ایمان اور بابا زمان

 
ایمان کائنات کی سب سے قیمتی نعمت ھے ،جو صرف اور صرف طلب پر عطا کی جاتی ھے ،کسی کی سفارش پر نہیں دی جاتی – اگر ایمان سفارش پر نصیب ھوتا تو کسی بھی رسول کے رشتے دار اس نعمت سے محروم نہ رھتے ،حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی اور بیٹا، حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی ، حضرت ابراھیم علیہ السلام کے والد ، اور نبئ کریم ﷺ کے تائے اور چاچے ،،
انسان کی فطرت ھے کہ وہ جس چیز کو قیمتی سمجھتا ھے اسی کی سب سے بڑھ کر حفاظت کرتا ھے – ھم پردیسی جب پاکستان جاتے ھیں تو سب کچھ گھر والوں کو سونپ دیتے ھیں مگر پاسپورٹ کو سنبھال سنبھال کر رکھتے اور گاھے نکال نکال کر چیک کرتے رھتے ھیں ، ائیرپورٹ اور ٹیکسی میں بھی بار بار ہاتھ لگا کر یا نکال کر چیک کرتے رھتے ھیں کہ اپنے پاس ھی ھے –
جب غربت یا کسی مجبوری کی وجہ سے کوئی چیز بیچنے پر مجبور ھو جائے تو سب سے قیمتی اور دل کو محبوب چیز سب سے آخر میں بیچتا ھے ، کوشش کرتا رھتا ھے کہ اس کو بیچے بغیر کام چل جائے ،اور آخری حربے کے طور پر اس کو گروی رکھ کر کام چلا لیتا ھے تا کہ بیچنے سے بچ جائے – اگر ھم مسلمانوں کو ایمان کی قدر ھو تو یقین جانیں معاشرے میں جو بے ایمانی کا دور دورہ ھے یہ دور دور تک دیکھنے کو نہ ملے – اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ھے کہ لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ،، جو امانت دار نہیں اس کا ایمان نہیں ، اور یہ رشتے ناتے اور عہدے ذمہ داریاں ، یہ ارادہ اور یہ اختیار اور جو کچھ اللہ کی طرف سے ھمیں ملا ھے سب کچھ امانت ھے ،، اس میں ذرہ سی ڈنڈی بھی ھمیں بے ایمان بنا دیتی ھے مگر ھمارا وضو بھی نہیں ٹوٹتا اور ھم اسی وضو میں نماز پڑھ لیتے ھیں جس میں رشوت لی تھی – اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ ۔ لا دین لمن لا عہد لہ ،، اس کا کوئی دین نہیں وہ عہد کا پابند نہیں ، کیونکہ دین اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے عہد و پیمان کا نام ھے کہ میں ان دونوں کی اطاعت کرونگا ،،
آج مسلمان سب سے پہلے ایمان بیچتا ھے کیونکہ اس کو اس کی اھمیت کا اندازہ نہیں ، گویا ایمان ہتھیلی پر لئے پھرتا ھے جس طرح سردیوں میں بچے بالٹی میں گرم آنڈے لئے پھرتے ھیں بیچنے کو اور گرمیوں میں مکئ کے بھٹے بیچتے پھرتے ھیں بسوں کے گرد چکر لگا کر- یہی بات شاہ ولی اللہ دہولی فرماتے ھیں کہ مومن جب تک اپنے ایمان کی قدر نہیں پہچانے گا تب تک اس کی حفاظت کی فکر نہیں کرے گا کیونکہ یہ انسانی فطرت ھے کہ وہ اھم چیز کئ حفاظت کی طرف مائل ھوتا ھے- انسان کی جیب میں پیسے ھوں تو وہ تھوڑی تھوڑی دیرکے بعد جیب کو ھاتھ لگا کر اس کے ابھار کو چیک کرتا رھتا ھے اور پیسوں کی موجودگی سے سکون پاتا ھے ، اور جیب کترا بھی اس کی اس حرکت سے جان لیتا ھے کہ میرا مطلوب کس جگہ ھے – اسی طرح جب انسان ایمان کو چیک کرتا رھتا ھے تو شیطان بھی اس کے پیچھے لگ جاتا ھے اور ھر چیز کو مرغوب کر کے دکھاتا رھتا ھے کہ اس کے عوض بیچ دے ،، یہانتک کہ سانس نکلنے سے پہلے انسان کسی رشتے کی محبت میں وراثت میں ڈنڈی مار کر جھنم میں چلا جاتا ھے – اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ھے کہ ایک شخص ساری زندگی اھل جنت کے کام کرتا ھے اور مرتے وقت وراثت میں ڈنڈی مار کر جھنم میں چلا جاتا ھے- نیز فرمایا کہ کوئی مومن حالت ایمان میں زنا نہیں کرتا ، اور کوئی مومن حالت ایمان میں چوری نہیں کرتا ، اور کوئی مومن حالت ایمان میں شراب نہیں پیتا ، ایمان نکلتا ھے تو شراب اندر جاتی ھے ، ایمان نکلتا ھے تو چوری کا پیسہ جیب میں جاتا ھے –
ھمارے ایک عزیز تھے بہت عمر رسیدہ تھے ، وہ ھر وقت ہاتھ میں بٹیررکھتے تھے ان کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں گولائی میں مڑ گئ تھیں جن میں صرف بٹیر جتنا سوراخ تھا ،وہ رات کو بھی بٹیر ھاتھ میں لئے رھتے اور اکثر دوپہر کو بھی جب ھم ان کے شہتوت کے نیچے سونے جاتے تو وہ دونوں بٹیر پکڑے سو رھے ھوتے- سردیوں کی جھڑی لگی ھوئی تھی ، ھوٹل سے دونوں بٹیروں سمیت واپس آ رھے تھے کہ پھسل کر گر پڑے ، اگر وہ چاھتے تو ہاتھ ٹیک کر بچت ھو سکتی تھی مگر اس میں خدشہ یہ تھا کہ بٹیر مارے جاتے یا زخمی ھو جاتے ، انہوں نے ہاتھ ٹیکنے کی بجائے بندھے بندھائے گرنے کو ترجیح دی اور ہاتھ کی بجائے Hip کے بل گرے ،، ان کا چونکلا ٹوٹ گیا ، عمر زیادہ ھونے کی وجہ سے وہ جڑ نہ سکا اور اسی میں ان کا انتقال اس ادا سے ھوا کہ رات کو سوتے میں مر گئے اور دونوں بٹیر ان کے ہاتھ میں ھی رھے اور روح پرواز کر گئ – کاش ایمان ہمیں بابا زمان کے بٹیر جتنا بھی عزیز ھوتا تو ،،،