توھین رسالت قانون کو آج تک کسی نے نہیں کہا کہ ختم کیا جائے خصوصاً جب کہ برطانیہ سمیت دیگر کئ یورپی ممالک میں بھی یہ قانون لاگو ھے ،، جس نے بھی کہا ھے یہی کہا ھے کہ اسے یورپ کی طرح ھی شفاف بنایا جائے اور وہ اتھارٹی صاف صاف مقرر کی جائے جو اس قسم کے مقدمے کے اندراج کی مجاز ھو ،نیز اس کے لئے عدالتی پروسیجر بھی باقی مقدموں سے الگ ھو جس طرح غداری کے مقدمے میں ھے ،، کہ اس کو صرف ریاست درج کرا سکتی ھے ،،
قانون کے خاتمے کا آج تک کسی نے نہیں کہا ،،، قوم کو غلط گائیڈ کیا جاتا ھے ،، ھمیشہ جس نے بھی کہا اس نے اس کے پروسیجرز میں تبدیلی کی بات کی ھے تا کہ ھر ایرا غیرا اٹھ کر مقدمہ درج نہ کرا سکے ،، جس طرح غداری کا مقدمہ صرف ریاست دائر کر سکتی ھے ، سپریم کورٹ بھی درج نہیں کر سکتی ،، اسی طرح اس سلسلے میں بھی کوئی اتھارٹی نامزد ھونی چاھئے کہ فلاں ریاستی عہدیدار تحقیق کے بعد مقدمے کا اندراج کرا سکتا ھے ،، ایک ایسا مقدمہ جو کہ ناقابلِ ضمانت ھے اور جس کی سزا موت کے سوا کچھ نہیں ھے ،، وہ ھر ھجوم گھیراؤ کر کے درج کرا سکتا ھے ،، یہ تو سرا سر بدمعاشی ھے ، جو مخالف ھوا اسے نامزد کر دو توھین میں ،، اور پھر توھین کی بھی اپنی اپنی من مانی تشریح ھے ،، ریاست اس مخمصے سے نکلنے کا کوئی رستہ نہیں بنا سکی ،جنہوں نے اس وقت قانون بنایا تھا غالباً ووٹ لینے کے لئے جھٹ پٹ منظور کرا لیا تھا ،، سب سے پہلے توھین کی غیر متعارض تشریح ھونی چاھے ،جس طرح قتل عمد کی تشریح موجود ھے ، اس پر عدالتی کمیشن بنایا جائے جس میں تمام جید علماء کا پینل بنا کر سب کی متفقہ رائے لی جائے ! پھر توبہ یا معافی کا معاملہ طے کیا جانا چاھئے ،، کہ کون اس کو رد و قبول کر سکتا ھے ، اگر مولوی صاحب کے حوالے کیا گیا تو یہ تو قیامت تک راضی نہیں ھونگے،، اس کے لئے بھی عدالتی اختیار واضح کیا جائے جو جان لینے کی مجاز ھے وھی معافی نامہ رد و قبول کرنے کی مجاز ھے !