نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف بیٹھے تو ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنھا ، آپ کی خیریت معلوم کرنے مسجد تشریف لے گئیں ( ھمارے یہاں اعتکاف میں بات کرنا گناہ سمجھا جاتا ھے اور پھر وہ بھی بیوی کے ساتھ،،، یہانتک کہ ضرورت کی بات چیت بھی لکھ کر کی جاتی ھے ،مثلاً ” آج بھنڈیاں پکانی ھیں،، میری شلوار بھیج دو ، قینچی اور شیشہ بھیج دینا ” حوائج ضروریہ کے لئے جاتے وقت ایک بڑی چادر میں منہ تقریباً چھپا کر جانا ھے اور رستے میں کسی سے کوئی بات چیت نہیں کرنی ، بلکہ عام آدمی کو بھی یہی کہا جاتا ھے کہ اگر اعتکاف والا رستے میں ملے تو اسے نظر بھر کر دیکھو بھی مت اور بات کرانے کی کوشش مت کرو بلکہ سلام تک مت دو ،، بس رستہ چھوڑ دو ،،،،،، یوں اعتکاف کو ھَوۜا بنا دیا گیا ھے ،جبکہ حرم میں حاجی کھانا بھی باھر کھا کر آتے ھیں ، کھانے کا آرڈر بھی ڈٹ کر دیتے ھیں اور اپنی سیٹ بھی خود جا کر بُک کراتے ھیں ) جب بات چیت ختم ھوئی تو نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت صفیہؓ کو گھر تک اعزازاً چھوڑنے جا رھے تھے ( یہ ھیں اللہ کے رسول ﷺ کے اخلاق کہ اپنی بیوی کو کس قدر تکریم اور پروٹوکول دے رھے ھیں اور وہ بھی اعتکاف میں ) اس زمانے میں مسجد کے صحن میں سے ھو کر رستہ گزرتا تھا ، دو انصاری صحابیؓ اس وقت گزر رھے تھے ،، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکارا کہ اپنے انہی قدموں پر کھڑے ھو جاؤ ” دیکھو یہ میری زوجہ صفیہؓ ھے جو میری خیریت دریافت کرنے آئی تھیں !! اس پر صحابہؓ نے کہا کہ ” سبحان اللہ ” اے اللہ کے رسول ﷺ اس وضاحت کی بھلا کیا ضرورت تھی ( آپ تو اللہ کے رسول ھیں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،شیطان ابن آدم میں خون کی طرح دوڑتا ھے ، میں نے سوچا مبادا تمہارے دلوں میں شر ڈال دے ،،،،،،،،،
عن أم المؤمنين صفية بنت حيى رضى الله عنها قالت : كان النبي صلَّ الله عليه و سلم معتكفاً فأتيته أزوره ليلاً ، فحدثته ، ثم قمت لأنقلب ، فقام معي ليقلبني فمر رجلان من الأنصار فلما رأيا رسول الله صلَّ الله عليه و سلم أسرعا ، فقال النبي صلَّ الله عليه و سلم : على رسلكما ، إنها صفية بنت حيى .. فقالا : سبحان الله ، يا رسول الله ، فقال (( إن الشيطان يجرى من ابن آدم جري الدم ، و إني خشيت أن يقذف في قلوبكما شرا ، أو قال شيئا )) .
( و هذا الحديث رواه الشيخان ، و أحمد ، و أبو داود ، و غيرهما )
یہ حدیث حضرت صفیہؓ بنت حیۜ سے بخاری اور مسلم دونوں نے روایت کی ھے ،، اللہ کے نبی ﷺ کو اپنے امتیوں کے ایمان کی کس قدر فکر ھے کہ بن مانگے وضاحت فرما رھے ھیں اور شیطانی وسوسے کا قلع قمع فرما رھے ھیں نیز اپنے امیج کی حفاظت کا اھتمام فرما رھے ھیں ،، اسی امیج پہ پورا اسلام کھڑا ھے ،، ساری صحاح ستہ اور احادیث کے مجموعے اسی امیج کے زور پہ اپنا وجود ثابت کرتے ھیں ،،
ابوسفیانؓ کافر بھی تھے اور نبیﷺ کے دشمن بھی تھے ،جنگ میں ان کے عزیز و اقارب مسلمانوں کے ھاتھوں مارے گئے تھے گویا خونی دشمنی تھی مگر جب قیصر نے ان سے نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے سچ سچ بتا دیا کہ ان میں کوئی عیب نہیں ھے ، نہ نسل و نسب کا اور نہ کردار و سیرت کا ، ان کے قول فعل میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا ،ھم نے آج تک ان سے سچ کے سوا کسی بات کا تجربہ نہیں کیا ،، ابوسفیان بہترین سفارت کار تھے ، وہ کہتے ھیں کہ مجھے معلوم تھا کہ میرا ھر جواب محمد ﷺ کا موقف مضبوط کر رھا ھے اور ھمارے موقف کو نقصان پہنچا رھا ھے ،مگر مجھے خدشہ یہ تھا کہ عرب کی عورتوں میں مشہور ھو جائے گا کہ ابوسفیان جھوٹ بولتا ھے ،، اس کا نام ھے اپنے امیج کا دفاع کرنا ، ابوسفیان جنت کے لئے سچ نہیں بول رھے تھے ،، بلکہ اپنے کردار کو جھوٹ کے داغ سے بچانے کے لئے سچ بول رھے تھے !
مذھبی طبقہ چاھے وہ ھندو سادھو ھو ، عیسائی پادری ھو یا ھمارے ائمہ مساجد اور مدرس ھوں ،، جنسی استحصال کے مجرم ثابت ھوتے ھیں ،، الا ما شاء اللہ ،، گوگل سرچ کر کے دیکھ لیجئے ھر مذھب کے لوگ اس قباحت میں مبتلا ھیں ،، اب یہ کہنا کہ فلاں بھی کرتا ھے ، اسکول اور یونیورسٹی میں ھوتا ھے کوئی دلیل نہیں ،، اسکول اور یونیورسٹی والے تو توبہ کرنے تمہارے پاس آتے ھیں آگے تم ان سے بھی بڑے پاپی بیٹھے ھو،، خدا کو کیا منہ دکھاؤ گے ؟ تم دوسرے محکموں کے کرتوت گنا کر اپنے کو کیسے بری کر سکتے ھو ؟ تم تو خدا کے نمائندے بن کر لوگوں کی توبہ قبول کرتے اور انہیں نجات کا رستہ بتاتے ھو ،، تم بھی اگر یہی کرنے لگ جاؤ گے تو لوگ توبہ کرنے کہاں جائیں گے ؟ عیسی علیہ السلام نے یہود کے علماء سے فرمایا تھا ” تم زمین کا نمک ھو جس سے لوگ اپنے کھانے کو نمکین بناتے ھیں ذائقے دار بناتے ھیں ، نمک ھی گر نمکینی کھو دے گا تو لوگ نمک حاصل کرنے کہاں جائیں گے ؟
پولیس والے کے لئے معطل کرنا اور مولوی کو مسجد سے نکالنا کوئی سزا نہیں ھے ، وہ اگلے دن دوسری مسجد میں مصلے پہ کھڑا ھو جاتا ھے جہاں اسے تازہ خون دستیاب ھوتا ھے ،، بلکہ بعض دفعہ ایسا بھی ھوتا ھے کہ اسی گاؤں کے دوسرے محلے کی مسجد میں رکھ لیا جاتا ھے تا کہ جمعے کے خطبے میں سابقہ مسجد والوں کے بخیئے ادھیڑے،، ھم نے تین اماموں کو نکالا تینوں شادی شدہ تھے ، رھائش ساتھ تھی مگر پھر بھی اپنی علت سے باز نہیں آئے ،ھمارے نکالنے کے بعد وہ آس پاس کے علاقے میں ھی امام و خطیب ،مقرر ھیں ، اور لوگوں کو سب پتہ ھے ،، معاشرہ جاگے اور اپنے اندر غیرت پیدا کرے ،، اور اس فعل کی قباحت کا ادراک کرے ،، اور اس فعل کے مرتکب کو آئندہ مصلی نصیب نہ ھو ،، تب تو سزا بنتی ھے ،مگر یقین کریں مقتدی سب جانتے بوجھتے ان کے پیچھے نماز پڑھتے رھتے ھیں ،، جرم تب ھی ھوتا ھے جب کوئی بچہ زیادتی کے بعد مار دیا جائے ، ورنہ روٹین میں سب چلتا ھے ،، مقتدی بھی اکثر و بیشتر اسی قباحت کا شکار ھیں اسی وجہ سے ان میں اس فعل کی قباحت ختم ھو کر رہ گئ ھے ،ھم قومِ لوط کی اصل سے بہتر نقل بن چکے ھیں ،،،، اور دین ایک مذاق بن کر رہ گیا ھے !
ھمارے گاؤں کی ایک مسجد کے قاری صاحب جن کی فصاحت و بلاغت کے بڑے چرچے تھے ،، ایک دن اسی فعل میں پکڑے گئے ،، پکڑنے والا بھی ان کے پیچھے نماز پڑھتا رھا وہ سی آئی ڈی کا سابقہ ملازم تھا ،، اگلے دن کی صبح کو ھی وہ بےشرم قاری فجر کی نماز کے بعد درسِ حدیث دینے لگا ،، حدیث کا موضوع تھا کہ امام کے دائیں کھڑے ھو تو کتنی نمازوں کا اجر ملتا ھے اور بائیں کھڑے ھو تو کتنا اجر ملتا ھے ،، قاری صاحب نے ابھی حدیث پوری نہیں کی تھی کہ وھی آدمی جس نے پکڑا تھا ، اس نے لقمہ دیا کہ اگر دائیں بائیں کا اتنا اجر ھے تو قاری جی اس بندے کے اجر کا کیا مقابلہ جو قاری صاحب کے،،،،،،،،،،،، ،، پوری مسجد قہقے مار مار کر لوٹ پوٹ ھو گئ ،مگر قاری کو پھر بھی نہیں نکالا اور نہ قاری کو حیاء آئی کہ تم کس منہ سے اب حدیثیں بیان کرتے ھو اور دین کی بات کرتے ھو تم تو خود سراپا شیطان ھو ،، مسلمانوں کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے کو ڈسکس کرنا ھو گا ، انہیں کرتوتوں کی وجہ سے وہ بچے جو مسجد جاتے ھیں وہ مولوی کا یہ روپ دیکھ کر ملحد ھو جاتے ھیں ،، وہ سدا آٹھ نو سال کے بچے نہیں رھتے ،،یقین کریں ان کا ایمان اسی جگہ کھویا ھے ،، جہاں سے کبھی لوگوں کو ایمان ملا کرتا تھا !