جب دین سے وابستہ کوئی شخص کسی برائی کا ارتکاب کرتا ھے تو عام لوگ کہتے ھیں اگر خدا ان کو بخشے گا تو ھمیں تو بےحساب بخش دے گا ،، جب لوگ حج کر چکتے تھے تو عمر فاروقؓ انہیں درے سے واپس بھیجتے تھے کہ حرم سے مانوس ھو جاؤ گے تو اس کی عظمت تمہارے دلوں سے نکل جائے گی،، تمہارا دل یہاں رھے اور بدن اپنے وطن میں ،، یہ بہتر ھے اس بات سے کہ تمہارے بدن تو مکے میں ھوں اور دل اپنے وطن میں ،، جو لوگ جتنے زیادہ حج کرتے جاتے ھیں اتنے ھی بے حس ھوتے جاتے ھیں ، حج کی حیثیت اسٹیرائڈ جیسی ھے ،، جو لمبا عرصہ مکہ رھتے ھیں وہ اپنے گھر کے سامنے سڑک پر ھی مصلی بچھا کر نماز پڑھ لیتے ھیں ، اسی طرح مساجد کا معاملہ بھی ھے ،مساجد کے ماحول میں رھنے سے اس کے تقدس کا احساس کم سے کم ھوتا چلا جاتا ھے ،، پھر مسجد میں گناہ کرنے اور اللہ کی طرف سے فوری گرفت نہ ھونے اور پردہ پوشی کی وجہ سے وہ خدا کے وجود کے بارے میں بھی شک میں مبتلا ھو جاتے ھیں، بعض ائمہ اور موذنین الحاد تک پہنچ چکے ھیں ، وہ صرف نوکری کر رھے ھیں روٹی روزی کے لئے ،، ان میں اور پیپسی کولا فیکٹری میں کام کرنے والوں میں کوئی فرق نہیں ، یہی لوگ اصل میں مساجد اور مدارس کو بدنام کرنے والے ھیں اور علماء کے طبقے کو بھی ،،بہتر حل یہ ھے کہ پکا مولوی رکھنے کی بجائے اس محلے کے لوگ ھی چار سورتیں اچھی طرح یاد کر کے خود ھی نماز باجماعت کا اھتمام کر لیا کریں ،، مولوی صاحب کونسا پرکاری کا یا گوٹے کناری کا کام کرتے ھیں ! بچوں کو گھر رکھیں اور اسکائپ پہ قرآن پڑھوائیں ، بچوں کو اھل مساجد اور مدارس کی پہنچ سے دور رکھیں !