ھم 1952 میں واہ کیمپ سے آہدی گاؤں منتقل ھوئے ،، ھم چونکہ کشمیری مہاجر ھیں لہذا کچھ عرصہ میرپور کیمپ اور پھر واہ کیمپ میں دھکے کھانے کے بعد ھمیں اس گاؤں میں الاٹ منٹ ھوئی ،، ھم سے پہلے تین مہاجر پارٹیوں کو گاؤں والے تنگ کر کے بھگا چکے تھے ،، ھمارے آنے سے پہلے ھمیں الاٹ شدہ مکان لوٹ لئے گئے تھے ، برآمدے اور سیڑھیوں کے چھت اتار لئے گئے تھے،، اور مکانات و زمینوں پر لوگ قابض ھو چکے تھے ، فی راشن کارڈ 100 کنال زمین الاٹ کی گئ تھی ، ایک کارڈ پر 5 یا 6 بندے ھوتے تھے ،، قبضے مقدموں سے چھوٹتے ھیں اور مقدمے پیسے سے ھوتے ھیں ،، اور پیسے ھمارے پاس تھے نہیں ،، دادا جان اور ان کی کھوتی 24 کلومیٹر کا سفر کر کے تاریخ پر جاتے اور ھمارا وکیل بھی فریقِ مخالف سے مل جاتا ، یوں ھم مقدمہ ھار جاتے ،، آخر تک ھمیں پوری زمینیں نہیں ملیں ،، پھر اللہ نے ھمیں زمینوں سے بے نیاز کر دیا ،،،،، مگر اصل مسئلہ گاؤں والوں کی شرارت تھی،، ھمارے ایک گھر میں ایک بڑھیا کو بٹھا دیا گیا ،شرط یہ تھی کہ جب تک یہ زندہ ھے آپ نے اس کو پالنا ھے ،، وہ جنت نشین ھوئیں تو ھمیں مکان کا پورا قبضہ ملا ،، ھماری الاٹ شدہ حویلیوں میں مقامی لوگوں نے اپنے ڈھور ڈنگر باندھ لیئے تھے ،، بڑی ماریں کھا کھا کر قبضے لئے ،، دادی کسی کام سے گھر سے باھر نکلیں تو پڑوسیوں نے مکان کو تالا لگا دیا ،،،،، دادی نے اپنی تین ماہ کی بچی روشندان سے اندر پھینک کر شور مچا دیا کہ میرے بچے اندر ھیں اور ان لوگوں نے تالے لگا دیئے ھیں،، نمبردار نے آ کر ان کو توہ لعنت کر کے تالا کھلوایا ،،، ایک صاحب ھماری 10 کنال زمین پہ ھل چلا رھے تھے ،ھماری دادی نے دونوں بیلوں کا راستہ روک کر نتھ سے پکڑ کر دونوں بیلوں کو کھڑا کر لیا وہ ماشاء اللہ 6 فٹ 4 انچ قد کی تھیں ، اسکے بعد وہ ھل والے کی طرف بڑھیں تو وہ ھل چھوڑ کر فرار ھو گیا ،،، رات کو ھم صحن میں سوتے تو دو بھائی رات تیسرے پہر پتھروں کی بارش کر دیتے ،آخر ابا جان نے کسی کو بتائے بغیر اپنے پیٹ میں چھری مار کر شور مچا دیا ،، پرچہ ان دونوں بھائیوں پر کرایا گیا اور تھانے میں ان کی خوب لتر پریڈ ھوئی جس کے بعد افاقہ ھوا ،، ایک صاحب اپنے آپ کو پٹواری سمجھتے تھے ،جو ھماری خواتین پہ آوازے کستے تھے ،، ان پر پرچہ دیا گیا ،، بڑی بڑی پونچھیں تھیں،،، تھانیدار نے مونچھوں کے بل ھی لٹکانے کا حکم دیا تو ھماری خواتین کے قدموں میں گر کر معافی مانگی تب جا کر جان چھوٹی ،،
ایک طرف بڑے اپنی بقا کی جنگ لڑ رھے تھے تو دوسری طرف بچوں کو بھی گوریلہ وار کا سامنا تھا ،،،،،، جو مونگ پھلی وہ چنتے ایک جوان اس کو چوری کر لیتا ،، جہاں بھی وہ مونگ پھلی دفن کرتے واپسی پہ اس جگہ سے چوری ھو چکی ھوتی ،،،،،، بچوں کو اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنے میں کوئی مشکل نہیں ھوتی – آخر تنگ آ کر چاروں چچا نے کارگل پلان بنا لیا ،، صبح صبح سارے کھیتوں میں پہنچ گئے اور ایک گڑھا کھود کر چاروں نے باری باری حسبِ توفیق اپنے آپ کو چنڈھ چھاڑ کر اس میں فارغ کیا ،، آپ کو پتہ تو ھے پاکستانی واحد قوم ھے جو پیٹرول بھی گاڑی کو چھنڈ چھاڑ کر ڈلواتے ھیں تا کہ وہ ٹینکی کے کونے کونے میں پہنچ جائے اور ٹینکی کا کوئی کونا خالی نہ رہ جائے ،،،،،،،،،،،،،،،،، جب تک وہ فارغ ھوتے مجرم بھی پہنچ گیا تھا ،، انہوں نے اس گڑھے میں تھوڑی مٹی ڈال کر 25، 30 مونگ پھلی کے دانے اس پہ ڈالے ،، پھر تھوڑی سی مٹی ڈالی پھر 15، 20 دانے ڈالے پھر مٹی ڈالی پھر 10 ، 15 دانے ڈال کر اسے مٹی سے بھر دیا اور بے فکری سے مونگ پھلی چننے لگ گئے ،، تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ باری باری اس گڑھے کے پاس آ کر بیٹھتے اور تھوڑی سے مٹی کھود کر یوں ظاھر کرتے جیسے مونگ پھلی دفن کر رھے ھیں ،، تا آنکہ ملزم کے جانے کا وقت ھو گیا اور وہ منافع کمانے آئستہ آئستہ متعلقہ ٹریپ شدہ گڑھے کے قریب قریب ھونے کی کوشش کرنے لگا ،، میرے چاروں چچا دور سے دور ھوتے جا رھے تھے کہ ملزم اطمینان کے ساتھ دونوں ھاتھوں سے دولت سمیٹ سکے ،،،،،،،،،،،،،،،،، ملک صاحب نے تھوڑی سی مٹی ھٹائی تو چند دانے نظر آئے ،، دل کو اطمینان ھوا کہ ” جا اینجاست ” مزید کھدائی پہ اور دانے ،، پھر کھدائی مزید دانے ،، اس کا یقین حق الیقین کے درجے کو پا چکا تھا ،،،،،،، اس نے دونوں ھاتھ جوڑ کر مارے اور چھپاک کر کے وہ آدھے بازو تک غلاظت کی دلدل میں دھنس گئے،،،،،،، جونہی اس نے بازو باھر کھینچ کر ان کا جائزہ لیا اور میرے چچاؤں کو لوٹ پوٹ ھوتے دیکھا تو پاگل ھو گیا ، اسے پہلے بھی مرگی کا مرض تھا اس دن تو وہ مرگی کے دورے میں اپنے ھی گرد گول دائرے میں چکر کاٹ کاٹ کر گر گیا ،، اور مونگ پھلی چوری ھونا بند ھو گئ ،،،،،