مگر خدا کے لئے اب ان کو کھول بھی لو کنوئیں میں گر کر ھی کھولنی ھیں
بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ھیں کہ ازواج النبی رضوان اللہ علیھن اجمعین کیوں اپنی ذاتی زندگی سے پردہ اٹھاتی ھیں ،کیوں ایسی ایسی باتیں بتاتی ھیں کہ جو ماں اپنے بیٹے کو بھی نہیں بتاتی ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، آج بھی اگر آپ کو اس کا جواب نہیں ملا تو پھر کسی نے آپ کی آنکھوں پہ ٹانگے کے گھوڑے والے کھوپے چڑھا رکھے ھیں ،،،،،،،،،،،،،
امھات المومنینؓ کا حجرے اور کمبل کے اندر کی زندگی کا افشاء دو باتیں واضح کرتا ھے !
1- کہ میاں بیوی کی مباشرت کی حدود کیا ھیں ،، تا کہ بعد میں کوئی کسی ایسی چیز کو اس تعلق میں شامل نہ کر لے جو شریعت کا حصہ نہ ھو یوں ایک فریق دوسرے کمزور فریق پر ظلم نہ ڈھا دے ،، جب نکاح ھوتا ھے تو لڑکی اور لڑکے سمیت ان دونوں کے والدین ،نکاح خوان ، اور گوھان سب کے ذھن میں ھوتا ھے کہ اس عقد یا اگریمنٹ کا مقصد کیا ھے اور اس کی حدود و قیود کیا ھیں ،، کوئی اس میں اپنی پسند و ناپسند کو شامل کر کے لڑکی پر ظلم نہیں کر سکتا کہ وہ بیاھی تو بطور لڑکی گئ ھے مگر دولہا میاں اپنے مزاج کے مطابق اس کو لڑکا سمجھ رھا ھے ،،
2- اگر کمبل کے اندر کی زندگی کو بھی بیان کرنا ضروری سمجھا گیا ھے کیونکہ وہ دین و شریعت کا حصہ ھے تو پھر نبی ﷺ پر یہ بھتان نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ دین کا کوئی خاص حصہ چھپا کر کسی کو دے کر گئے ھیں ،، اگر چھپانا ھوتا تو کمبل کے اندر کے معاملات کو چھپایا جاتا کیونکہ خود حضورﷺ نے میاں بیوی کے تعلق کو عام کرنے کی ممانعت کی ھے ،مگر یہ ممانعت عام لوگوں کے لئے جن کا عمل دین و شریعت کی نص اور ریفرنس بنتا ھے وہ اس ممانعت میں شامل نہیں ھیں یعنی نبی ﷺ کا گھرانہ ،،،،،،،،،،،،،،،،
سوال یہ پیدا ھوا کہ اگر ازدواجی وظیفہ ادھورا رہ جائے تو کیا غسل واجب ھے ؟ بعض صحابہؓ کے نزدیک غسل واجب نہیں تھا کیونکہ سوار اپنی منزل سے پہلے اتر گیا ھے ،، اور اس کا ثبوت وہ دوسری حدیث سے لیتے تھے کہ ” الماء بالماء ” یعنی پانی تو پانی سے ھی واجب ھوتا ھے ،،
یہ پانی والی حدیث ” الماء بالماء ” ھے ھی کسی دوسرے موضوع اور مسئلے پر ،،، آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی خواب دیکھتا ھے مگر جب جاگتا ھے تو پانی نہیں دیکھتا ، کپڑے گیلے نہیں دیکھتا ،، تو کیا وہ غسل کرے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” پانی تو پانی سے ھی واجب ھوتا ھے یعنی اگر کپڑے گیلے ھیں تو غسل واجب ھے ورنہ وہ بس خواب ھی تھا ، دوسرا آدمی ھے کہ جس کو خواب تو یاد نہیں مگر کپڑے گیلے ھیں ،، اسے غسل کرنا پڑے گا بیشک خواب یاد نہ ھو ،پانی نے پانی کو واجب کر دیا ھے ،،،،،،،،،
مگر ازدواجی عمل کے ادھورے رہ جانے یا چھوڑ دینے پر کیا میاں بیوی پہ غسل واجب ھے ؟ یہ مسئلہ احتلام سے یکسر مختلف ھے کیونکہ یہاں سب کچھ ھوش و حواس اور ارادے سے ھو رھا ھے ،،، اس اختلاف کو حل کرنے کے لئے ازواج النبی ﷺ سے رابطہ کرنے کا فیصلہ ھوا کہ ان سے پوچھا جائے کہ ” کیا خود نبی کریم ﷺ اور امھات المومنینؓ بھی اس تجربے سے کبھی گزرے ھیں ؟؟ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے سوال کرنے والوں سے کہا کہ شاید ام المومنین ام سلمہؓ کے پاس تمہارے سوال کا جواب ھو ان سے دریافت کرو ،، جب ام سلمہؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ایسا ھوا ھے کہ نبئ کریم ﷺ انزال سے پہلے الگ ھو گئے اور خود بھی غسل کیا اور مجھے بھی غسل کا حکم دیا ،،یوں اذا بلغ الختان الختان وجب الغسل ،،( شرمگاہ سے شرمگاہ مل جائے تو غسل واجب ھو جاتا ھے ،، کا اصول سامنے آیا ،،
ان واقعات کو لکھنے کا مطلب ان لوگوں پر جو یہ کہتے ھیں کہ شریعت نے مباشرت کو مرد و زن کے ذوق پر چھوڑ دیا ھے یہ واضح کرنا ھے کہ مباشرت کت قواعد و ضوابط قرآن و حدیث میں بیان کر دیئے گئے ھیں اور ان میں وہ شامل نہیں ھے جس کا تم ذوق رکھتے ھو ، اپنے ذوق کو دین و شریعت کی حدود میں لاؤ کیونکہ اسی صیغے کے ساتھ یہ عورت تم کو سونپی گئ تھی ” شریعت کے حکم کے ساتھ قبول کیا ” نکاح پڑھانے والا صاف صاف کہتا ھے کہ کیا تم نے فلاں بنت فلان کو اتنے حق مہر کے عوض نال حکم شریعت دے قبول کیتا ؟ اور دولہا کہتا ھے کہ نال حکم شریعت دے قبول کیتا ،، شریعت کے حکم کی شرط لازم ھے ،،