تصور عبادت

’’اشراق‘‘
اسلام میں ایک عبادت گزار سے جہاں یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے اعضاء و جوارح سے خدا کے سامنے عجز و تذلل کا اظہار کرے، جسے عرف عام میں پرستش سے تعبیر کیا جاتا ہے، وہاں اس سے یہ بھی مطلوب ہے کہ وہ معاملات زندگی میں دل کی مکمل رضا کے ساتھ حتی المقدور خدا کی فرماں برداری کرے اور اس کی نافرمانی سے بچے۔ بندے کے اس عابدانہ رویے کا نام قرآن مجید کی زبان میں تقویٰ ہے۔ عبادت اور تقویٰ میں گہرا رشتہ ہے۔قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس ربط و تعلق کو واضح کر دیا گیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
أَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوْہُ.(سورۂ نوح: ۳) ’’یہ کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا ہے:
وَإِبْرَاہِیْمَ إِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوْہُ.(سورۂ عنکبوت: ۱۶) ’’اور ابراہیم کہ جب اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد ہوا ہے: وَإِنَّ ہٰذِہٓ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ.(سورۂ مومنون: ۵۲) اس آیت میں ’’فاعبدون‘‘ کی جگہ ’’فاتّقون‘‘ (پس میری نافرمانی سے بچو) کے جملہ نے عبادت کے مفہوم کو کھول دیا ہے کہ وہ دل سے خدا کی اطاعت و فرماں برداری کا نام ہے۔
اخلاص عبادت
اسلامی عبادت کے مفہوم میں جس طرح برضا و رغبت خدائے واحد کی اطاعت و بندگی کا مفہوم، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، بنیادی حیثیت رکھتا ہے اسی طرح ضروری ہے کہ یہ اطاعت و بندگی خالص ہو، اس میں کسی طرح کی آمیزش نہ ہو۔ قرآن کی اصطلاح میں اس بے آمیز عبادت کو ’’اخلاص دین ‘‘ کہا گیا ہے۔ ارشاد ہوا ہے:
إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَیْْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ . أَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ.(سورۂ زمر:۲) ’’بے شک ہم نے یہ کتاب تمھاری طرف مطابق حق اتاری ہے تو تم اللہ ہی کی بندگی کرو اطاعت کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ سن لو کہ خالص اطاعت کا سزاوار اللہ ہی ہے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا ہے:
وَمَا أُمِرُوْا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ.(سورۂ بینہ: ۵) ’’ان کو بس یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی بندگی کریں، اطاعت کو اسی کے لیے خاص کرتے ہوئے، بالکل یکسو ہو کر۔‘‘
اخلاص کے لفظی معنی چھانٹ کر الگ کر دینے کے ہیں یعنی اگر کسی چیز میں کوئی اور شے خارج سے آکر شامل ہو گئی ہو تو اس کو اصل شے سے جدا کر دینا اخلاص ہے۔ ’خلص الماء من الکدر‘ کا مطلب ہے، پانی کا میل کچیل سے پاک و صاف ہونا۔ اسی سے لفظ خالص بنا ہے جو اردو میں کثیر الاستعمال ہے۔ عربی میں ’’ھذا ثوبّ خالصٌ‘‘ کے معنی ہیں ’’یہ صاف رنگ کا کپڑا ہے‘‘ یعنی اس میں کسی دوسرے رنگ کی آمیزش نہیں ہے۔ دین کے معنی لغت میں متعدد ہیں۔ ایک معنی اطاعت کے بھی ہیں۔ اوپر کی آیت میں یہ اطاعت کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
’’اخلاص اور دین‘‘ کی اس لغوی وضاحت کے مطابق مذکورہ بالا آیات میں اخلاص دین کا مفہوم یہ ہوا کہ خدا کی اطاعت کے ساتھ کوئی دوسری اطاعت یا اطاعتیں جمع نہ ہوں۔ خدا کی خالص اطاعت و بندگی کو جن چیزوں نے ہمیشہ سے داغ دار کیا ہے ان میں نفس اور مخلوق کی اطاعت نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ اول الذکر اطاعت کے متعلق فرمایا گیا ہے:
أَفَرَأَیْْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰہَہُ ہَوَاہُ.(سورۂ جاثیہ: ۲۳) ’’کیا تم نے دیکھا اس آدمی کو جس نے اپنی خواہش کو معبودبنا لیا ہے۔‘‘
موخر الذکر اطاعت میں مرئی اور غیر مرئی دونوں مخلوقات شریک رہی ہیں۔ غیر مرئی مخلوق میں فرشتے اور مرئی مخلوق میں وفات یافتہ بزرگان دین قابل ذکر ہیں۔ ہم نے اوپر سورۂ زمر کی جو آیت نقل کی ہے، جس میں خدا کی خالص اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، اس سے ٹھیک متصل یہ آیت ہے:
وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٓ أَوْلِیَآءَ مَا نَعْبُدُہُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا إِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی إِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ بَیْْنَہُمْ فِیْ مَا ہُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ إِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ ہُوَ کَاذِبٌ کَفَّارٌ.(سورۂ زمر: ۳) ’’اور جن لوگوں نے اس کے سوا دوسرے کارساز (اولیاء) بنا رکھے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہم کو خدا سے قریب کر دیں۔ اللہ ان کے درمیان اس بات کا فیصلہ کرے گاجس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔ اللہ ان لوگوں کو راہ نہیں دکھاتا جو جھوٹے اور ناشکرے ہیں۔‘‘
اس آیت میں بہت واضح طور پر وفات یافتہ صلحا اور انبیا کی کارسازی کی تردید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جو لوگ یہ خیال رکھتے ہیں وہ جھوٹے ہیں اور ناشکرے بھی۔ نفس پرستی اور غیر خداکی مطلق کارسازی کے عقیدہ کے علاوہ درج ذیل امور بھی اخلاص عبادت کے منافی ہیں:
۱۔ خدا کے سوا کسی دوسرے کو، خواہ وہ نبی اور ولی ہی کیوں نہ ہو، سجدہ نہ کیا جائے اس لیے کہ سجدہ عبادت (نماز) کا ایک اہم رکن ہے اور وہ اللہ کے لیے مخصوص ہے۔ فرمایا گیا ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ.(سورۂ حج: ۷۷) ’’اے ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو۔‘‘
معلوم ہوا کہ رکوع اور سجدہ عبادت میں داخل ہیں اس لیے یہ دونوں عمل کسی بھی شکل میں مخلوق کے لیے جائز نہیں، خواہ تعظیم کی غرض سے ہو اور خواہ اطاعت و بندگی کے اظہار کے لیے۔۱۸ یہاں کسی کے ذہن میں یہ بات آ سکتی ہے کہ قرآن میں برادران یوسف کی سجدہ گزاری کا ذکر آیا ہے۔ اس سجدہ کا مطلب زمین پر گر جانا نہیں، بلکہ سر کو ذرا آگے کی طرف خم کرنا ہے۔ اس کو انگریزی میں Bow down کہتے ہیں۔۱۹ اس سے مقصود اعتراف عزّو کمال ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آسمان و زمین نیز درخت اور پہاڑ کی سجدہ گزاری کا بیان ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ چیزیں معروف معنی میں سجدہ نہیں کر سکتی ہیں اس لیے لازماً ان کے سجدے کا مطلب اللہ کے طبعی قوانین کی تعمیل ہے۔ پس کسی مخلوق کو حقیقی معنی میں سجدہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ سجدہ گزار اس کا مطیع و عابد ہے اور یہ عمل اخلاص عبادت کے منافی ہو گا۔
۲۔ کسی مخلوق کو مافوق الطبعی طور پر حاجت روا۲۰ اور مشکل کشا سمجھ کر نہ پکارا جائے کہ یہ عمل اخلاص عبادت کے منافی ہے۔ صاف لفظوں میں کہا گیا ہے:
وَلاَ تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لاَ یَنْفَعُکَ وَلاَ یَضُرُّکَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّکَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِیْنَ. (سورۂ یونس: ۱۰۶) ’’اللہ کے سوا کسی کو نہ پکارو جو نہ تمھیں نفع پہنچائیں اور نہ نقصان۔ اگر تم نے ایسا کیا (یعنی حاجتوں اور مصیبتوں میں غیر خدا کو مدد کے لیے پکارا) تو تمھارا شمار ظالموں (مشرکوں) میں ہو گا۔‘‘
ہر مذہب کے درویشوں اور ولیوں کے بارے میں اس کے غالی پیروؤں کا یہ خیال رہا ہے اور آج بھی ہے کہ وہ خدا کی طرف سے تصرف کا اختیار رکھتے ہیں اور اپنے ماننے والوں کو نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اسی باطل خیال کے تحت وہ ان کے مقابر پر جاکر ان سے مدد مانگتے ہیں۔ قرآن مجید میں اس اختیار و تصرف کی شدت کے ساتھ تردید کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ کوئی مخلوق کسی نوع کے مافوق الفطری اختیار سے بہرہ ور نہیں ہے۔ اس مضمون کی چند آیات ملاحظہ ہوں:
وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ. إِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآءَ کُمْ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ وَلَا یُنَبِّءُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ.(سورۂ فاطر: ۱۳،۱۴) ’’اس کے سوا جن ہستیوں کو تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اگر تم انھیں پکارو تو وہ (بذات خود) تمھاری پکار کو سن نہیں سکتے، اور اگر (کسی ربّانی ذریعہ سے) سن بھی لیں تو تمھاری حاجت روائی نہیں کر سکتے، اور روز آخرت وہ تمھارے شرک کا انکار کر دیں گے، ایک باخبر (یعنی اللہ) کے سوا کوئی دوسرا تمھیں اس حقیقت کی خبر نہ دے گا۔‘‘
أَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا أَنْ یَتَّخِذُوْا عِبَادِیْ مِنْ دُوْنِیْ أَوْلِیَآءَ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَہَنَّمَ لِلْکَافِرِیْنَ نُزُلاً. (سورۂ کہف: ۱۰۲) ’’پس کیا منکرین حق نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ مجھ کو چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا ولی اور کارساز بنا لیں (اور میں ان کا محاسبہ نہ کروں گا) ہم نے جہنم کو ایسے منکروں کے استقبال کے لیے تیار کر رکھا ہے۔‘‘
قُلْ أَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُونِہٓ أَوْلِیَآءَ لاَ یَمْلِکُوْنَ لِأَنْفُسِہِمْ نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا. (سورۂ رعد: ۱۶) ’’کہو، کیا تم لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر ان کو اپنا ولی اور کارساز بنا لیا ہے جو خود اپنے نفع و نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے۔‘‘
مَا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہ مِنْ وَلِیٍّ وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہِ أَحَدًا. (سورۂ کہف: ۲۶) ’’اس کے سوا ان کا کوئی کارساز نہیں ہے اور وہ اپنے اختیار میں کسی کو ساجھی نہیں بناتا۔‘‘
بہت سے نادان کہتے ہیں، اور عرب کے مشرکین کا بھی خیال تھا، کہ وہ حاجات و بلایا میں غیر خدا کو محض وسیلہ سمجھ کر پکارتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں چونکہ وہ خدا کے مقرب ہیں اس لیے وہ اللہ سے کہہ کر ان کی مرادیں پوری کر دیتے ہیں یا ان کے کہنے سے اللہ ان کی حاجتیں پوری کرتا ہے۔ گویا وہ خدا کے ہاں ان کے سفارشی ہیں۔ قرآن مجید نے اس خیال کو باطل قرار دیا ہے۔ فرمایا گیا ہے:
أَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ شُفَعَآءَ قُلْ أَوَلَوْ کَانُوْا لَا یَمْلِکُوْنَ شَیْْءًا وَلَا یَعْقِلُوْنَ. قُلْ لِّلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًا لَّہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ إِلَیْْہِ تُرْجَعُوْنَ. (سورۂ زمر: ۴۳،۴۴) ’’کیا انھوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو سفارشی بنا رکھا ہے! کہو، اگرچہ نہ وہ کچھ اختیار رکھتے ہوں اور نہ کچھ سمجھتے ہوں۔ کہہ دو کہ سفارش تمام تر اللہ ہی کے اختیار میں ہے، آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا ہے:
وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لاَ یَضُرُّہُمْ وَلاَ یَنْفَعُہُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ قُلْ أَتُنَبِّءُوْنَ اللّٰہَ بِمَا لاَ یَعْلَمُ فِی السَّمَاوَاتِ وَلاَ فِی الأَرْضِ سُبْحَانَہ وَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ. (سورۂ یونس: ۱۸) ’’اور وہ اللہ کے سوا ایسوں کی پرستش کرتے ہیں جو نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور نہ نقصان، اور وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں، کہہ دو، کیا تم اللہ کو ایسی بات کی خبر دیتے ہو جس کا اس کو علم نہیں، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں۔ وہ پاک اور بلند ہے ان چیزوں سے جن کو وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘
نادان لوگ جن اولیاء اور بزرگان دین کے وسیلے پر اعتماد کرتے ہیں ان کا حال قرآن مجید نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے:
قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِہ فَلاَ یَمْلِکُوْنَ کَشْفَ الضُّرِّ عَنْکُمْ وَلاَ تَحْوِیْلاً. أُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ إِلٰی رَبِّہِمُ الْوَسِیْلَۃَ أَیُّہُمْ أَقْرَبُ وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَہ وَیَخَافُوْنَ عَذَابَہُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا.(سورۂ بنی اسرائیل: ۵۶،۵۷) ’’کہو کہ ان کو پکار دیکھو، جن کو تم نے اس کے سوا معبود خیال کر رکھا ہے، وہ نہ تم سے کسی مصیبت کو دفع کر سکیں گے، نہ اس کو ٹال سکیں گے۔ یہ لوگ جن کو پکارتے ہیں وہ تو خود ہی اپنے رب تک رسائی حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ ان میں سے کون سب سے زیادہ مقرب بنتا ہے۔ وہ اپنے رب کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بے شک تمھارے رب کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے قابل۔‘‘
۳۔ اخلاص عبادت میں یہ بات بھی داخل ہے کہ خدا کی بخشی ہوئی نعمتوں میں کسی مخلوق کو شریک نہ کیا جائے۔ یہ گمان رکھنا کسی مومن کے لیے جائز نہیں کہ اس کو جو نعمتیں حاصل ہیں، خواہ اولاد ہو، مال و منال ہو یا عہدہ و منزلت، وہ خدا کے سوا کسی اور نے دی ہیں، براہ راست یا بالواسطہ، فرمایا گیا ہے:
وَاشْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ.(سورۂ نحل: ۱۱۴) ’’اور اللہ کی نعمت کا شکر بجا لاؤ اگر تم فی الواقع اسی کی عبادت کرتے ہو۔‘‘
قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ تمثیل کے پیرایہ میں اس حقیقت کو ان لفظوں میں ذہن نشین کرایا گیا ہے:
فَلَمَّا تَغَشَّاہَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِہِ فَلَمَّا أَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰہَ رَبَّہُمَا لَءِنْ اٰتَیْْتَنَا صَالِحًا لَّنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ. فَلَمَّا اٰتَاہُمَا صَالِحًا جَعَلاَ لَہُ شُرَکَآءَ فِیْمَا اٰتَاہُمَا فَتَعَالَی اللّٰہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ. أَیُشْرِکُوْنَ مَا لاَ یَخْلُقُ شَیْْءًا وَہُمْ یُخْلَقُوْنَ. وَلاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ لَہُمْ نَصْرًا وَلاَ أَنْفُسَہُمْ یَنْصُرُوْنَ. وَإِنْ تَدْعُوْہُمْ إِلَی الْہُدٰی لاَ یَتَّبِعُوْکُمْ سَوَآءٌ عَلَیْْکُمْ أَدَعَوْتُمُوْہُمْ أَمْ أَنْتُمْ صَامِتُوْنَ. إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ عِبَادٌ أَمْثَالُکُمْ فَادْعُوْہُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ.(سورۂ اعراف: ۱۸۹۔۱۹۴) ’’پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے وہ لیے چلتی پھرتی رہی۔ پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں (مرد اور عورت) نے اللہ سے، جو ان کا رب ہے، دعا کی کہ خدایا اگر تو نے ہمیں ایک تندرست اور بے عیب بچہ عطا کیا تو ہم تیرے شکرگزار ہوں گے۔ مگر جب اللہ نے ان کو ایک صحیح و سالم بچہ دے دیا تو اس کی بخشی ہوئی اس نعمت میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرانے لگے۔ اللہ کی ذات بہت بلند و برتر ہے ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ کیا یہ لوگ خدا کے ساتھ ان کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کے بھی خالق نہیں بلکہ مخلوق ہیں۔ وہ نہ تو ان کی مدد پر قادر ہیں اور نہ ہی اپنی ذات کو مدد پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں۔ اگر تم ان کو رہ نمائی کے لیے پکارو تو وہ تمھارے ساتھ نہ چلیں۔ خواہ تم انھیں پکارو یا چپ رہو (باعتبار نتیجہ) یکساں ہے۔ تم اللہ کے سوا جن ہستیوں کو پکارتے ہو وہ تو تمھارے ہی جیسے بندے ہیں۔ پس ان کو پکار دیکھو، وہ تمھیں جواب دیں اگر تم سچے ہو۔‘‘
۴۔ غیر خدا پر اعتماد کہ وہ علی الاطلاق نفع و ضرر پہنچانے کا اختیار رکھتے ہیں، اخلاص عبادت کے خلاف ہے۔ اس کے برعکس اس بات پر اعتماد رکھا جائے کہ ہر قسم کے نفع و نقصان کا سر رشتہ صرف خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ اپنے کسی بندے کو کوئی فائدہ پہنچانا چاہے تو سارا جہاں مل کر بھی اس کو روک نہیں سکتا اور اگر کسی کے حق میں اس کے اعمال بد کی پاداش میں نقصان کا فیصلہ کر دے تو اس سے کوئی اس کو بچا نہیں سکتا ہے۔ (سورۂ یونس ۱۷) عبادت اور توکل کا یہ ارتباط آیۂ ذیل سے بالکل واضح ہے:
فَاعْبُدْہُ وَتَوَکَّلْ عَلَیْْہِ.(سورۂ ہود: ۱۲۳) ’’اس کی بندگی کرو اور اسی پر بھروسہ کرو۔‘‘
عبادت کا وسیع مفہوم
عبادت کا لفظ جب اصطلاحاً استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے عام طور پر بعض معروف اعمال عبادت، مثلاً پرستش، دعا اور قربانی وغیرہ مراد لیے جاتے ہیں، اخلاق اور معاملات اس میں شامل نہیں سمجھے جاتے ہیں۔ اسلام نے عبادت کے اس محدود مفہوم کو ختم کیا اور بتایا کہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی بھی عبادت میں داخل ہے۔ جس نے خدا کا حق ادا کیا، لیکن بندوں کے حقوق، جو خدا نے اس پر عائد کیے ہیں، ادا نہ کیے تو وہ خدا کی نظر میں عابد شمار نہ ہو گا۔ قرآن مجید میں ایک سے زیادہ مقامات پر عبادت کے اس پہلو کو واضح کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَلاَ تُشْرِکُوْا بِہ شَیْْءًا وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَانًا وَبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالاً فَخُوْرًا.(سورۂ نساء:۳۶) ’’اور اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو بھی اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔ اور والدین، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قرابت دار پڑوسی، اجنبی پڑوسی (یعنی جس سے کوئی آشنائی نہ ہو) ہم نشین مسافر اور اپنے لونڈی غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اور (مال و جاہ پا کر) اترانے والوں اور گھمنڈ کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا ہے:
قَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ إِلٰہٍ غَیْْرُہ وَلاَ تَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ إِنِّیْٓ أَرَاکُمْ بِخَیْْرٍ وَإِنِّیْٓ أَخَافُ عَلَیْْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ. وَیَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْیَآءَ ہُمْ وَلاَ تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ.(سورۂ ہود: ۸۴۔۸۵) ’’اے میری قوم کے لوگو! اللہ ہی کی بندگی کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں، اور ناپ تول میں کمی نہ کرو۔ (اس وقت) میں تمھیں اچھی حالت (یعنی فارغ البالی) میں دیکھ رہا ہوں (لیکن آگے) میں تم پر ایک گھیرنے والے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں۔ اور اے میری قوم کے لوگو! ناپ اور تول کو انصاف کے ساتھ پورا کرو۔ اور لوگوں کی چیزوں میں ان کی حق تلفی نہ کرو اور زمین میں فساد پھیلانے والے بن کر نہ پھرو۔‘‘
ماضی میں دیگر اقوام کی طرح قوم شعیب کا تصور عبادت بھی ناقص تھا۔ چنانچہ جب شعیب علیہ السلام نے انھیں مالی معاملات میں انصاف سے کام لینے کی تلقین کی، جیسا کہ اوپر کی آیت میں بیان ہوا ہے، تو انھوں نے کہا:
أَصَلاَتُکَ تَأْمُرُکَ أَن نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا أَوْ أَنْ نَّفْعَلَ فِیْ أَمْوَالِنَا مَا نَشآؤُا إِنَّکَ لَأَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ.(سورۂ ہود: ۸۷) ’’کیا تمھاری نماز تمھیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان چیزوں سے دست بردار ہو جائیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں یا یہ کہ ہم اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف نہ کریں، (کیا خوب) بس تمھی تو ایک دانش مند اور راست رو ہو۔‘‘
فی الحقیقت اسلام میں انسان کا ہر عمل عبادت اور باعث اجر ہے، خواہ وہ عمل بادی النظر میں بالکل حقیر ہو، بلکہ سراسر دنیا کا کام معلوم ہوتا ہو، بشرطیکہ اس عمل سے خدا کی رضا اورا س کا تقرب مطلوب ہو۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت سعد نے خدمت اقدس میں آ کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، میں اپنی کل دولت راہ خدا میں خرچ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا، سعد تم جو کچھ راہ خدا میں صرف اس کی خوش نودی کی طلب میں خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو ضرور ملے گا یہاں تک کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں اس غرض سے ڈالو گے اس کا بھی تم کو ثواب ملے گا۔ ۲۱
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ملاحظہ ہو:
ما اطعمت نفسک فھو لک صدقۃ، ما اطعمت ولدک فھو لک صدقۃ، ما اطعمت زوجک فھو لک صدقۃ، ما اطعمت خادمک فھو لک صدقۃ. (مسند احمد) ’’تم نے خود اپنے آپ کو جو کھلایا وہ تمھاری طرف سے صدقہ ہے، جو اپنی اولاد کو کھلایا وہ بھی تمھاری طرف سے صدقہ ہے، جو اپنی بیوی کو کھلایا وہ تمھاری طرف سے صدقہ ہے اور اپنے نوکر کو جو کھلایا وہ بھی تمھاری طرف سے صدقہ ہے۔‘‘
بہت سے قارئین یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اسلام میں میاں بیوی کے جنسی تعلقات بھی عبادت میں داخل ہیں۔ ایک بار آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ مباشرت بھی صدقہ ہے۔ انھوں نے تعجب سے کہا، کیا شہوت کے پورا کرنے میں بھی اجر ہے؟ فرمایا، تمھارا کیا خیال ہے، اگر وہ یہ کام حرام طریقے سے کرتا تو کیا اس پر گناہ نہ ہوتا؟ صحابہ نے کہا، ضرور یہ فعل گناہ ہو گا۔ آپ نے فرمایا، تو جب وہ یہی کام حلال طریقے سے کرے گا تو اس کو یقیناًثواب ملے گا۔ ’کذالک اذا وضعھا فی الحلال کان لہ اجر‘۔ ۲۲
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:
ما من مسلم یغرس غرسا او یزرع زرعا فیاکل منہ طیر أو انسان أو بھیمۃ الا کان لہ صدقۃ.(متفق علیہ) ’’جس مسلمان نے بھی درخت لگایا یا کھیتی کی پھر اس درخت یا کھیتی سے چڑیا یا انسان یا جانور کھائے تو یہ ضرور اس کی طرف سے صدقہ ہو گا۔‘‘
انسانی معاشرے میں مزاج اور مفادات کے مختلف ہونے کی وجہ سے بسا اوقات آپس کے تعلقات متاثرہوتے ہیں اور دلوں میں بغض و نفرت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان بگڑے ہوئے تعلقات کو درست کرنا بھی عبادت ہے۔ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ میں تم کو نفل روزہ و نماز اور صدقہ سے بھی بڑھ کر درجہ کی چیز نہ بتاؤں۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ضرور ارشاد فرمائیں۔ آپ نے کہا، وہ ہے آپس کے تعلقات کا درست کرنا، یعنی اصلاح ذات البین۔۲۳
اتنا ہی نہیں، ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دینا، گونگے کو سنا دینا، اور اندھے کو راہ دکھا دینا بھی اسلام میں نیکی اور صدقہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آدمی کی معمولی باتیں بھی اس کے لیے صدقہ ہیں۔ مثلاً انصاف کی بات کہنا، آدمی کو اس کے جانور پر سوار کرا دینا یا اس کے سامان کو اس پر لاد دینا، بھلی بات کہنا، نماز کے لیے پیدل چل کر جانا اور راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا وغیرہ۔ ۲۴
خدمت خلق
اسلام کے تصور عبادت میں، جیسا کہ ابھی اوپر بیان ہوا، خدمت خلق کا شمار عبادت میں ہے اور اس کا درجہ بہت بلند ہے۔ ایک حدیث میں کل مخلوق کو خدا کا کنبہ کہا گیا ہے اور وہی شخص اس کی نگاہ میں زیادہ محبوب ہے جو اس کے کنبہ کے لیے زیادہ خیر خواہ اور نفع بخش ہو۔ حدیث کے الفاظ ہیں: ’الخلق کلھم عیال اللّٰہ واحبہم الیہ انفعھم لعیالہ‘۔ ۲۵
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ مسکین اور بیوہ کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والے کا مرتبہ خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے، روزہ دار اور رات میں نماز پڑھنے والے کے برابر ہے ’الساعی علی الارملۃ والمسکین کالمجاھد فی سبیل اللّٰہ و کالذی یصوم النھار ویقوم اللیل‘۔ ۲۶
ایک بار کا واقعہ ہے کہ رسول اللہ کی خدمت میں کچھ لوگ انتہائی پریشاں حالی میں صرف کمبل اوڑھے ہوئے حاضر ہوئے۔ آپ کی نظر جیسے ہی ان کے خستہ حال چہرے پر پڑی اداس ہو گئے۔ گھر میں تشریف لے گئے، کچھ دینے کو نہ ملا تو مایوسی کے عالم میں باہر آ گئے۔ بلال سے کہا کہ تمام مسلمانوں کو جمع کرو۔ وہ جمع ہوئے اور سب نے مل کر کافی سرمایہ اکٹھا کیا اور رسول اللہ کے حوالہ کر دیا۔ یہ دیکھ کر آپ نہایت خوش ہوئے۔ واقعے کے راوی حضرت جابر بن عبداللہ کے الفاظ ہیں: ’فرأیت وجہ رسول اللّٰہ کانہ مذھبۃ‘ ’’پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ کا چہرہ سونے کی طرف دمک رہا ہے۔‘‘۲۷
اس سلسلے میں ایک حدیث قدسی بھی قابل ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ روز آخرت فرمائے گا:
’’اے ابن آدم! میں بیمار ہو گیا تھا مگر تو نے میری عیادت نہ کی۔ بندہ عرض کرے گا: اے رب میں بھلا تیری عیادت کیونکر کرتا، تو تو پروردگار عالم ہے۔ خدا فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہو گیا تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی، اگر تو اس کی خبرگیری کو جاتا تو اس کو میرے پاس پاتا یا مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا مگر تو نے نہیں کھلایا۔ بندہ عرض کرے گا: اے رب میں تجھ کو کیونکر کھلاتا تو تو خود سارے جہاں کا پروردگار ہے۔ خدا فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں (بھوکے) بندے نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے نہیں کھلایا، اگر تو اس کو کھلاتا تو اسے میرے پاس پاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگر تو نے نہیں پلایا۔ بندہ عرض کرے گا: اے رب میں تجھے کیونکر پانی پلاتا کہ تو رب العٰلمین ہے۔ خدا فرمائے گا: میرے فلاں (پیاسے) بندے نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے نہیں پلایا۔ اگر تو اس کو پانی پلاتا تو اسے میرے پاس پاتا۔‘‘(مسلم، رواہ ابوہریرہ، مزید دیکھیں، ادب المفرد (امام بخاری) باب: عیادۃ المرضیٰ)
انسان تو بڑی چیز ہے، اسلام میں جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کو بھی نیکی کا کام بتایا گیا ہے۔ ایک مجلس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو ایک آدمی کا واقعہ سنایا کہ اس نے ایک کتے کو دیکھا کہ وہ پیاس کی شدت سے زبان نکالے ہوئے مٹی چاٹ رہا ہے (یلھث یا کل الثری من شدۃ العطش) چنانچہ یہ دیکھ کر اس کے دل میں رحم آیا اور اس نے پسند نہ کیا کہ وہ اس کتے کو، جب کہ وہ شدید پیاس میں مبتلا ہے، یونہی چھوڑ دے۔ چنانچہ وہ اس کو لے کر ایک کنویں کے پاس پہنچا اور اپنا موزہ اتار کر اس میں پانی بھرا اور اس کتے کو پلایا۔ اللہ نے اس کے اس عمل کو پسند کیا اور اس کو بخش دیا۔ جب صحابہ نے یہ قصہ سنا تو تعجب سے کہا، اے اللہ کے رسول، کیا جانوروں کے ساتھ حسن سلوک میں بھی اجر ہے ’ائن لنا فی البھائم لأجرا یا رسول اللّٰہ‘ فرمایا، ہر ذی حیات کے ساتھ حسن سلوک میں اجر ہے۔۲۸
اسلام نے مخلوق خدا کے ساتھ حسن سلوک کو محض نیکی قرار نہیں دیا، بلکہ اس کو اسلامی عبادات میں ایک اہم عبادت کا درجہ دیا۔ اسلام میں نماز کے بعد جو دوسری بڑی عبادت ہے وہ زکوٰۃ ہے، جو غربا و مساکین کی خبرگیری کا دوسرا نام ہے۔ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر نماز کا ذکر زکوٰۃ کے ساتھ آیا ہے ’اقیموا الصلٰوۃ واٰتوا الزکٰوۃ‘ اس التزام سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ نماز اور زکوٰۃ لازم و ملزوم ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اسلام میں ایک بندۂ مومن کا ہر وہ کام، خواہ بڑا ہو یا چھوٹا، خواہ آخرت سے تعلق رکھتا ہو یا دنیا سے، عبادت ہے جو خدا کی رضا اور خوش نودی کے لیے کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی عبادت میں داخل ہے۔
راہبانہ تصور عبادت کی نفی
تاریخ انسانی کے ہر دو رمیں ہر مذہب کے غالی اور متقشف لوگوں کا یہ خیال رہا ہے کہ آدمی خدا کی عبادت میں جس قدر ریاضات شاقہ اٹھاتا ہے اسی قدر اس کو خدا کی رضا مندی اورا س کا قرب و اتصال حاصل ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ ان کا یہ بھی خیال رہا ہے کہ خدا کی خالص اور سچی عبادت کے لیے ناگزیر ہے کہ آدمی انسانی معاشرہ اور اس کے علائق سے قطع تعلق کر کے جنگل یا پہاڑ کے کسی گمنام گوشے میں معتکف ہو جائے، اور اگر کسی سبب سے یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم انسانی آبادی سے دور کوئی خانۂ عزلت تلاش کر لے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو آبادی کے اندر ہی کوئی خاموش گوشۂ عافیت ڈھونڈ لے اور وہاں ہنگامہ ہائے دنیا سے بے خبر ہو کر خدا کی عبادت و ریاضت میں اپنا وقت گزارے۔ گویا ان کے نزدیک خدا کے حق کی ادائیگی کے لیے حقوق العباد سے منہ موڑنا اور امکانی حد تک خود اپنے نفس و جسم کے حقوق کو پامال کرنا ناگزیر ہے۔ اس راہبانہ تصور عبادت کی بہت سی مثالیں انسان کی قدیم مذہبی تاریخ میں موجود ہیں، اس سے پہلے ہم عیسائی رہبان اور ہندو جوگیوں کے احوال بیان کر چکے ہیں جن سے راہبانہ تصور عبادت کا مفہوم اور اس کے اطراف و جوانب پوری طرح واضح ہو گئے ہیں۔
جہاں تک اسلامی تاریخ کا تعلق ہے اس کے تقریباً ہر عہد میں مسلمانوں کے اندر ایسے مذہبی لوگ موجود رہے ہیں جو راہبانہ تصور عبادت سے ایک حد تک مانوس تھے، اگرچہ وہ عیسائی راہبوں کی طرح مکمل طور پر تجرد کے قائل نہ تھے اور نہ ہی تربیت نفس کے معاملے میں نفس کشی اور تعذیب جسم کی حد تک پہنچے ہوئے تھے۔۲۹ پھر بھی ان کا عام طرز زندگی راہبانہ تھا، اور وہ عام طور پر مخلوق خدا سے الگ تھلگ ہو کر زندگی گزارتے تھے اور ازدواجی تعلق بھی برائے نام ہی رکھتے تھے۔ یہ غالی صوفیوں کا طبقہ تھا۔
آج بھی مسلمانوں میں ایک ایسا مذہبی طبقہ موجود ہے جس کے تصور عبادت میں راہبانہ تصور عبادت کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ اس طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد علانیہ ترک دنیا کی تعلیم تو نہیں دیتے لیکن ان کے نزدیک روحانی ترقی اور آخرت میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ عابد و زاہد مسلمان اسباب دنیا کی نفی کرے یا ان سے برائے نام تعلق رکھے اور اپنے اوقات کا بیشتر حصہ کسی گوشۂ مسجد یا خانۂ خلوت میں بیٹھ کر ذکر الٰہی، مراقبہ اور مجاہدہ میں گزارے۔ ان کے نزدیک یہی معراج عبادت ہے۔ یہ خیال بھی راہبانہ تصور عبادت ہی کی ایک قسم ہے۔
راہبانہ تصور عبادت کو صحیح تسلیم کر لینے کے معنی یہ ہیں کہ یہ کارخانۂ خلق و ایجاد ایک کارعبث ہے اور اس میں انسانی وجود کی تخلیق بھی بے مقصد ہے۔ اور یہ تصور حقیقت واقعہ کے خلاف ہو گا۔ اسلام نے بتایا کہ یہ کائنات کوئی بازیچۂ اطفال نہیں ’وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْْنَہُمَا لَاعِبِیْنَ‘ (سورۂ انبیاء ۱۶) بلکہ اس کی تخلیق کے پیچھے ایک عظیم مقصد ہے اور وہ مقصد حق و باطل کی آویزش اور اس کے نتیجے میں حق کا غلبہ اور باطل کا استیصال ہے ’بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہُ فَإِذَا ہُوَ زَاہِقٌ‘ (سورۂ انبیاء ۱۸) ۔
اس کے علاوہ اس عالم آب و گل میں انسانی وجود ایک مرکزی مقام رکھتا ہے۔ انسان کی عظمت و فضیلت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ خدا نے اس کو زمین میں خلیفہ بنایا۔ ’ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلَاءِفَ فِی الْأَرْضِ الخ‘ (سورۂ فاطر ۳۹) اور اس جہان رنگ و بو کی تمام چھوٹی اور بڑی اشیاء کو اس کے دست تصرف میں دے دیا ’وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ‘ (سورۂ جاثیہ: ۱۳) اس مقام و مرتبے کے حامل انسان کا مقصد تخلیق یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ وہ اس دنیا سے اپنا ذہنی و عملی رشتہ منقطع کر کے کسی کنج عزلت میں جا بیٹھے اور وہاں عبادت و ریاضت میں اپنی پوری زندگی گزار دے۔
جب معلوم ہو گیا کہ انسان اس زمین میں خلیفہ بنایا گیا ہے تو اس کا مقصد تخلیق خود بخود واضح اور متعین ہو جاتا ہے۔ اور وہ مقصد یہ ہے کہ وہ خدا کی زمین میں اپنی مرضی اور خوشی سے اس کے حکم و ہدایت کے مطابق زندگی گزارے، انفرادی بھی اور اجتماعی بھی۔ یہی وہ عبادت ہے جس کے لیے انسان کی تخلیق عمل میں آئی ہے۔ فرمایا گیا ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ. (سورۂ ذاریات: ۵۶) ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اسلام راہبانہ تصور عبادت کا مخالف ہی نہیں بلکہ اس کے وجود تک کا منکر ہے: ’لا رھبانیۃ فی الاسلام‘ ۳۰ اگر کسی شخص کو لفظ رہبانیت سے کوئی خاص انس و شیفتگی ہو تو وہ جان لے کہ اسلام کے لغت میں اس کا مفہوم ترک دنیا نہیں بلکہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’رھبانیۃ ہذہ الامۃ الجھاد فی الاسلام‘۳۱ اس امت کی رہبانیت اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے سختی کے ساتھ رہبانیت کے جملہ اعمال و اشکال، مثلاً ترک دنیا یعنی قطع علائق، نفس کشی یعنی ترک لذائذ، اور عبادت (پرستش) میں ریاضات شاقہ وغیرہ کی نفی کی ہے، جیسا کہ اگلی سطروں سے بالکل واضح ہو جائے گا۔
ترک دنیا
قرآن کے بیان کے مطابق، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، انسان کا مقصد تخلیق خدا کی عبادت ہے، یعنی اس کے احکام کے مطابق اس زمین پر زندگی گزارنا۔ اس تصور عبادت کے مطابق ترک دنیا ممکن نہیں، بلکہ اس میں ضروری حد تک شمولیت ناگزیر ہے۔ فرمایا گیا ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلَاۃِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا إِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْْعَ ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ إِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ. فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلَاۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْأَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ. (سورۂ جمعہ: ۹۔۱۰) ’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن کی نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ یہ تمھارے حق میں زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔ پھر جب نماز ختم ہو جائے تو اللہ کے فضل کی طلب میں زمین میں پھیل جاؤ۔ اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تمھیں کامیابی حاصل ہو۔‘‘
یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک بندۂ مومن اس دنیا میں کس طرح زندگی گزارے۔ وہ خدا کی عبادت بھی کرے اور فضل خدا (روزی) کی تلاش سے بھی غافل نہ ہو، بلکہ اس میں سرگرمی دکھائے۔ البتہ اس بات کا دھیان رکھے کہ تلاش رزق میں اس سے ایسا کوئی فعل سرزد نہ ہو جو خدا کے حکم و ہدایت کے خلاف ہو۔ اس آیت میں صرف یہی نہیں کہا گیا ہے کہ وہ روزی کمانے میں جدوجہد کرے بلکہ اس عمل کو فضل خدا کی طلب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ لطیف پیرایۂ بیان خود صراحت کرتا ہے کہ روزی کمانا خدا کی نظر میں ایک پسندیدہ فعل ہے اور وہ اپنے بندوں سے اس بات کا خواہاں ہے کہ وہ روزی کمانے کے لیے زمین میں تگ و دو کریں ’فَانْتَشِرُوْا فِی الْأَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ‘، اس کو محض دنیا کا کام یا خدا کی عبادت میں کوئی رکاوٹ سمجھ کر اس سے کنارہ کشی اختیار نہ کریں۔ قرآن مجید میں ایک جگہ کسب معاش کا ذکر جہاد فی سبیل اللہ کے ساتھ آیا ہے جو اس کی فضیلت کی دلیل ہے۔ فرمایا گیا ہے:
عَلِمَ أَنْ سَیَکُوْنُ مِنْکُمْ مَّرْضٰی وَاٰخَرُوْنَ یَضْرِبُوْنَ فِی الْأَرْضِ یَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاٰخَرُوْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ فَاقْرَؤُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ. (سورۂ مزمل: ۲۰) ’’اس کے علم میں ہے کہ تم میں مریض ہوں گے اور ایسے لوگ بھی جو اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کریں گے اور کچھ دوسرے لوگ بھی ہوں گے جو اللہ کی راہ میں جہاد کا ارادہ رکھتے ہوں گے تو جتنا آسانی کے ساتھ ہو سکے اتنا قرآن پڑھو۔‘‘
اس آیت کی بہترین تفسیر حضرت عمر فاروق کا یہ قول ہے کہ ’’خدا کی راہ میں لڑتے ہوئے جان دینے کی خواہش کے بعد جس دوسری چیز کی میں تمنا رکھتا ہوں وہ یہ کہ حصول رزق اور کشادگی کی تلاش میں میری موت واقع ہو۔‘‘۳۲
حقیقت یہ ہے کہ ایک آدمی کے ایمان و عبادت کا امتحان کاروبار دنیا ہی میں ہوتا ہے جہاں ہر قدم پر شیطانی وساوس اور نفس کی فتنہ انگیزیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔مشہور تابعی ابراہیم نخعی سے کسی نے پوچھا کہ آپ ایک عبادت گزار صوفی اور ایک امانت دار تاجر میں سے کس کو ترجیح دیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ امانت دار تاجر میرے نزدیک افضل ہے اس لیے کہ شیطان اسے بہر صورت ورغلاتا ہے، کبھی ناپ تول اور کبھی لین دین میں اسے الجھانے اور غلط راہ میں لے جانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ اسے برابر شکست دیتا رہتا ہے۔
ترک دنیا کا مطلب بندگان خدا کے حقوق کی ادائیگی سے فرار ہے اور یہ اسلام کی نظر میں عبادت نہیں، فعل گناہ ہے۔ اسلام میں جو عبادت مطلوب ہے وہ خدا کے حق کے ساتھ بندوں کے حقوق کو، جس میں نفس کا جائز حق بھی شامل ہے، احکام شریعت کے مطابق ادا کرنا ہے۔ ایک غزوہ میں کسی صحابی نے ایک ایسا غار دیکھا جو نہایت عمدہ جگہ پر واقع تھا۔ قریب ہی میں پانی کا چشمہ رواں تھا اور قرب و جوار میں خوش نما نباتات اگی ہوئی تھیں۔ صحابی مذکور کو یہ جگہ عبادت اور گوشہ نشینی کے لیے نہایت عمدہ معلوم ہوئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا، یا رسول اللہ! مجھ کو ایک غار ملا ہے، جو نہایت پسندیدہ ہے، وہاں ضرورت کی سب چیزیں بھی موجود ہیں۔ اجازت دیں کہ میں ترک دنیا کرکے وہاں جا بیٹھوں اور خدا کی عبادت کروں۔ آپ نے فرمایا، یہودیت اور عیسائیت لے کر دنیا میں نہیں آیا ہوں۔ میں جو ابراہیمی مذہب لایا ہوں وہ نہایت آسان، سہل اور بالکل واضح ہے۔ ۳۳
نفس کشی
ترک دنیا کی طرح اسلام میں نفس کشی کی بھی اجازت نہیں ہے۔ جائز حدود میں لذائذ دنیا سے متمتع ہونا خلاف عبادت تو کجا عین منشائے الٰہی ہے۔ فرمایا گیا ہے:
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیَ أَخْرَجَ لِعِبَادِہ وَالْطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ.(سورۂ اعراف: ۳۲) ’’پوچھو، کس نے حرام ٹھہرایا ہے اللہ کی اس زینت کو جسے اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا، اور رزق کی پاکیزہ چیزوں کو۔‘‘
دور رسالت میں جب بعض صحابہ نے جوش عبادت میں نفس کشی کی راہ میں چلنا چاہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس راہبانہ رجحان کی سختی کے ساتھ نفی فرمائی۔ ایک صحابی قدامہ بن مظعون اپنے ایک ساتھی کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ’’یا رسول اللہ ہم میں سے ایک نے عمر بھر مجرد رہنے اور دوسرے نے گوشت نہ کھانے کا ارادہ کر لیا ہے۔ آپ نے فرمایا، میں تو یہ دونوں باتیں کرتا ہوں۔ یہ سن کردونوں صحابی اپنے خیال سے تائب ہو گئے۔۳۴
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص نے شادی کی اور وہ ایک صالح نوجوان تھے۔ نماز، روزہ اور تلاوت قرآن سے غیر معمولی شغف رکھتے تھے۔ ان کے والد عمرو ان کے گھر گئے تاکہ ان کی بیوی سے ان کا حال معلوم کریں کہ وہ کس طرح اس کے ساتھ رہتے ہیں۔ بیوی نے کہا: وہ اچھے آدمی ہیں، ہم نے ایک ساتھ ابھی تک بستر میں رات نہیں گزاری ہے۔ یہ سن کر عمرو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ عبداللہ بن عمرو خود روایت کرتے ہیں کہ جب میں خدمت اقدس میں پہنچا تو آپ نے کہا:
’’مجھے معلوم ہوا کہ تم دن میں روزہ رکھتے ہو اور ساری رات تلاوت کرتے ہو۔ میں نے کہا، ہاں یہ بات سچ ہے یا رسول اللہ، لیکن اس سے بھلائی کے علاوہ اور میرا کوئی مقصود نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا، تم پر تمھاری بیوی کا بھی حق ہے، تمھارے مہمان کا بھی حق ہے اور تمھارے جسم کا بھی حق ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ داؤد نبی اللہ کی طرح روزے رکھو کہ وہ بڑے عبادت گزار تھے۔ میں نے کہا، یا رسول اللہ، داؤد کا روزہ کیا ہے؟ فرمایا، وہ ایک دن ناغہ دے کر روزہ رکھتے تھے۔ مزید فرمایا کہ ایک مہینا میں قرآن ختم کیا کرو۔ میں نے کہا، میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا، بیس دن میں ختم کر لو۔ میں نے کہا، یا رسول اللہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا، تو دس دن میں۔ میں نے کہا، یا رسول اللہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا، اچھا تو سات دن میں ختم کیا کرو اور اس میں اضافہ نہ کرو۔ تم پر تمھاری بیوی کا بھی حق ہے، تمھارے مہمان کا بھی حق ہے اور تمھارے جسم کا بھی حق ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الصوم، باب: حق الجسم فی الصوم)
حضرت عثمان بن مظعون ایک عابد و زاہد صحابی تھے اور نہایت متقشفانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آنحضور کو معلوم ہوا کہ وہ شب و روز ذکر و عبادت الٰہی میں مشغول رہتے ہیں اور اپنی بیوی سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ دن کو روزہ رکھتے ہیں اور شب میں بہت کم سوتے ہیں۔ آپ نے ان کو بلا کر پوچھا: عثمان! کیا تم میرے طریقہ سے ہٹ گئے ہو؟ انھوں نے عرض کیا، خدا کی قسم میں ہرگز آپ کے طریقہ سے نہیں ہٹا ہوں، میں تو آپ ہی کے طریقے پر چلنا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا، عثمان خدا سے ڈرو کہ تمھارے اہل و عیال کا بھی تم پر حق ہے، تمھارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے، تمھاری جان کا بھی تم پر حق ہے۔ تم روزے بھی رکھو اور افطار بھی کرو، نماز بھی پڑھو اور سوؤ بھی۔۳۵
قبیلہ باہلہ کے ایک شخص نے اسلام قبول کیا تو ان صحابی نے دن کا کھانا چھوڑ دیا اور مسلسل روزے رکھنے لگے۔ ایک سال کے بعد جب وہ مدینہ آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو آپ ان کو پہچان نہ سکے کیونکہ مسلسل روزوں کی وجہ سے ان کی صورت بالکل بدل گئی تھی۔ انھوں نے اپنا نام بتایا تو فرمایا، تم تو خوب رو تھے، یہ صورت کیسے بدل گئی؟ عرض کیا، یا رسول اللہ، جب سے آپ سے مل کر گیا ہوں متصل روزے رکھتا ہوں۔ فرمایا، تم نے اپنی جان کو کیوں عذاب میں ڈالا، رمضان کے علاوہ ہر مہینا میں ایک روزہ کافی ہے۔انھوں نے اس سے زیادہ کی طاقت ظاہر کی تو آپ نے مہینے میں دو روزے کی اجازت دی۔ انھوں نے اس سے زیادہ کی اجازت چاہی تو مہینے میں تین روزے کر دیے۔ انھوں نے اس سے بھی زیادہ کی درخواست کی تو آپ نے ماہ حرام کے روزوں کی اجازت دی۔ ۳۶
ایک بار صحابہ کی ایک جماعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کا حال معلوم کرنے ازواج مطہرات کے گھر پہنچی۔ ان کا گمان تھا کہ آپ ہر وقت سر بسجود رہتے ہوں گے، رات بھر نمازیں پڑھتے ہوں گے، تمام دن روزے رکھتے ہوں گے، رات میں کم سوتے ہوں گے، جسم کو کم ہی آرام دیتے ہوں گے، اور عورتوں سے کوئی تعلق نہ رکھتے ہوں گے۔ لیکن جب ازواج مطہرات نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں بتایا تو وہ ان کے ارادوں سے کم معلوم ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ہم کو آنحضور سے کیا نسبت، اللہ نے آپ کی مغفرت فرما دی ہے ’وَقَدْ غَفَرَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّم مِنْ ذَنْبِہ وَمَا تَاَخَّرَ‘ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ساری رات نماز پڑھوں گا، دوسرے نے کہا، میں عمر بھر روزے رکھوں گا اور کبھی ناغہ نہ کروں گا، تیسرے نے کہا، میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی شادی نہ کروں گا۔ رسول اللہ نے جب ان کی باتیں سنیں تو ان کے پاس آئے اور فرمایا:
انتم القوم الذین قلتم کذا وکذا؟ واللّٰہ انی لاخشاکم اللّٰہ واتقاکم لہ. لکنی اصوم وافطر، واصلی وارقد، واتزوّج النساء، فمن رغب عن سنتی فلیس منی.(صحیح بخاری، کتاب النکاح) ’’کیا وہ تمھی لوگ ہو جنھوں نے اس قسم کی باتیں کی ہیں۔ خداکی قسم میں تم سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہوں اور اس کی نافرمانی سے احتراز کرتا ہوں تاہم میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں، راتوں کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ جو میرے طریقے سے ہٹ گیا اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔‘‘
رہبانیت کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان مؤثر تعلیمات اور آپ کے اسوۂ حسنہ کے نتیجے میں اسلام کے ابتدائی دور میں شجر رہبانیت کو برگ و بار لانے کا موقع نہیں مل سکا۔ جب بھی کسی کے اندر اس قسم کا میلان پیدا ہوا تو خود صحابہ نے اس کو سختی کے ساتھ روکا۔حضرت ابودرداء ایک مشہور عابد شب زندہ دار صحابی گزرے ہیں۔ رسول اللہ نے ان کے اور حضرت سلمان فارسی کے درمیان مواخات کا رشتہ قائم کیا تھا۔ ایک بار سلمان ان کی ملاقات کو گئے تو دیکھا کہ ان کی بیوی معمولی کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ پوچھا کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے کہا، تمھارے بھائی ابودرداء کو دنیا سے کوئی رغبت نہیں ہے۔ جب ابودرداء آئے تو سلمان کے لیے کھانا لگایا گیا۔ انھوں نے سلمان سے کہا، تم کھاؤ میں روزے سے ہوں۔ انھوں نے کہا، میں اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک تم بھی شریک نہ ہو گے۔ چنانچہ وہ شریک طعام ہوئے۔ جب رات ہوئی تو ابودرداء نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ سلمان نے کہا، ابھی سو رہو، وہ مان گئے۔ وہ دوبارہ اٹھے تو کہا سو جاؤ۔ جب رات کا آخری پہر آگیا تو سلمان نے ان کو بیدار کیا اور کہا اب نماز پڑھو۔ چنانچہ دونوں نے نماز ادا کی۔ اس کے بعد سلمان نے کہا، اے ابو درداء! تمھارے رب کا بھی تم پر حق ہے، تمھاری جان کا بھی تم پر حق ہے اور تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ اس لیے ہر حق دار کا حق اس کو ادا کرو۔ دوسرے دن ابودرداء نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور ساری باتیں بیان کیں۔ آپ نے فرمایا، سلمان نے سچ کہا۔ ۳۷
ریاضات شاقہ
ہر قوم کے غالی مذہبی لوگوں کا یہ خیال رہا ہے کہ عبادت میں جتنی زیادہ جسمانی مشقتیں اٹھائی جائیں اور جسم کو اذیت میں مبتلا کیا جائے اتنا ہی زیادہ اللہ خوش اور راضی ہوتا ہے۔ اس سے پہلے عیسائی رہبان کی ریاضات شاقہ کا حال آپ پڑھ چکے ہیں۔ بعض مسلم صوفیاء بھی عیسائی رہبان کے نقش قدم پر چلے ہیں۔۳۸ لیکن اسلام کی تعلیم اس معاملے میں نہایت سادہ، آسان اور مطابق فطرت ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
مَا جَعَلَ عَلَیْْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ.(سورۂ حج: ۷۸) ’’اور اس نے دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔‘‘
ایک دوسری جگہ وضو اور تیمم کے ذکر کے بعد ارشاد ہوا ہے:
مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَلٰکِنْ یُرِیْدُ لِیُطَہِّرَکُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.(سورۂ مائدہ: ۶) ’’اللہ یہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی ڈالے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کرے اور تم پر اپنی نعمت تمام کرے تاکہ تم اس کے شکرگزار بنو۔‘‘
ماہ صیام میں بیماری اور سفر کی حالت میں روزے کا حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا