ھمارے ایک دوست ھیں عرض محمد شیخ صاحب ! کراچی پل پر ٹرک جس گاڑی پر الٹا تھا اس گاڑی میں جاں بحق ھونے والے ان کی بیٹی، داماد اور نواسے نواسیاں تھے،، بہت ھی صبر والے بندے دیکھے ھیں مگر میری یادداشت مین اتنا صبر و شکر والا بندہ نہیں گزرا،، باصلاحیت کچھ یوں ھیں کہ چیف انجینئر رھے ھیں،اب ریٹائرڈ ھو کر پاکستان کے ھو گئے ھیں،،اور آج کل وزٹ پہ امارات تشریف لائے ھوئے ھیں ، پیراسائکالوجی ان کا مشغلہ ھے اور انگریزوں کو لیکچر دیتے ھیں ،، عامل اتنے زبردست کہ اپنے مرحوم رئیس امروھوی صاحب کا بڑا مان تھا کہ وہ تو سب کو ھپناٹائز کر لیتے ھیں مگر انہیں کوئی مائی کا لعل ھپناٹائز نہیں کر سکتا،،مگر عرض محمد شیخ نے ان کا یہ مان بھی توڑ کر رکھ دیا،،جب وہ نیند سے جاگے تو کمرے میں چکر کاٹ رھے تھے اور بار بار دھراتے جاتے تھے،، ناممکن،،ناممکن،یہ کیسے ھو گیا،،؟ یہ عرض محمد شیخ صاحب کہیں سے قاری حنیف کا سن کر اپنے ساتھیوں سمیت قاری حنیف کا شکار کرنے نکلے اور میری مسجد میں جمعہ پڑھنے آئے،،کمرے میں ملاقات ھوئی اور عرض محمد قاری حنیف بن گیا اور قاری حنیف عرض محمد شیخ،،یک قالب دو جان،، یا یک جان اور دو قالب،،اتنا مخلص اتنا عملی انسان کہ بس اللہ نظرِ بد سے بچائے،، ! یہ عرض محمد شیخ دعا کے الفاظ سے زیادہ دعا کی کیفیت پر زور دیتا ھے،،وہ کہتا ھے،،جو گونگے کی سن لیتا ھے ،، وہ بغیر الفاظ تیری بھی سنے گا،، الفاظ اللہ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں،، بس تو کیفیت بنا،، بعض دفعہ وہ کیفیت بنانے میں گھنٹہ لگا دیتا ھے اور جب کیفیت بنتی ھے تو ھاتھ منہ پر پھیر کر کھڑا ھو جاتا ھے،،وہ جب تک خود کو عرش کے سامنے کھڑا نہ کر لے ھاتھ نہیں اٹھاتا،، اور جب اٹھا لیتا ھے تو بس پھر منوا بھی لیتا ھے ! عرض محمد شیخ کا میٹرک کا ریزلٹ آیا تو مارکس والد صاحب کی توقع کے مطابق نہیں تھے،،وہ روایتی ابا جی کی طرح راشن پانی لے کر چڑھ گئے،، اور عرض محمد جیسا حساس بچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ھو گیا،، مسجد اور مسجد والے سے لگاؤ تو اسے بچپن سے تھا،،وہ سیدھا مسجد چلا گیا اور کیفیت بنانے مین لگ گیا،،جب مراقبہ مکمل ھوا اور عرض محمد عرش کے سامنے پہنچ گیا تو ھاتھ اٹھا دیئے،،میرے اللہ تو مجھے اپنے پاس بلا لے،،میں یہاں سے تنگ آ گیا ھوں، میں ان لوگوں کے قابل نہیں ھوں،، مجھے تو خود سے بلا لے ورنہ یہ لوگ مجھے حرام موت مار دیں گے،،منظوری ھو گئ ،،اس سے پہلے کہ عرض محمد شیخ اپلیکیشن کلوز کرتا اور چہرے پر ھاتھ پھیرتا کہ اچانک کسی کا ھاتھ اس کے ھاتھوں سے ٹکرایا، ایک بابے نے یہ دیکھ کر کہ بچہ خشوع و خضوع سے دعا مانگ رھا ھے میں بھی اپنا حصہ وصول کر لوں،، اس بابے نے شیخ صاحب کے جڑے ھوئے ھاتھوں میں سے وضو کے پانی کی طرح دعا کا چلو بھرا اور اسے اپنے چہرے اور سینے پر ملتا اور زور زور سے آمین آمین کہتا مسجد کے اندر چلا گیا،، عرض محمد شیخ حیران پریشان اٹھ کر گھر آ گیا،،اگلی عصر کی اذان سے پہلے اس بابے کے انتقال کا اعلان اسی مسجد سے ھو رھا تھا،، عرض محمد کی مانگی موت کوئی اور لے گیا تھا،،ھر کسی کی دعا پہ آمین نہیں کہنی چاھئے،،پتہ نہیں وہ کیا مانگ رھا ھے،،اپنی دعا خود مانگیں،، اور نہ کسی اور کو اپنے بارے میں کوئی دعا مانگنے دیں،، ھمارے پڑوس میں ایک صاحب تھے،جن کے بچے بھی جوان تھے مگر بیوی کو بلا ناغہ مارتے تھے،، افغانی تھے،، ایک دن ان کی گھر والی نیلی پیلی ھو کر آئی اور میری والدہ اور بھابھیوں وغیرہ کو پہلے تو اپنا حشر دکھایا،،اس کے بعد زخمی ھاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر بڑے خشوع سے دعا مانگی ” یا اللہ ساری دنیا کا خاوند مر ھو جائے ” میری والدہ اور بھابھیوں کی چیخ نکل گئ، اور انہوں نے اسے ڈانٹا کہ تم اپنے خاوند کے بارے مین مانگو جو مانگنا ھے، ھمارے خاوند تم نے ساتھ کیوں شامل کر لیئے ھیں ! اس بے چاری کو تعجب اس بات پر تھا کہ کسی کا خاوند اچھا بھی ھوتا ھے !