وتیرہ ھے،،یہ لوگ اس کو خوبی سمجھتے ھیں،، بات بے بات حضرت علیؓ کو گلے لگا لیا اور نبیﷺ نے رونا شروع کر دیا،وغیرہ،،جس نبیﷺ پر نازل ھوا ھے کہ تمہیں آزمایا جائے گا خوف اور بھوک سے جان و مال اور پھلوں کے نقصان سے اور صبر والوں کو بشارت دے دو،، وہ نبی بجائے صبر کی تلقین کے خود رونا دھونا شروع کر دے تو امت کو حوصلہ کون دے گا ؟ اس جماعت تک جانے کے لئے برف پر گھسٹ کر جانا بھی اک لطیفہ ھے،عرب تکلیف دہ سفر کے لئے صحراء کی مشقت بیاان کرتے ھیں،، اس حدیث کو گھڑنے والا غالباً شام کے علاقے کا ھو گا جہاں برف پڑتی ھے ،کیونکہ مہدی نے بھی جا شام بسرام کرنا ھے !
اھل بیت کی اصطلاح قران اور حدیث میں ازواج النبی کے لئے استعمال ھوتی ھے اور اولاد اس میں ضمناً شامل ھوتی ھے،یہ پوری دنیا کا دستور ھے،،آج بھی اگر کوئی کہے کہ گاڑی میں اھلیہ ھے تو اس کا مطلب بیوی ھی لیا جاتا ھے اھلیہ یا گھر والی بیٹی کو کوئی نہیں کہتا،،
اھل بیت کا فیصلہ کبھی بھی نہیں ھو سکا،، بنو عباس اپنے کو اھل بیت کہتے تھے اور انہوں نے حکومت بھی اھلِ بیت کے نام پر حاصل کی تھی،یہ بھی مسلمہ حقیقت ھے کہ بنو عباس نے ھی کالے جھنڈے کو اپنا شعار بنایا تھا اور تمام خلفاء بنو عباس کالا لباس اور جبہ پہنا کرتے تھے،ان کے بعد شیعہ نے اسے اپنایا،، چونکہ اس حدیث میں کالے جھنڈے کا ذکر ھے لہذا غالباً اے بنو عباس کے زامنے میں ھی رندے پر چڑھایا گیا ھو گا !
اس کے دو راوی مجروح ھیں،، علی بن صالح اور یزید بن ابی زیاد الکوفی،حافظ ابن حجر علی بن صالح کو مجہول کہتے ھیں،، امام ذھبی فرماتے ھیں یہ حدیثیں وضع کرنے کا ملزم ھے،گویا اس روایت کا وضع کرنے والا علی بن صالح ھے،جس طرح اس نے رسول اللہﷺ پر جھوٹ باندھا اسی طرح عبداللہ بن مسعودؓ، علقمہ اور ابراھیم النخعی کو بھی گھسیٹ لیا،، سند خوب مہنگی بنوائی ھے !
دوسرا راوی یزید بن ابی زیاد کوفی،، کوفہ کا مشہور عالم ھے، لیکن حافظہ کمزور تھا، امام یحی بن سعید القطان فرماتے ھیں یہ قوی نہیں اور نہ اس کی حدیث حجت ھے،، امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ھیں اس کی حدیث اٹھا کر باھر پھینک دو ،، امام وکیع بن الجراح جو امام ابوحنیفہ کے پاس چالیس سال تک کاتب رھے، فرماتے ھیں جھنڈوں والی حدیث کی کوئی حیثیت نہیں،، امام احمدبن حنبل فرماتے ھیں جھنڈوں والی حدیث کی کوئی حقیقت نہیں،،امام ذھبی فرماتے ھیں یہ روایت صحیح نہیں،، بلکہ ابو اسامہ فرماتے ھیں کہ اگر یزید 50 قسمیں کھا کر بھی کہے کہ میں نے یہ روایت ابراھیم سے سنی ھے تو بھی میں اس کی تصدیق نہیں کروں گا ،کیونکہ نہ یہ ابراھیم کا مذھب تھا نہ علقمہ کا اور نہ ابن مسعودؓ کا،، ابن عدی فرماتے ھیں اس کی احادیث منکر ھوتی ھیں، ابن فضیل فرماتے ھیں یہ اپنے زمانے کے شیعوں کا امام تھا( میزان )

 

(جاری ھے)