نبئ کریم ﷺ کا لایا ھوا اللہ کا دین تمام نوعِ انسانیت کے لئے یکساں تھا ، اور یہ دین ظاھر و باھر تھا سینہ بسینہ نہیں تھا ،، جس نبئ ﷺ کے حجرے کے اندر کی زندگی اور نہانے کا طریقہ کار تک معلوم ھے ، اس نبی ﷺ پر یہ الزام رکھنا کہ وہ کوئی خاص تعلیم اپنے صرف دو صحابہ کو دے گئے تھے ،، جو صرف ان دونوں سے ھی آگے چلی ھے شاید چودہ صدیوں کا سب سے بڑا جھوٹ ھے ،، اسلام سیدھی سادی اور عملی تعلیمات کا دین ھے جو ایک مومن کو 24 گھنٹے کی روزمرہ زندگی کے بارے میں ھدایات دیتا ھے ،، نہ جبرائیل نے کچھ چھپایا کیونکہ رب انہیں امین کہہ رھا ھے ،، اور نہ ھی نبئ کریم ﷺ نے کچھ چھپایا کیونکہ اللہ ان کو بھی امین کہتا ھے ،،،،
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے تصوف کے سلسلے چلانا بہت بڑا فراڈ ھے ،، عشرہ مبشرہ میں سے باقی آٹھ روحانی خلافت میں فیل کیوں ھو گئے ؟ عمرؓ میں کیا خامی تھی کہ وہ نبئ پاک کے تصوف کے خلیفہ مجاز نہ بن پائے ؟ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو نبئ کریم ﷺ نے دو بیٹیاں دے دیں مگر خلعتِ خلافت نہ بخشی اور جن کو نبی ﷺ نے خلافتِ مجازی کے قابل نہ سمجھا ان کو مسلمانوں نے خلیفہ راشد کیسے بنا لیا،،، ؟ یہ سلسلے ایک چیستاں کے سوا کچھ نہیں ،تصوف بہت قدیم نفسیاتی علم ھے ،، سائیکومینٹری کہلاتا ھے ،ھندوؤں میں یوگا کہلاتا ھے اور وھی سات پاؤر پؤائنٹس ھندو یوگا میں بھی موجود ھیں جو ھمارے یہاں سات لطیفے کہلاتے ھیں ، وھی پاسِ انفاس ھندو یوگا کی تعلیم میں بھی موجود ھے ،، خواہ مخواہ صحابہ کو اس میں ملوث کرنے کی آخر ضرورت ھی کیا ھے ؟ ھم نے بھی اسے سیلف کنٹرول کے لئے ایک علم سمجھ کر سیکھا ھے ،،،
مگر ھمارے یہاں جس رسم میں علماء شامل ھو جاتے ھیں وہ فوراً دین بن جاتی ھے ،علماء نے باطنی علوم کے نام پہ اس علمِ یوگا کو سیکھ کر اسے دین بنایا اور فورا اس کا سلسلہ نسب جا حضرت علیؓ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ سے جا جوڑا ،، جس کی کوئی دلیل ان حضرات کے پاس نہیں ھے ، یہ زیاد ابن سمیہ کے ابوسفیانؓ سے منسوب کرنے کے فعل سے بھی بڑھ کر شنیع فعل ھے ،،