آپ تمام حضرات نے کوئی فلم تو دیکھی ھو گی ؟ چلیں علماء کے ڈر سے جملہ کچھ یوں کر دیتے ھیں کہ آپ میں سے اکثر لوگوں نے فلم ضرور دیکھی ھو گی،، اس میں جو ھم سب کا مشترکہ دشمن ” ولن ” نام کا جو کردار ھوتا ھے ،اس کی شکل پر کتنی لعنت محسوس ھوتی ھے؟ مگر وھی شخص جب اگلی فلم میں اچھے رول میں آتا ھے تو اس کے چہرے پر کتنا نور نظر آتا ھے؟ یہ لعنت اور نور ،خود انسان کے اپنے اندر ھوتا ھے اور انسان کی فوٹو شاپ اتنی ایڈوانس ھے کہ قیامت تک انسان ایسی کوئک اور ایکوریٹ فوٹو شاپ نہیں بنا سکتا،کیونکہ اللہ احسن الخالقین ھے،، تو جناب جس سے ھم پیار کرتے ھیں نور خود اس کے چہرے پر ڈال لیتے ھیں اور جس سے نفرت کرتے ھیں ،لعنت بھی اپنے سٹور میں بے حساب ھے اور بے حساب ھی ڈال لیتے ھیں،، ھم اپنے پسندیدہ اور ناپسندیدہ عالم کے ساتھ بھی یہی نور اور لعنت کا کھیل کھیلتے ھیں،، کچھ لوگوں کو گمراھی کی بیماری ھوتی ھے،یہ ایک نفسیاتی بیماری ھے، درزی جب کسی سے ملتا ھے تو اس کی نظر فوراً اس کے گلے ،کالر، جیب اور کف کی طرف اٹھتی ھے کہ کیسے بنے ھیں،، انجینئر جب کسی مسجد میں گھستا ھے تو اس کی نطر مولوی صاحب کی بجائے، ستونوں ، کھڑکیوں اور چھت کو دیکھتی ھے،، عورت ماتم پر بھی جائے تو عورتوں کے کپڑے اور زیور ھی نوٹ کرتی ھے،،گمراہ جب بھی کوئی کتاب پڑھتا ھے تو اس میں گمراھی ھی ڈھونڈتا ھے، اور اگر کوئی چیز مل جائے تو فوراً نعرہ بلند کرتا ھے،، صفحہ نمبر 153 پر مابین السطور گمراھی لیٹی ھوئی تھی اور میں نے موقعے پر رنگے ھاتھوں پکڑ لی،، سوال یہ ھے کہ اس سے پہلے جو 152 صفحے ھدایت تھی وہ آپ کو نہ نظر آئی اور نہ آپ نے اس کو مانا،، آپ کا صرف صفحہ نمبر 152 پر گمراھی کا ذکر کرنا ھی بتاتا ھے کہ پیچھے سب ٹھیک تھا،، ٹیچر جب دس جملوں میں سے ایک جملے کو سرخ پین سے کراس لگاتا ھے تو اس کا مطلب یہی ھوتا ھے کہ باقی 9 ٹھیک ھیں،، ایسے افراد جب کسی انسان کو بھی ملتے ھیں تو گفتگو سے زیادہ دھیان اس بندے کی وضع قطع پر دیتے ھیں تا کہ اس کی گمراھی کا کوئی ثبوت پا سکیں ! کاش آپ ھدایت کی تلاش میں اس کتاب کو پڑھتے تو اللہ پاک اپنے وعدے کے مطابق آپ کا ھاتھ پکڑتے” والذین جاھدوا فینا لنھدینَۜھم سُبُلَنا ” ان کا حال ان کفار کا سا ھے جو کہتے تھے اللھم ان کان ھذا ھو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء اوئتنا بعذابٍ الیم( الانفال) ائے اللہ اگر یہ نبی سچا ھے تو ھمارے اوپر آسمان سے پتھر برسا یا ھمیں دردناک عذاب دے دے،، حالانکہ کہنا یہ چاھیئے تھا کہ اے اللہ اگر یہ نبی سچا ھے تو ھمیں ھدایت دے،،مگر وہ تھے ھی گمراھی کے متلاشی ! یہ مابین السطور بھی بہت خطرناک جگہ ھے،، یہاں کافر دفنا کر مسلمان نکال سکتے ھو اور مسلمان کو دفناؤ تو کافر بنا کر نکال لو،، روایت ھے کہ جن دنوں مولانا ابوالاعلی سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف فتوؤں کی مہم چل رھی تھی، کسی مصیبت کے مارے شخص نے مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب تصفیۃ العقائد میں سے ایک اقتباس پر دیوبند سے فتوی طلب کیا،، مفتی صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ – اسے مولانا مودودی کی تحریر سمجھ کر مابین السطور سے ایک کافر مودودی نکال لیا ،،اور فتوی دے دیا کہ اس تحریر کے مابین السطور سے کفر چھلکا پڑ رھا ھے ،، فتوی چھپ گیا تو مستفتی نے خط لکھا کہ حضرت یہ تو اپنے مولانا قاسم نانوتوی صاحب کی تحریر ھے، میں نے تو وضاحت طلب کی تھی ! اب مفتی پر جو جان کنی کا عالم طاری ھوا ھو گا وھی جانتے ھونگے ، سو انہوں نے اسی ما بین السطور کی سمادھی سے کہ جہاں سید مودودی کا کریا کرم کیا تھا،، ایک مسلمان قاسم نانوتوی نکال دکھایا ! صفحہ نمبر 150 تا 153 جو گمراھی پکڑی گئی ھے وہ بھی "ما بین السطور "وہ یہ ھے کہ ” مطعون ” عالم بائبل کے حوالے دیتا ھے جس سے ثابت ھوتا ھے کہ وہ قرآن کی نسبت بائبل پر زیادہ اعتماد کرتا ھے ! کاش یہ لوگ عالم ھونے کے ساتھ خدا خوف بھی ھوتے،،یہ تو سمجھتے ھیں کہ اللہ بھی ان کے مسلک سے تعلق رکھتا ھے اور حشر کے فیصلے مسلک کی بنیاد پر ھوں گے اور ان کے حق میں ھوں گے ! کیا یہ لوگ قرآن نہیں پڑھتے، یا پڑھتے ھیں مگر یہود کی طرح اپنے خلاف بات پر انگلی رکھ لیتے ھیں،، کیا قرآن حکیم میں اللہ پاک نے جگہ جگہ تورات اور انجیل سے نبیﷺ کی صداقت پر استدلال نہیں کیا؟ سورہ الفتح کے آخر میں نبیﷺ اور صحابہؓ کی صداقت اور عظمت پر تورات اور انجیل سے استدلال نہیں کیا ؟ جس کو مولوی لہک لہک کر منبر پر پڑھتے ھیں مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں جاتا” ذلک مثلھم فی التوراۃ،، و مثلھم فی الانجیل ” الفتح 29 اللہ پاک نے فرمایا ھے،، وانہ لفی زبر الاولین،، او لم یکن لھم آیۃً ان یعلمہ علمآء بنی اسرائیل( الشعراء 196-197 ) اور اس نبی ﷺ کا ذکر پہلی کتابوں میں بھی ھے اور کیا یہ ان کے لئے نشانی نہیں ھے کہ ان کو بنی اسرائیل کے علماء بھی پہچانتے ھیں ؟ پھر یہ جو آیت ھم آج کل اپنے علماء کے بارے میں کوٹ کرتے ھیں یہ قرآن میں اصلاً یہود کے علماء کے بارے میں نازل ھوئی ھے ” فاسئلوا اھل الذکر ،ان کنتم لا تعلمون،(،الانبیاء 7 ) اور النحل 143 )اگر تمہیں معلوم نہیں ھے تو اھل کتاب سے پوچھ لو،،یہاں ذکر والے کتاب والے ھیں،، ایک جگہ فرمایا ائے نبی اگر آپ کو شک ھے اس میں جو آپ پر نازل کیا گیا ھے تو پوچھیں ان سے جو آپ سے پہلے کتاب پڑھ رھے ھیں،فان کنت فی شکٍ مما انزلنا الیک فسئل الذین یقرءون الکتاب من قبلک( یونس 94 )سورہ الاحقاف آیت نمبر 10 میں فرمایا،، قل اَرئیتم ان کان من عند اللہ و کفرتم بہ و شہد شاھدٓ من بنی اسرائیل علی مثلہ فآمن واستکبرتم– کہہ دیجئے تم دیکھتے نہیں ( غور نہیں ک
رتے ) کہ اگر یہ کتاب اللہ کی طرف سے ھوئ اور تم نے اس کا انکار کر دیا جبکہ بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ اس جیسی پر ایمان لے آیا اور تم نے تکبر کی روش اختیار کی،،یہاں ابوبکر صدیق کے ایمان سے استدلال کی بجائے انہی یہود میں سے ایک ایمان لانے والے سے دلیل لائی جا رھی ھے،، کوئی بندہ بھی جب بائبل سے دلیل دیتا ھے تو اس کا مقصد یہ ھوتا ھے کہ ھم یہ بات اپنے مذھب کے فطری تعصب کی بنیاد پر نہیں کہہ رھے بلکہ تمہاری اپنی کتاب یہی کہہ رھی ھے،، یہی طریقہ ایک معلم و مناظر کا ھوتا ھے،، یہی طریقہ ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی استعمال فرماتے ھیں اور یہی فتوی ان پر بھی لگایا جاتا ھے !
اللھم اھدنا فیمن ھدیت