جس سماع کا جواب نہ آئے اور وہ جواب کوئی مسئلہ حل نہ کرے تو اس سماع کا مطلب نبی کے بعد نبی ﷺ کی امت کو فتنے میں ڈالنے کے سوا اور کیا ھے ؟ (( ان تدعوھم لا یسمعوا دعاءکم ولو سمعوا ما استجابوا لکم ویوم القیامۃ یکفرون بشرککم ولا ینبئک مثل خبیر ” فاطر-14 )) اگر تم ان کو پکارو تو یہ تمہاری پکار سن نہیں سکتے اور اگر سن سکتے تو بھی تمہاری کوئی طلب پوری نہ کر سکتے، اور قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے، اور یہ ( قبر اور آخرت کے احوال والی باتیں ) تمہیں باخبر ھستی سے زیادہ بہتر کوئی اور نہیں بتا سکتا فاطر آیت نمبر 14 ،،کیا سماعِ موتی پر ایمان لانا نبی کریم ﷺ کے صحابہ کے دور میں بھی ضروری تھا،، ؟ صرف اس قسم کی احادیث کی بنیاد پر قرآن کو رد کر دینا کہ مردہ جنازہ پڑھنے والوں کے قدموں کی آواز سنتا ھے ! کیا حضورﷺ نے کسی مردے کی تخصیص کی تھی کہ نبی سنتا ھے صحابی ؓ نہیں سنتا یا صحابی سنتا ھے عام امتی نہیں سنتا ، جب تخصیص ثابت نہیں تو پھر سارے مردے قدموں کی آواز سنتے ھیں ،، پھر طاھر القادری سوالوں کا جواب تلقین کر کے کونسا برا کر رھا ھے جو دیوبندی حضرات ان پر تنقید کرتے ھیں ؟ پھر مزاروں پر دعا مانگنا شرک کیسے ھو گیا جبکہ وہ مردے سے دعا اور سفارش کی درخواست ھی کر رھے ھیں ،،اور جب میں بریلوی تھا اور ننگے قدموں مزار پہ جایا کرتا تھا ، اور قبر کے سرہانے کھڑے ھو کر اسی سماع موتی والی حدیث کے عقیدے کے مطابق یہ سمجھ کر کہ یہ ولی اللہ میری التجا سن رھا ھے بلبلاتا تھا کہ حضرت اللہ سے میری بات کریں ، میں تو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں ھوں تو اللہ کی قسم کبھی کہیں ایک لحظے کے برابر بھی میرے دل میں ان کو دوسرا خدا سمجھ کر مانگنے کا کوئی تصور دور دور تک نہیں ھوتا تھا ، نہ آج کوئی بریلوی صاحب قبر کو الہ مان کر ان سے مانگتا ھے ، پھر میں مشرک کیوں تھا ؟؟ کیا زندہ سے دعا کرانا حدیث سے ثابت نہیں ؟ پھر اس مردے سے دعا کے لئے کہنا جو بقول آپ کے باھر والے کی بات سنتا ھے کیا زندہ ھی سے دعا کرانے کے مترادف نہیں ھے ؟ سماع یا تو سب مُردوں کے لئے ھے یا کسی کے لئے بھی نہیں ھے ،، اگر مزاروں پر حاضری اور دعا سے پیچھا چھڑانا ھے تو پھر قرآن کے عقیدے ” انک لا تسمع الموتی ” پر ایمان لانا ھو گا ، اس لئے کہتا ھوں کہ دیوبندیت میں آ کر ھی سمجھ لگی ھے کہ دیوبندی بھی 90٪ بریلوی ھی ھیں کیونکہ وہ بھی سماع موتی اور قبروں سے استفادہ کے قائل ھیں ،، ساری لڑائی اکابر کی ھے،، بریلوی چار دیوبندی اکابر کی چند تحریروں سے صرفِ نظر کر لیں یا دیوبندی بریلویوں کی مزاروں پر حاضری کو اپنے سماع موتی کے عقیدے جیسا سمجھ لیں تو یہ ٹوٹی ھوئی امت کافی حد تک ایک ھو سکتی ھے ،فقہی اختلافات جائز اور قابلِ فہم بھی ھیں اور قابلِ برداشت بھی ،،
========================================================================
#توحید #۱سلام #قرآن