میں گاڑی کے لائسنس کی تعلیم کر رھا تھا،، تعلیم میرے دوست ظہیرالدین بابر دے رھے تھے جن کے نام کے ساتھ بابر کا اضافہ مین نے کر رکھا ھے ،، تبلیغی جماعت کے سرگرم رکن ھیں،،میں نے اور والدہ سمیت گھر والوں نے ان کے ساتھ ان کی بس میں حج کیا تھا،، 1986 سے میرے دوست ھیں ! تعلیم کے دوران وہ بتاتے تھے کہ اگر ٹرن کرتے وقت آپ نے وائٹ لائن کو ٹچ کیا تو گویا آپ نے ایک بندہ مار دیا،، جب بھی میں تعلیم کا گھنٹہ پورا کر کے گاڑی سے نیچے میں اترتا تو وہ مجھے بڑے آرام کے ساتھ بتاتے تھے کہ ” قاری صاحب آج آپ نے 10 بندہ مارا ” اس حساب سے بندے مارنے کا ریکارڈ رکھا جائے تو میں اور بش دونوں برابر کے ھیرو ھیں ! گاڑی میں بیٹھتے ھی وہ مسائل کی لسٹ نکالتے اور ایک گھنٹہ تعلیم کے دوران زیادہ تر اپنے مسئلے ھی ڈسکس کرتے رھتے،، مجھے بڑی تپ چڑھتی کہ گھنٹے کے 35 درھم تو میں دیتا ھوں ،جبکہ یہ میری تعلیم کی بجائے اپنی تعلیم پر توجہ زیادہ دیتے ھیں،، مگر مروت کے باعث کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا،، ایک دن کہنے لگے کہ آپ دونوں ھاتھ اسٹیئرنگ وھیل پر رکھا کرو،، میں نے ایک گاڑی والے کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ خان صاحب،، اس نے تو ایک ھاتھ رکھا ھوا ھے ! میری طرف دیکھ کر انہوں نے الفاظ کو خوب چبا کر فرمایا ” قاری صاحب،،،،،،، اوس کے پـــــــــــــــــــــــــــاس لائسنۜس ھے،، جب تم کو بھی مل جائے گا تو دونوں ٹانگیں ڈیش بورڈ پہ رکھ کر چلا لینا ،زیادہ سے زیادہ 200 کا چالان ھو جائے گا،،مگر ابھی قانون سے ڈرو ،،ورنہ لائسنس نہیں ملے گا ! میں نے کہا یہی نفسیات مسلمانوں کی ھے کہ ،جب مسلمان بن جاؤ تو پھر بے شک پاؤں ڈیش بورڈ پہ رکھ کے معاشرے کو چلاؤ،، زیادہ سے زیادہ جہنم کا دو چار دن کا سیاحتی پھیرہ لگوایا جائے گا جس میں آپ کی ملاقات سیلیبرٹیز کے ساتھ کروائی جائے گی ،، اور یوں لتا جی ، مکیش ، آشا بھوسلے، کشور کمار ، مائیکل جیکسن، لیڈی ڈیانا وغیرہ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے گا اور واپس آپ کو جنت میں ڈراپ کر دیا جائے گا،، ھر برائی اسی نفسیات کے تحت بہت ایزی سمجھ کر کر لی جاتی ھے،، کہ ھمارے پاس لائسنس ھے،، ایک بار ٹرن لیتے ھوئے مجھے کہا کہ آپ نے فاسٹ ٹریک سے فاسٹ ٹریک میں جانا ھے، میں نے درمیان والا ٹریک لے لیا،، بہت غصہ کیا ،، میں نے گزارش کی کہ حضرت اگلی گاڑی والا جب ادھر گیا تو میں نے سمجھا اس کا تجربہ مجھ سے زیادہ ھے تو میں بھی اس کے پیچھے نکل گیا،، کہنے لگے، قاری صاحب آپ کو سو دفعہ سمھجایا ھے کہ لائسنس والے اور بغیر لائسنس والے کے ساتھ قانون کا رویہ الگ الگ ھے ،، آپ بلیک پؤئنٹ لو گے تو فائل بلاک کر دی جائے گی ،،اس کو کوئی کچھ نہیں کہے گا،صرف لائسنس چیک کر کے چھوڑ دے گا،،، تو بھائیو ،، ھم بھی حشر میں لائسنس چیک کرانے حاضر ھوں گے، اپنے اپنے لائسنس نکال کر سامنے رکھ لیں
–
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب احیاء العلوم الدین میں توبہ کے بیان میں لکھا ھے کہ سب سے پہلے توبہ موروثی ایمان پر کرنی چاھئے،، موروثی ایمان ٹرانزٹ مدت کے لئے ھوتا ھے،،محدود مدت کی ایمانی انشورنس ھوتی ھے ،کہ اگر بلوغ تک پہنچنے سے پہلے بچا مر جائے تو مسلمان تصور کیا جائے،، بالغ ھوتے ھی اس پر خود سوچ سمجھ کر رب تک پہنچنا اور اپنی اس سوچ کی بنیاد پر دل کی گہرائیوں سے شہادت دینا واجب ھے،، اس کے لئے اللہ کی کتاب کا مطالعہ واجب ھے،، لیکن ماں باپ والا ایمان اس کے بالغ ھوتے ھی ایکسپائر ھو جاتا ھے، بالغ ھوتے ھی پڑھی ھوئی نماز بھی کالعدم ھو جاتی ھے اور اسے جس نماز کے وقت میں وہ بالغ ھوا تھا وہ دوبارہ پڑھنی پڑے گی،، امام یوسف نے جبکہ وہ بچے تھے اور شاگرد تھے امام ابوحنیفہ کے،،تو ان سے مجمعے مین سوال کیا کہ جناب اگر ایک آدمی عشاء کی نماز پڑھ کر سو گیا ھے اور اسے احتلام ھو گیا ھے تو وہ کیا کرے؟ آپ نے فرمایا وہ غسل کر کے عشاء کی نماز دوبارہ پڑھے،، اس پر مجمع چونک گیا،،کہ احتلام کے ساتھ پڑھی گئ نماز کیسے فاسد ھوگئ؟؟ امام ابوحنیفہ نے فرمایا یہ آپ لوگوں کا نہیں اس بچے کا مسئلہ ھے،،یہ بالغ ھو گیا ھے،،لہذا اس کی بلوغت سے پہلے پڑھی گئی نماز نفل تھی جو بالغ ھوتے ھی اس پر فرض ھو گئ اور نماز کا وقت بھی باقی ھے اور نفل فرض کو کفایت نہیں کرتا لہذا اسے وہ نماز دوبارہ پڑھنی پڑے گی،، اسی طرح بالغ ھوتے ھی نفلی ایمان بھی اپنی مدت پوری کر چکا اب سوچ سمجھ کر دل کی گواھی کے ساتھ زبان کی گواھی اور اللہ کی الوھیت اور محمدﷺ کی رسالت کا اقرار علی وجہ البصیرت ضروری ھے ،، اپنی عمر کے اس grace period میں بچہ مرفوع القلم اسی لئے ھے،، اس پر گناہ کا اطلاق اسی لئے نہیں ھوتا کہ وہ اپنے تمام تر اشکالات کا جواب ان تیرہ چودہ سالوں میں اپنے والدین یا علماء سے پا لے،،ڈرے بغیر جو چاھے پوچھے اس پر نہ تو گناہ کا اطلاق ھو گا نہ کفر کا اطلاق ھو گا،، تا کہ جب وہ بلوغت کی عمر کو پہنچے تو اب وہ سوال کی بجائے اپنی منزل پا چکا ھو،،مگر والدین اس طرف توجہ نہیں دیتے اور بچے اشکالات پوچھتے ھوئے ڈرتے ھیں اگر وہ اللہ کے وجود پر دلائل مانگتے ھیں تو یہ ان کا حق بنتا ھے اور علماء اور والدین کا فرض بنتا ھے کہ وہ انہیں وہ سارے دلائل فراھم کریں جو ان کے علم میں ھیں تا کہ بچہ ایک باشعور مومن بنے کہ والد صاحب سے ادھار لے کر ایمان کی گاڑی میں پیٹرول ڈالتا رھے اور ساری زندگی ایمان کی لوڈ شیڈنگ کا شکار رھے ! یہ ملحدین جو سوال آج اٹھا رھے ھیں،،یہ ان کو اس گریس پیریڈ مین کر لینے چاھئیں تھے ! لائسنس کی بات چلی تو یہ بات سب کو معلوم ھے کہ لائسنس ضبط و حبط کرنا ،متعلقہ اتھارٹی کا حق ھوتا ھے،، اللہ کے یہاں بھی ایمان و اعمال کا معاملہ کچھ ایسا ھی ھے،،لائسنس سال کا بھی ھوتا ھے،، پانچ سال کا بھی ھوتا ھے اور 10 سال کا بھی،،مگر اسلام میں لائسنس نماز سے نماز تک ری نیو ھوتا ھے یا اس کی تجدید ھوتی ھے،اگر صبح پڑھی ھے تو مسلم ھے،، ظہر نہیں پڑھی تو ظہر کے وقت کے ساتھ ھی ایمان بھی ختم ،، العہد بیننا و بینھم الصلوۃ ،، من ترکھا فقد کفر،، ھمارے اور کافروں کے درمیان ( مومن اور کافر کے درمیان) فرق ( یا معاہدہ) نماز کا ھے،،جس نے اسے ترک کر دیا اس نے کفر کر دیا،، صحابہؓ کے نزدیک نماز کے سوا کوئی ایسا عمل نہیں جس کے ترک پر کفر کا فتوی نبیﷺ نے لگایا ھو،، میرے لئے جہنم کی دھمکی سے بڑی دھمکی یہ ھے کہ نبیﷺ یہ فرما دیں کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ھے،، وہ میری امت میں سے نہیں ھے،،وہ مجھ سے نہیں ھے،، وہ ھم میں سے نہیں ھے،، اس کا مطلب ھی یہ ھوا کہ نبیﷺ نے اس سے قطع تعلق کر دیا ھے،، اور چونکہ قیامت کے دن لوگ اپنے اپنے امام کے ساتھ پیش ھوں گے،یعنی جس کو فالو کیا ھوا ھو گا،، یوم ندعوا کل اناسٍ بامامھم،، جس دن ھم تمام لوگوں کو ان کے پیشوا سمیت بلائیں گے،، تو جب وہ نبیﷺ کے ساتھ پیش نہیں ھونگے تو ظاھر ھے پھر وہ فرعون و نمرود کے ساتھ اٹھیں گے،،یہی مطلب ھے نبی کریمﷺ کی حدیث کا کہ بے نمازی فرعون اور نمرود کے ساتھ محشور ھوں گے،، اس کے علاوہ آپ نے فرمایا من غشنا فلیس منا،،جس نے ملاوٹ کی یا ھمیں دھوکہ دیا وہ ھم میں سے نہیں ھے،یعنی امتِ محمدﷺ میں سے نہیں،، اس کے علاوہ فرمایا،، النکاح من سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی،، نکاح میری سنت ھے جس نے میری سنت کو ناپسند کیا وہ مجھ سے نہیں،، اس کے ساتھ فرمایا، وہ ھم میں سے نہیں جو بڑے کی تعظیم نہ کرے،چھوٹے پر شفقت نہ کرے اور عالم کا حق نہ پہچانے ،، ایمان کی نفی یا ایمان ضبط ھو جانے والے اعمال کو بھی آپﷺ نے بہت زوردار طریقے سے بیان فرمایا،، تین بار اللہ کی قسم کھا کر فرمایا،واللہ لایومن،،واللہ لا یؤمن ،، واللہ لا یومن،، قیل من یا رسول اللہﷺ ؟ قال الذی لا یأمن جارہ بوائقہ،، متفق علیہ روایت میں آپ نے اللہ کی قسم تین بار کھا کر فرمایا،جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہیں ،،وہ مومن نہیں،، آپﷺ نے فرمایا،، لیس بمؤمنٍ من شبع و جارہ جائع،، وہ مومن نہیں جس نے پیٹ بھر کر کھا لیا اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ گیا ! صرف ان چند اعمال کو ھی اگر پیمانہ بنا لیا جائے تو لگتا ھے،سارے مسلمان بغیر کاغذوں کے ھی پھر رھے ھیں،،یہ الگ بات ھے کہ کاغذ قبر میں پہلی چوکی پر ھی چیک کر لیے جائیں گے،، کفن پہ لکھی آیت الکرسی کسی نے نہیں دیکھنی نہ سنگِ مرمر پر لکھا شعر دیکھنا ھے ! آسماں لحد پہ تیری شبنم افشانی کرے