ارسطو کی شخصیت کے رعب داب کا یہ عالم تھا کہ اس کے قول کے بعد لوگ کسی اور چیز کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے اگرچہ وہ ان کے سامنے پڑی ہو۔
ارسطو کا کہنا یہ تھا کہ عورت کے دانت مرد سے کم ہوتے ہیں۔ ہر گھر میں عورتیں ماں ، بیٹی، بہن اور بیوی کی صورت میں دستیاب تھیں مگر ارسطو کی علمی ہیبت نے کسی کو یہ سوچنے نہ دیا کہ وہ گھر کی کسی خاتون کے دانت ہی گن لے، خود ارسطو کی دو بیویاں تھیں مگر اس نے بھی دانت گننے کی زحمت نہیں کی۔ پورے سو سال دنیا اس قول پر اندھا اعتماد کر کے چلتی رہی۔
اس کو کہتے ہیں تقدس کا المیہ۔
یہ لوگوں کو صم بکم عمی بنا دیتا ہے، یہی واردات اسلام کے ساتھ ہوئی ہے،جہاں اگرچہ ہر گھر میں قرآن تو موجود نہیں تھا لیکن کم از کم علماء کو حفظ کی صورت دستیاب تو تھا، مگر محدثین کے تقدس کا رعب داب ان پر اس قدر حاوی تھا کہ انہوں نے کبھی سوچا تک نہیں کہ بخاری و مسلم کی بعض روایات قرآن کی آیات کے ایک سو اسی ڈگری مخالف ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ روایات پہلے قرآن کو پڑھ کر پھر جان بوجھ کر اس کے خلاف تیار کی گئی ہیں۔ محدثین پر اپنے استاد کا رعب اور ادب اس قدر حاوی تھا کہ بقول یحییٰ ابن معین، عبدالرزاق صنعانی شیعہ کی بجائے اگر مرتد بھی ہو جائے تو ہم اسکی روایات کو نہیں چھوڑیں گے۔ وہ لوگ بھی یہی سوچتے تھے کہ اتنے نیک لوگ بھلا ایسی بات کیسے روایت کر سکتے ہیں کہ جو قرآن کے خلاف ہو۔ لہذا قرآن کی تاویل کا رستہ کھولا گیا،کہ قرآن مجید کی آیات کا ایسا مطلب لیا جائے جس میں اس خلاف قرآن روایت کے لئے اسپیس نکل آئے۔ اگرچہ وہ تاویل خود قرآن کی بنیادی تعلیم کے خلاف ہی کیوں نہ ہو بس وہ ہماری روایت کو جگہ دے دے۔ یہ واردات آج بھی جاری ہے کہ زچہ و بچہ میں سے ہم نے حدیث کو بچانا ہے، قرآن کو بچانے کا ذمہ خدا نے خود لے رکھا ہے خدا جانے اور قرآن جانے۔