انسان بھی سراپا تضادات کا مجموعہ ھے !
اسی لیئے اس کا حساب حشر پہ اٹھا رکھا گیا ھے کہ وھاں حشر کے فیصلے ھونگے ، دنیا تو صرف سامنے کو دیکھتی ھے ،پسِ منظر میں وہ کونسے عوامل ھوتے ھیں جو کسی طوفان کو اٹھاتے ھیں، اس کی طرف بہت کم دھیان دیا جاتا ھے ،آخر انسان انتہائی قدم کیوں اٹھاتا ھے ؟،، قتل کیوں کرتا ھے ؟ خودکشی کیوں کرتا ھے؟ اپنے بچے اپنے ھاتھوں کیوں مار دیتا ھے ؟ طلاق کیوں دیتا ھے ؟ اپنے آشیاں کو خود آگ کی نظر کیوں کر دیتا ھے ؟ ھنستی مسکراتی اپنی دنیا کو زندگی بھر کے رونے میں کیوں بدل دیتا ھے ؟ یہ سارے سوال کوہ ھمالیہ کی مختلف چوٹیوں کی طرح سر اٹھائے کھڑے ھیں کوئی کے-ٹو ھے تو کوئی ماؤنٹ ایوریسٹ ، آج میڈیکل سائنس نے اس کے بہت سارے جواب تلاش کر ان کی داوئیں تک تیار کر دی ھیں،،مگر یہ دوائیں سامنے کے ایک مریض کو دی جاتی ھیں ، اس کو مریض بنانے والے عوامل کی کوئی دوا ایجاد نہیں ھو سکی !!
آئی ایسی موج کہ ساحل چھوٹ گیا !
ورنہ اپنی کشتی ،،،،،کون ڈبوتا ھے ؟
خیر پلٹیئے اپنے موضوع کی طرف کہ یہ حضرتِ انسان پورا پیراڈاکس ھے !
کمزور اتنا کہ ،،،،،،،،،،،،، سگریٹ تک نہیں چھوڑ سکتا !
طاقتور اتنا کہ اللہ سے کیئے ھوئے عہد و پیمان کو توڑ کر رکھ دے ، اس کے نام پر لی گئ امانت کو اس کے بتائے گئے طریقے کے خلاف استعمال کرے ! نکاح جیسے بندھن کو کھڑے کھڑے تار عنکبوت سمجھ کر بکھیر دے ،،
انسان کو تب تک اس بات کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ کسی علت یا لت کا نشئ بن گیا ھے جب تک کہ وہ اس کو ترک کرنے کی کوشش نہ کرے ! جس طرح کمرے میں قید شخص کو اسی وقت پتہ چلتا ھے کہ وہ قیدی ھے جب وہ اس کمرے نکلنے کی کوشش کرتا ھے تو دروازہ اسے بتاتا ھے کہ وہ اس کی مرضی کا پابند نہیں ھے ،کسی اور کے تابع ھے ! گناہ بھی ایک لت ھے ،، بڑا معصوم اور بے ضرر نظر آنے والا بھولا بھالا گناہ اس وقت اژدھا بن جاتا ھے جب اسے اپنے الگ کرنے کی کوشش کرو ! سگریٹ چھوڑنے والا یہی سمجھتا رھتا ھے کہ جس دن وہ چاھے گا سگریٹ چھوڑ دے گا ،مگر قیامت اس وقت گذرتی ھے جب وہ اسے چھوڑنے کی کوشش کرتا ھے ، یہ ڈھائی انچ کا ھلکا سا سگریٹ دس میٹر کا وزنی شہتیر ثابت ھوتا ھے ، اور انسان اسے چھوڑ چھوڑ کر اپنا لیتا ھے ،پھر بے بس ھو جاتا ھے !
بلندی کا سفر بڑا حوصلہ چاھتا ھے ، بڑی قوتِ ارادی چاھتا ھے ،، جبکہ پستی کا سفر بس لڑھکنے پر منحصر ھے ،، پھر انسان خود ھی پتھر کی طرح بغیر زور لگائے ،پستی کی کشش کے زور پر ھی گولی کی طرح نیچے جاتا ھے ، یہ مسکین سی پستی جو پاؤں میں رُلتی پھرتی ھے ، اس کی طاقت کی حقیقت اسی وقت کھُلتی ھے جب آپ بلند ھونے کی کوشش کرتے ھیں ، یہ واپس کھینچتی ھے اس سے جان چھڑانے کی جدوجہد ،جہاد کہلاتی ھے ،ھم عموماً یہ جہاد کرنے کی بجائے پستی کی بدبو سے لُتھڑے رب کے حضور کھڑا ھونا چاھتے ھیں ،،
بلند ھو تو کھُلے تُجھ پہ زور پستی کا !
لڑکھڑائے ھیں بڑے بڑوں کے قدم کیا کیا !!
سگریٹ چھوڑنے والا پہلے سادہ طریقہ اختیار کرتا ھے ،، پھر جب عاجز ھو جاتا ھے تو اپنی قوتِ ارادی کو قسموں کا انجیکشن دیتا ھے ،، قسمیں بھی پہلے سادی ھوتی ھیں ،،پھر بیوی کی طلاق کی قسم تک نوبت چلی جاتی ھے ! اس وقت انسان کو پتہ چلتا ھے کہ وہ کس عفریت کا اسیر ھے ؟ وہ کبھی سگریٹ چھوڑنے کے لئے نسوار کھانا شروع کرتا ھے تو نسوار چھوڑنے کے لئے لہسن منہ میں رکھنا شروع کر دیتا ھے ،مگر بات پلٹ کر پھر سگریٹ تک چلی جاتی ھے !
انسان بیوی کو بھی سگریٹ کی طرح بے ضرر سمجھتا ھے ، جب چاھوں گا پکڑ کر گھر سے نکال دوں گا ،، مگر حقیقت یہ ھے کہ جس دن انسان بیوی کو نکال باھر کرتا ھے اس دن اسے پتہ چلتا ھے کہ وہ تو اس کا نشئ ھو چکا تھا ، اسے بیوی کی عادت پڑ گئ ھے ،، جس طرح سگریٹ کی عادت پکی ھو جاتی ھے ،، وہ اس کی نوک جھونک ،تلخ ترش باتوں ، ڈانٹ ڈپٹ ، حساب کتاب لینے ، اعتراضات جھڑنے ،، الغرض ھر روپ کا عادی ھو گیا ھے ،،
پھر اسے احساس ھوتا ھے کہ وہ جو اس سے بار بار سوال کیا جاتا تھا کہ ” کہاں پہنچے ھیں ؟” کتنی دیر تک آئیں گے ؟ کب تک آئیں گے ؟ یہ سارے سوال کسی کی بے تابیاں اور بے قراریاں درشاتے تھے،، کوئی تیرا انتظار کرتا تھا کوئی تو تھا جسے تیری فکر تھی ،، آج منہ اٹھا کر جدھر مرضی ھے چل پڑو ،کوئی پوچھنے والا نہیں ،، جب چی چاھو گھر پلٹو ،پلٹو نہ پلٹو ،، کسی کو پرواہ نہیں پرواہ کرنے والے گنوا بیٹھے ھو ،ڈھونڈ ان کو اب چراغِ رُخ زیبا لے کر ! گھروں میں لگے آٹو سرکٹ بریکر پر ایک پیلا سا بٹن لگا ھوتا ھے جس پہ لکھا ھوتا ھے کہ کبھی کبھی اس بٹن کو دبا کر چیک کر لیا کریں کہ یہ ٹرپ کرتا بھی ھے یا خراب ھو چکا ھے ، ایسا نہ ھو کہ شارٹ سرکٹ سب کچھ جلا کر کر راکھ کر دے مگر تیرا یہ بٹن ٹرپ نہ کرے ،، اسی طرح گھر والی کو دو ماہ کے لئے راضی خوشی اس کے والدین کے گھر بھیج کر اپنا آٹو سرکٹ بریکر چیک کر لیا کرو ،، تا کہ تم دونوں کو ایک دوسرے کے نشے کی شدت کا اندازہ ھو جایا کرے اور طلاق کی نوبت نہ آئے ، اللہ پاک نے بھی ایک ایک کر کے طلاق اسی لئے رکھی ھے کہ دونوں اپنے تعلق کی گہرائی اور گیرائی کا اندازہ کر لیں ، اور روز روز طلاق طلاق نہ کھیلا کریں ،لوگ سمجھتے ھیں کہ ایک بیوی چھوڑ کر دوسری کے ساتھ وہ خوش رھیں گے ،جس طرح سگریٹ کا نشئ نسوار سے طلب کا علاج کرتا ھے ،، مگر مطمئن نہیں ھوتا ،، انسان کسی کے ساتھ رھتا ھے تو اس کے مزاج کے مطابق گھِس جاتا ھے ،جس طرح پاؤں کا جوتا جب تک دکان پہ رھتا ھے سب کے لئے برابر ھوتا ھے ،مگر جب کسی پاؤں میں دو چار ماہ رھتا ھے تو اس بندے کے دباؤ کے مطابق جگہ جگہ سے دب کر فٹ ھو جاتا ھے ،، اسی طرح میاں بیوی ایک دوسرے کے مزاج کی رگڑ سے نفسیاتی طور پر گھِس چکے ھوتے ھیں،، بیوی کا سسرال میں گزارہ نہیں ھوتا تو شوھر بیوی کے بغیر باؤلا ھوا پھرتا ھے ،اس کی ویلیو بیوی کے ساتھ ھی تھی ،، بیوی نکال کر ماں اور بہنوں کے لئے بھی وہ ایک چلا ھوا کارتوس ھی ھوتا ھے ،جسے انہوں نے چلا کر اپنا مقصد پورا کر لیا !!
اب جب وہ سسرال بچوں سے بات کرنے کے بہانے فون کرتا ھے تو ” پہلی ھیلو ” پر ھی اس کے رونگٹھے کھڑے ھو جاتے ھیں،، یہ وھی آواز تھی جو کان کھاتی تھی ،، جسے مزید سننے کے لئے دعا کرتا ھے کہ بچے لیٹ آئیں ،، تا کہ بات لمبی چل جائے ،