اللہ پاک نے جب فرشتوں سے فرمایا کہ میں نئی مخلوق بنانے جا رھا ھوں تو انہوں نے پلٹ کر کہا کہ پھر وھی کشت وخون اور فساد شروع ھو جائے گا جو سابقہ ھر مخلوق کی تخیلق کے بعد دیکھنے میں آتا تھا، اب اس کی ضرورت بھی کیا ھے،جبکہ ھم تیری تسبیح و تحمید کو ھیں ناں،، فرمایا کہ جو میں جانتا ھوں وہ نہ تم جانتے ھو نہ جان سکتے ھو اس لیئے کہ تمہارے اندر اس بات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی نہیں، آخر تین سال کے بچے کو کوئی کیا سمجھائے کہ بلوغت کیا ھوتی ھے اور شادی کیا ھوتی ھے ؟؟ فرشتوں کا خیال تھا کہ تسبیح و تحمید ھی غایتِ تخلیق ھے اور فرشتوں جیسی معصوم مخلوق جو تعداد میں اس قدر زیادہ ھے کہ 70 ھزار فرشتوں کی ٹولی صبح بیت المعمور میں طواف کے لئے داخل ھوتی ھے اور 70 ھزار کی شام کو ، جو ٹولی پہلی بار داخل ھوئی تھی قیامت تک پھر اس کی باری نہیں آنی،، اب تسبیح وتحمید کے لئے مزید کسی مخلوق کا بکھیڑا ان کی سمجھ میں نہیں آرھا تھا، مگر تسبیح اور تحمید کی اپنی اپنی قسمیں ھیں، وہ جبر کی تسبیح تھی جو فرشتے کر رھے تھے اور کر رھے ھیں، اس کے سوا وہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتے،یہ تسبیح ھی ان کی زندگی اور زندگی کا سامان ھے، مگر اللہ پاک کی انا اس پر مطمئن نہیں تھی ،وہ ایسی محبت چاھتی تھی جو خود اختیاری ھو،ایسی مخلوق جو چیزوں کے حسن و قبح کو چھانٹ سکتی ھو،جو اچھائی اور برائی سے یکساں واقف ھو،وہ جب رب کو ھر برائی اور عیب سے پاک گردانے تو اس کی حقیقت سے بھی آگاہ ھو، وہ جب ساری خوبیاں اپنے رب میں بیان کرے تو ان خوبیوں کی حقیقت سے بھی آگاہ ھو،، اللہ صرف مخلوق نہیں اپنا اک رزادار پیدا کرنا چاھتا تھا،جس میں وہ اپنی صفات کا ھی کچھ فیصد رکھنا چاھتا تھا تا کہ وہ اس حقیقت سے کُلی طور پر آگاہ ھو کہ اس کا رب اس سے حقیقت میں چاھتا کیا ھے ! انسان محبت کی تخلیق ھے،کائنات کی کسی چیز کے بارے میں اللہ پاک نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ ان سے محبت کرتا ھے ،، وہ صرف انسان سے محبت کرتا ھے،کیونکہ انسان ھی محبت کرنا بھی جانتا ھے،لہذا کسی اور مخلوق کے بارے میں نہیں فرمایا کہ وہ اللہ سے محبت کرتے ھیں،، صرف انسان کے بارے میں فرمایا کہ وہ اللہ سے نہ صرف محبت کرتے ھیں بلکہ شدید محبت کرتے ھیں ! محبت کی شدت کو ماپنے کے کے لئے پیمانہ چاھئے تھا ،امتحان چاھئے تھا،،امتحان تب تک نہیں ھوتا جب تک دوسرا سرا بھی کسی ویسی ھی چیز کے ھاتھ میں نہ ھو، آپ نے دھاگے کی مضبوطی کا اندازہ کرنا ھوتا ھے تو ایک ھاتھ سے دھاگہ کھینچ کر اس کی مضبوطی کا امتحان نہیں لیا جا سکتا ،ایک ھاتھ اس کو اپنی طرف کھینچتا ھر اور دوسرا ھاتھ اپنی طرف کھینچتا ھے اور امتحان دھاگے کا ھو جاتا ھے،رسی کشی میں ایک ٹیم رسہ کھینچ کر کبھی نہیں جیت سکتی جب تک کہ دوسری ٹیم بھی زور نہ لگائے،، لہذا انسان کو دوسری طرف سے کھینچنے والی محبتوں میں گھیر دیا گیا،محبتوں کی رسی کو مختلف رشتوں کے کھونٹوں سے باندھ دیا گیا اور پھر فرمایا ان رسیوں کو توڑ کے آ میری طرف ، ان کھونٹوں کو اکھاڑ کے آ میری طرف تا کہ پتہ چلے تو کس سے زیادہ محبت کرتا ھے،، بیوی کے آتے ھی جب محبت کی رسی کا ایک سرا ایک فریق اور دوسرا سرا دوسرے فریق کے ھاتھ میں آتا ھے تبھی گھر میں میچ شروع ھوتا ھے،، یہ محبت کی شدت کا امتحان ھے، ماں بیوی سے محبت سے نہیں روکتی مگر کہتی ھے شدید محبت مجھ سے ھونی چاھئے،، ماں ،بہنوں سے نارمل محبت پر بیوی کو بھی کوئی اعتراض نہیں،بس وہ چاھتی ھے کہ آخری دستخط وہ کیا کرے تب کوئی فیصلہ ھونا چاھئے،،یوں انسان اللہ اور اس کی محبت کو بھول کر ان ضمنی محبتوں کی لڑائی میں ھی جان اور ایمان ھار جاتا ھے،یہ وہ سائڈ ایفیکٹ ھیں جو ان محبتوں کے انسان کو بھگتنا پڑ رھے ھیں،، اور اللہ پاک ان سے بخوبی واقف تھا اور ھے،مگر فرشتوں کو پتہ نہیں تھا،، اللہ پاک نے فرمایا ،زین للناس حب الشہوات من النساء و البنین والقناطیرالمقنطرۃ من الذھب والفضۃ والخیل المسومۃ والانعام والحرث ، ذٰلک متاع الحیٰوۃ الدنیا ! انسان کے دل میں کھبو دی گئ محبتیں عورتوں کی اور اولاد کی اور سونے چاندی کے ڈھیروں کی اورنشان زدہ گھوڑوں اور چوپایوں اور کھیتی باڑی کی،، یہی سامانِ دنیا ھے جو امتحان کی اسٹیشنری ھے ! اتنی محبتوں میں باندھ کے کہا اب ان سے نکل کر مجھ سے لپٹ،،ان کے حق بھی اس طرح ادا کر کہ رسی کی گرہ کُھلتی چلی جائے،حق تلفی سے گرہ خراب ھو کر پھنس سکتی ھے،ان تمام محبتوں کا حق میرے حکم کے مطابق ادا کر! اور پھر ان کانٹے دار محبتوں میں سے صحیح سالم نکل کے آ جا،، یہ ھے میری محبت کا امتحان،جب تو ان محبتوں کے گھیرے میں ھو تو اس بھری محفل میں بھی تیرا دل میری طرف لگا ھو،، خلوت در جلوت ھو،بیٹھا تو فرش پر ھو مگر دل تیرا عرش پر ھو، تیرے دل میں میری یاد کا ٹِکــر ھر وقت اسی طرح چلتا رھے جس طرح نیوز چینل پر نیچے خبر کی پٹی ھر وقت چلتی رھتی ھے، ھتھ کار ول اور دل یار ول ھو،، یہ مت کہنا کہ مجھے پتہ نہیں یہ کیسے ھوتا ھے ! یہ بھی مت کہنا کہ مجھے یہ تجربہ بھی نہیں کہ یہ خلوت در جلوت کیا ھوتی ھے اور ھــتھ کار ول اور دل یار ول کیسے ھوتا ھے !! میں نے تجھے یہ سب کچھ مجاز میں چکھا دیا ھوا ھے،مجازی محبت میں تو دیکھ چکا ھے کہ کتاب کے ھر صفحے پر محبوب کا نام اور تصویر کیسے نظر آتی ھے،، وہ تجربہ تیرے خلاف اتمام حجت ھے، تجھے ھر محبت کا ذائقہ چکھایا گیا ھے،یہ فرشتوں کو نہیں چکھایا جا سکتا تھا،، جبریل کو بیوی کی محبت کا کوئی تجربہ نہیں،، والدین کی محبت کا کوئی تجربہ نہیں، اسے اولاد کی محبت کا کوئی تجربہ نہیں ، اسے سونے چاندی کی
محبت کا کوئی تجربہ نہیں،، اس لئے جبریل تریے جیسا نہیں، اس لئے جبریل جیسوں سے آسمان بھر جائے تو بھی وہ تیرے جیسے نہیں ھو سکتے کیونکہ ان کے پاس محبت کے قدموں میں رکھنے کے لئے کسی محبت کا نذرانہ نہیں،، تمہیں پتہ ھے ابراھیم ابوالانبیاء کو خلیل بنائے جانے کا فیصلہ کب ھوا تھا،، شاباش کا سرٹیفکیٹ کب ملا تھا،، گریجویشن کب ھوئی تھی،خلعت سے کب نوازا گیا تھا، ؟؟؟؟؟ جب انہوں نے اپنے پہلوٹھی کے بیٹے کو منہ کے بل لٹا کر چھری اس کی گردن پر رکھ دی تھی کہ ” مالک میں اسماعیل سے پیار کرتا ھوں مگر تیرے جتنا نہیں،،، یہ قربانی سارے فرشتے مل کر بھی نہیں دے سکتے تھے، سلامٓ علی ابرھیــــــــم ! ھم نے تم سے عہد لے کر تمہیں زمین پر اتارا،، پیدا ھوتے ھی تیرے اوپر خول چڑھ گئے ! پہلا خول قوم کا،تو جس کے گھر اترا اس گھر والے کی قوم تیری قوم قرار پائی،، تو جس ملک میں اترا اس ملک کی قومیت کا خول تیرے اوپر چڑھ گیا، ماں باپ کا خول،چچاؤں اور پھوپھیوں کا خول ،دادا دادی کا خول،نانا نانی کی خول،ماموں اور خالاؤں کا خول،،بیوی کا خول، اولاد کا خول ،، اب حکم ھوا اس مدت کے اندر ان خولوں میں سے نکلو ورنہ اندر ھی مر جاؤ گے،،آپ کو ایسے سمجھ نہیں لگے گی !
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، خول کے قیدی ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مرغی کے انڈے کے چپٹے سرے میں آکسیجن کا ایک بلبلہ اللہ نے رکھا ھے،مرغی بغور دیکھ دیکھ کر اس سرے کو اوپر کرتی رھتی ھے،آپ نے اسے چونچ سے انڈوں کو کریدتے ھوئے دیکھا ھو گا ،اس وقت وہ اصل میں یہی کام کر رھی ھوتی ھے،میرے خالق نے مرغی کو بھی سائنسدان بنایا ھے،بچے کا منہ اوپر کی جانب بنتا ھے، اگر تو انڈے کاچپٹا رخ اوپر رھے تو بچے کا منہ ٹھیک اس بلبلے کی طرف ھوتا ھے،اور اس کے پاس مہلت ھوتی ھے کہ وہ آکسیجن کے اس بلبلے کے ختم ھونے سے پہلے پہلے اپنے خول کو توڑ کر باھر نکلے،باھر آکسیجن کا سمندر اس کے انتظار میں ھے،لیکن اگر وہ اس بلبلے کو ھی زندگی سمجھ کر استعمال کر لے اور خول کو نہ توڑے تو پھر اندر ھی مر جاتا ھے،، بعض دفعہ بچہ اندر سے جب بولتا اور فریاد کرتا ھے تو ماں باھر سے چونچ مار کر خول کو توڑ دیتی ھے،مگر پکار ضروری ھے،، جو بندے دنیا کی زندگی ختم ھونے سے پہلے پہلے ان خولوں کی گرفت سے آزاد ھو جائیں انہیں دائمی زندگی مل جاتی ھے،، جو مخلص اور صادق الطلب ھوتے ھیں، اور گڑگڑا کر رب کو پکارتے ھیں وہ ان خولوں سے نجات میں اس کی مدد فرماتا ھے،،فرمایا جو ھماری طلب میں مشقت برداشت کرتے ھیں ھم یقیناً انہیں اپنی راہ سجھاتے ھیں ! خولوں کی گرفت سے آزادی کا مطلب یہ ھے کہ ان کے تقاضے اللہ کے حکم کے مطابق پورے کرے، کسی رشتے کی محبت میں دوسرے رشتے کی حق تلفی نہ کرے ،، پھر تو وہ رشتوں کے خول سے آزاد ھے،،لیکن اگر وہ ایک رشتے کی محبت میں دوسرے رشتے کے حقوق میں ڈنڈی مارتا ھے اور اللہ کا مقرر کردہ حصہ اس رشتے کو نہیں دیتا ،، تو وہ اس رشتے کا اسیر ھے، اللہ کا آزاد بندہ نہیں ھے،یہ حصہ محبت میں بھی ھے ،میل جول اور لین دین میں بھی ھے، اللہ پاک قیامت کے دن فرمائیں گے،جس نسب و قوم کا کوئ رشتہ نہیں ھو گا،، سورہ المؤمنون میں ارشاد فرمایا،، جس دن صور میں پھونکا جائے گا ،اس دن انسانوں کے درمیان نسب کا کوئی رشتہ نہیں ھوگا اور نہ وہ اس کے بارے میں پوچھے جائیں گے کہ تم کس کے بیٹے اور کس قوم سے تعلق رکھتے ھو! ارشاد فرمایا جائے گا،، ولقد جئتمونا فرادی کما خلقناکم اول مرۃٍ وترکتم ما خولنا کم ورآء ظہورکم ! آج تم ھمارے پاس اکیلے ھی آئے ھوجس طرح ھم نے تمہیں اکیلا پیدا کیا تھا اور جو خول ھم نے تم پر چڑھائے تھے وہ سب پیچھے چھوڑ آئے ھو، مگر کاش انسان ام خولوں کی حقیقت سے وقت پر آگاہ ھو جائے، اللہ پاک نے انسان کو دو صلاحیتوں سے مالا مال کیا ھے اور انسانوں ان دو صلاحیتوں کو ھی غلط استعمال کر کے اپنی بربادی کا سامان کیا ھے ! اول علم الاسماء جو صرف اور صرف انسان کا خاصہ ھے،اور رب تک پہنچنے کی سیڑھی ھے،اسی لیئے اللہ پاک اسے بار بار اس زینے کی طرف متوجہ کرتا ھے کہ یہ مجھ تک پہنچانے والے نشان ھیں ،، ان زینوں کو عرش تک رسائی کی بجائے پاتال میں پہنچے کا ذریعہ بنایا،،دوسرا قوت متخیلہ جو تخلیق کی صفت کا پہلا مرحلہ ھے،ھر چیز وجود سے پہلے خیال میں آتی ھے،پھر تصویر کی صورت پکڑتی ھے پھر علم الاسماء آگے بڑھ کر اس کو میٹیریل فراھم کرتا ھے اور خلیفہ ٹاؤر اٹھا کھڑا کرتا ھے،، اللہ پاک تک رسائی کے لئے جس امیجینیشن کی قوت کو استعمال کرنا تھا ،، انسان نے اسے شیخ چلی بننے میں استعمال کیا،، خواھشات اور تمناؤں کے سراب اسی قوت متخیلہ کے غلط استعمال سے ھی وجود میں آتے ھیں ،، شیطان نے انسان میں ان صلاحیتوں کے ادراک کے ساتھ ھی اللہ کو چیلنج دے دیا تھا کہ ” ولامنیۜھم ولاضلنھم ،، میں ان میں تمنائیں پیدا کروں گا پھر ان تمناؤں کی لالچ میں انہیں تیری راہ سے پھیر لے جاؤں گا ،، انسان ان تمناؤں کو بالکل منہ کے آگے پاتا ھے،اور سمجھتا ھے یہ تو میری دسترس میں ھیں، سمجھانے والے بےوقوف اور حاسد ھیں، اور پھر اک فرضی منافعے کے لئے اللہ سے بغاوت پر آمادہ ھو جاتا ھے،، ان تمام صلاحیتوں کو اپنے ٹریک پر رکھنےاور خواھشات کے سراب سے بچنے کا ایک ھی علاج ھے،، اللہ کی محبت،، اس میں اتنی طاقت ھے کہ وہ گریوٹی یا کشش ثقل سے بھی زیادہ طاقتور ھے، وہ تمہیں اس مردہ مادے پر مردارخور بن کر بیٹھنے سے بچا سکتی ھے، اگر تو اس مادے کی طرف کھچتا ھے توجان لے دوسری طرف اللہ کی محبت کا ھاتھ کمزور ھے تبھی یہ دنیا تجھے کھینچ رھی ھے،، محبت کا ھاتھ مضبوط اور طاقتور ھوتا تو کبھی دنیا نہ کھینچتی بلکہ تو رب کی طرف کھنچتا اور اپنے ساتھ اپنے اھل و عیال کو بھی بلندی کی طرف اٹھا لے جاتا
!
تیرا پیار ھے میری زندگی
!
تیری یاد ھے میری بندگی
!
میری ذات مجھ میں مٹ گئ
!
جو تیری خوشی وہ میری خوشی
یہ میرے جنوں کا ھے معجزہ
!
جہاں تو نے مجھ کو بتا دیا !
وھیں میں نے کعبہ بنا لیا !