جمع قرآن کا فسانہ مقاصد اور عواقب

۔
سابقہ آرٹیکل میں بڑے مدلل انداز سے یہ بات ثابت کی گئی کہ قرآن رسول عربی کے دور مبارک میں ہی اُن کے دستِ شفقت سے اُمت کے لئے کتابی صورت موجود تھا ۔۔
۔
اگر کوئی کتاب چند افراد حفظ کر رہے ہیں تو یہ بات قوی یقین ہے کہ اُس کتاب کی کوئی ترتیب ضرور ہو گی ۔۔ روایات نے جس طرح قرآن کو ہڈیوں ، پتھروں ، کجھور کے پتوں پر جگہ جگہ بکھرا پیش کیا ہے وہ اس ترتیب کی منطقی و اصولی بازگشت میں ایک مفروضہ ہی نظر آتا ہے کہ حفظ کی پہلی شرط ““ خاص ترتیب ““ ہے ۔۔ ترتیب کے بغیر چند افراد کیا دو فرد بھی یکساں انداز میں الفاظ بیان نہیں کر سکتے ۔۔۔
۔
رسالت مآب پہلے قرآن حافظ تھے اور آپ نے اسے کتابی شکل میں ویسے ہی ترتیب دیا جس طرح یہ نازل ہوتا تھا اس کتابی شکل کی تصدیق اس ایک آیت سے واضع ہو جاتی ہے ۔۔۔قرآن کے نسخہ امام کی طرف اشارہ کرتےہوئے رسول عربی ارشاد فرماتےہیں ۔۔۔۔
۔
ہمارے ہاں راویانِ کتب کا دعویٰ ہے کہ قرآن بڑی محنت و مشقت سے رسالت مآب کے وصال کے بعد صحابہ کی شہادت کےباعث عدم دستیابی کے خطرے کو لے کر اکٹھا کیا گیا اور کتاب کی صورت دی گئی ۔۔۔ اس ضمن میں بخاری شریف کی چند روایات کا تفصیلی حوالہ دیا جاتا ہے ۔۔۔
۔۔
4603 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ
۔
-4604 – حَدَّثَنَا مُوسَى حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُ أَنَّ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ قَدِمَ ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
۔
خلاصہ روایت بخاری ::
1۔اس روایت میں عبید ابن السباق مجہول النسب راوی شامل ھے جس سے ابن شھاب زھری روایت کر رھا ھے ، ابن شہاب زھری جیسے شخص کا نام آتے ھی ھمارے محدثین کی آنکھوں پر تقدس کی پٹی چڑھ جاتی ھے اور اس کے بعد وہ جو کچھ ان کو کھلا دیتا ھے بلا حیل و حجت کھا لیتے ھیں قرآن جیسی خدا کی حفاظت میں محفوظ کتاب پر وار کرنے کے لئے ایک ایسے شخص کی بات پر اعتبار کر لینا جس کے باپ دادا پردادا کا نام و نسب کسی کو پتہ نہیں ، جس کی سوائے اس روایت کے جو کہ سرے سے جھوٹی اور من گھڑت ھے ، اور دوسری روایت جو مذی سے متعلق ھے جو کہ خلاف عقل ھے ،کوئی تیسری حدیث ذخیرہ حدیث میں نہیں پائی جاتی یہ شخص ھمیشہ اس سے روایت کرتا ھے جو اس کی پیدائش سے پہلے مر چکا ھوتا ھے ،، اس عبید ابن سباق کواس کی پیدائش سے دو سال پہلے  رحمِ مادر میں  زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلوایا اور عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس تھے ، جنگ یمامہ کے زمانہ میں اورکہا کہ اے زید یہ عمر میرے پاس آیا ہے اور کہہ رہا ہے کہ جنگ میں بہت خونریزی ہوئی ہے اور بہت سے قرآن کے قاری شہید ہوگئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ اور جنگوں میں بھِ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہ سکتا ہے جس کی وجہ سے قرآن کا بڑا ذخیرہ یا بہت زیادہ قرآن ضائع ہوجائے گا اس لئے عمر کہتا ہے کہ میں اس لئے آیا ہوں تاکہ قرآن کے جمع کا حکم دیا جائے –تو میں نے عمر کو کہا کہ میں وہ کام کیسے کروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہں کیا تو عمر نے کہا کہ یہ کام بہت ضروری ہے اور بہتر اور خیر ہے اور اس پر اصرار کرتا رہا تاکہ اللہ پاک نے اس معاملہ میں میرا سینہ کھول دیا اور شرح صدر کردیا – زید نے کہا کہ مجھے ابوبکر نے کہا کہ تو نوجوان آدمی ہے اور ہم نے تجھے کسی تہمت میں بھی ملوث نہیں پایا اور تم رسول اللہ کے لئے بھی وحی لکھتے تھے اس لئے قرآن کی تلاش کرو اور پھر اس کو جمع کرو-سو اللہ کی قسم اگر یہ لوگ مجھے پہاڑ کو ادھر ادھر کرنے کو کہتے تو مجھے اتنا بھاری نہ لگتا جتنا یہ جمع القرآن والا کام بھاری ہے- تو میں نے ان کو کہا کہ آپ یہ کام کیسے کع رہے ہو جو رسول نے نہیں کیا تو ابوبکر نے کہا کہ قسم سے یہ اچھا کام ہے اور مجھے بار بار کھتے رہے تاکہ میرا بھی شرح صدر ہوگیا پھر میں جمع قرآن کے پیچھے پڑگیا اور کھجور کے لکڑیوں، ہڈیوں ، پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کو جمع کیا اور مجھے سورہ توبہ کی آخری آیت نہیں مل رہ تھی آخر وہ صرف ایک ہی صحابی ابو خزیمہ انصاری کے پاس ملیں – یعنی لقد جاءکم رسول من انفسکم سے آخر سورہ تک – پھر یہ جمع کردہ صحیفے ابوبکر کے پاس رہے ان کی وفات کے بعد عمر کے پاس اور ان کی وفات کے بعد ام المومنین حفصہ بنت عمر کے پاس رہے-
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔عام فہم اعتراضات برائے روایت۔۔۔۔۔۔۔۔
1- عبید ابن سباق حضرت زید بن ثابتؓ کی وفات کے دو سال بعد پیدا ھوا ھے ، امام بخاری اگر تقدس کی پٹی ھٹا کر ابن شھاب زھری سے آگے جھانک لیتے تو اس کے داؤ میں کبھی نہ آتے ، اور بعد والے اگر امام بخاری کی عظمت کی پٹی کا ایک کونا اٹھا کر ایک آنکھ سے بھی اس عبید کی حقیقت کی چھان بین کر لیتے تو کبھی قرآن پر ایک کاری وار کا ذریعہ نہ بنتے ۔
2 جب پہلا راوی ھی جھوٹا نکل آیا تو باقی کے راوی سونے کے بن جائیں تب بھی ان کی کوئی حیثیت نہیں رھتی ، جس پاسپورٹ پہ امریکہ ،برطانیہ ، کنیڈا ، آسٹریلیا کے ویزے لگے ھوں جب وہ پاسپورٹ ھی جعلی نکل آئے تو ویزے خود بخود جعلی ھو جاتے ھیں ،
3- حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اور عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے مکے کے 13 سال قرآن لکھنے والوں کو کیوں نہ بلوایا ؟ کیا یہ قرآن کو جمع کرنے کا معاملہ ان دونوں کا ذاتی معاملہ تھا کہ جس میں کسی شوری کی ضرورت انہوں نے محسوس نہیں کی جبکہ اللہ کا صاف حکم موجود ھے کہ ” و امرھم شوری بینھم ،، تعجب کی بات نہیں کہ جن خلفاء کا ٹریک ریکارڈ یہ ھے کہ کوڑوں کی سزا بڑھانی ھو تو شوری بلاتے ھیں – وہ قرآن کو جمع کرنے کے فیصلے ایک کوٹھی میں چھپ چھپ کر کر رھے ھیں ؟ —
4- پھر حضرت زید بن ثابت کیوں ؟ ان سے بڑے انصار کاتبین موجود تھے ،حضرت زید بن ثابت ان بچوں میں شامل تھے جن کو بدر کے قیدیوں نے لکھنا پڑھنا سکھایا تھا ،حضرت زید بن ثابت کو اسی قرآن کی رد و بدل اور جمع تفریق کی حدیث کو مشہور کرنے کے لئے کندھوں پہ بٹھایا گیا ھے جبکہ حقیقت یہ ھے کہ زید بن ثابتؓ کو تقریباً تین سال یعنی سات آٹھ ھجری کے بعد کتابتِ وحی کا موقع ملا ھے اس میں بھی ان کو کبھی کبھار ھی زحمت دی گئ ،ورنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور خود ابوبکرؓ اور عمرؓ جیسے حافظ قرآن کاتبین وحی دستیاب تھے ،حضرت ابئ ابن کعب رضی اللہ عنہ انصار میں سے کاتبِ وحی تھے جو حضرت زید سے بہت بڑے تھے ،
5-زید تم پر کوئی تہمت بھی نہیں ،گویا باقی کاتبین وحی پر خلط ملط کی کوئی تمہت تھی لہذا ان پر ان دونوں کو اعتبار نہیں تھا
6- صرف انچاس آدمیوں کے شھید ھو جانے سے آخر قرآن کے گم ھو جانے کا خدشہ کیا ثابت کرتا ھے کہ قرآن متفرق سینوں میں تھا ،انچاس سینوں میں موجود قرآن چلا گیا ، باقی کو بچانے کی سعی کرو
7-قرآن جمع کرنے والا انہیں نہ صرف ھڈیوں ،درختوں کی چھال ،چمڑے کے ٹکڑوں بلکہ سینوں سے بھی اکٹھا کر رھا ھے لہذا یہ کہنا کہ سب کو سارا قرآن حفظ بھی تھا اس کو غلط ثابت کرنا مقصود ھے ،،
8- اس بے سر و پا روایت کے ذریعے کہ جس کا راوی اس صحابی سے دو سال بعد پیدا ھوا ھے یہ ثابت کرنے کے بعد کہ نبئ کریم کوئی سرکاری آفیشل قرآن چھوڑ کر نہیں گئے تھے بلکہ وہ جگہ جگہ رُلتا پھر رھا تھا ،،
9- اب مزید وار کیئے جا رھے ھیں تا کہ ثابت کیا جائے کہ سورتیں اور آیتیں خلفاء راشدین نے اپنی پسند کے مطابق ترتیب دیں ،مثلاً ایک روایت میں کہلوایا گیا کہ جب سورہ توبہ کے آخر والی دو آیات ملیں تو عمؓر نے کہا کہ اگر یہ تین آیتیں ھوتیں تو ھم ان کی نئ سورت بنا دیتے مگر چونکہ یہ دو ھیں لہذا ان کو آخری نازل ھونے والی سورت میں رکھ دو ،، گویا عمر و ابوبکر بیٹھ کر آیتوں کی تعداد و ترتیب طے کر رھے تھے
10- حضرت عثمانؓ کے زمانے میں لکھے جانے والے قرآن کے فسانے میں راوی یہ مسالہ ڈالنا نہیں بھولے کہ عثمانؓ نے تین قریشی قاری زید بن ثابتؓ پر مسلط کر دیئے تھے کہ ان کی نگرانی اورمشورے سے قرآن لکھا جائے اور جہاں اختلاف ھو وھاں قریشی قاریوں کو کہا گیا کہ زید کی رائے کو ایک طرف رکھتے ھوئے تم نے اپنے قریش کے لہجے کو ترجیح دینی ھے ،،
تلک عشرۃ کاملہ
مزید کی ضرورت تو نہیں کیونکہ جب حدیث کا پہلا راوی ھی جھوٹا ثابت ھو گیا جو اس شخص سے روایت کر رھا ھے جو اس کی پیدائش سے بھی پہلے دنیا سے رخصت ھو گیا تھا تو اس حدیث کو موضوع کہے بغیر چارہ ھی نہیں اور اس قسم کی روایت کے زور پہ قرآن کے تارو پو کو نہیں بکھیرا جا سکتا ،، پھر بھی بعد کے مضمون میں بھی کچھ عقلی و علمی سوالات اٹھائے گئے ھیں جن کو پڑھنا بھی مفید رھے گا
آگے کا مضمون جناب شاکر رضوی صاحب کی تحریر کی کاپی پیسٹ ھے
۔ اگر یہ خوف تھا کہ شہادت مخصوص قراء سے قرآن کے تلف اور گم ہونے کا خطرہ تھا تو یہ تو خاص لوگ تھے بلکہ خود خلیفہ سے بھی زیادہ اہم کیوں کہ ان کی زندگی پر قرآن کی حفاظت نعوذ با اللہ موقوف تھی تو پھر ان کو جہاد و قتال میں جانے کی اجازت ہی کیوں دی گئی—اور آئندہ ان پر یہ پابندی کیوں نہیں لگائی گئی — ؟
۔
—-۔۔ اور اگر قاریوں کے شہید ہونے قرآن کا کثیر حصہ تلف ہونے کا خطرہ تھا تو پھر جو ستر قاری شہید ہوگئے پتہ نہیں ان کے ساتھ قرآن کا کتنا حصہ قرآن کا ضائع ہوگیا۔؟؟؟؟
۔
— نسخہ تو ابوبکر اپنے پاس بند کر کے رکھ کر فوت ہو گئےپھر اس جمع شدہ نسخہ کا فائدہ کیا ہوا امت کو ؟ یہ کیا ابوبکر نے یہ سارا کام صرف اپنی ذات کے لئے کروایا تھآ ؟ خلیفہ کا تو یہ فرض تھآ کہ وہ اس کی مختلف نقول کرواتا اور مسلمانوں کو اس کی نقل کا حکم دیتا مگرخلفہ المسلمین نے کچھ بھی نہیں کیا —
۔
۔۔۔۔۔ ۔ اگر رسول اللہ قرآن کو کتابی شکل اس وجہ سے نہیں دے سکے کہ اس وقت کاغذ یا کوئی ایسی مناسب چیز موجود نہیں تھی تو پھر 9 مہینوں میں وہ چیز کیسے اتنی وافر مقدار میں موجود ہوگئی کہ اب قرآن جمع ہوگیا –حالانکہ یہ وہی دور اور وہی حالات ہیں –کیا وہ چیز جس پر ابوبکر کے زمانہ میں قرآن نقل کیا گیا کیا وہ چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں وجود میں نہیں آئِ تھی؟ اور ایجادات کے لحاظ سے تو چاروں خلفاء کا زمانہ ایک ہی ہے اس سارے زمانے میں چیزوں کی ایجادات کی لسٹ وہی ہے جو رسول اللہ کی زندگی کی ہے—
۔
۔۔۔۔ازالۃ الخفاء مین شاہ ولی اللہ نے ایک روایت بیان کی ہے کہ – جمع کرد قرآن را بحضور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم و ترتیب دادہ بود آنرا —– کہ قرآن مجید خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ان کے سامنے جمع اور مرتب گیا گیا تھا – تو کیا یہ بات شیخین اور زید بن ثابت کو معلوم نہیں تھی کہ وہ دوبارہ ہڈیوں اور پتوں سے قرآن جمع کر رہے تھے—-
۔
۔ سب سے بڑا سوال کہ کیا رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوزباللہ اپنی تیئس سالہ دور نبوت میں ایک بار بھی اس بات کا خیال زہن سے نہ گزرا کہ آپ ﷺ کے بعد اس قرآن کو اُمت تک کیسے پہنچایا جائے گا؟؟؟ جبکہ یہ کتاب تاقیامت تک کےلئے رشد و ہدایت اور معاشرتی قانون کی قرینہ اول ہے ۔۔
.
اہل علم و دانش !!!
ان جیسے اور کئی اعتراضات ان من گھڑت روایتوں کو دیکھ کر پیدا ہو سکتے ہیں ۔۔۔ خارج از قرآن ایمان کا نہیں کہا گیا ہے ۔۔ ایمان کی ساری کڑیاں خدا نے اپنے کلام سے منسوب کی ہیں ۔ان روایات کو تقدس کا غسل دینے کے بجائے بہتر ہے کہ تدبر کا تیمم کرلیا جائے
۔
1۔ پہلی بات کہ – إِنَّ الْقَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ بِالْمَوَاطِنِ—قاری قتل ہو رہے ہیں تو سوال ہے کہ اس قاری سے مراد کیا ہے؟ کیا ہر قرآن کا پڑھنے والا یا قرآن کا حافظ یا قاری جو فن قراءت کا جاننے والا ہو اور قراءت کے ساتھ قرآن پڑھتا ہو – اگر پہلی صورت مراد ہے کہ ناظرہ اور حفظ پڑھنے والے سارے لوگ مراد ہیں تو پھر اس کا مقصد یہ ہوا کہ اس سے پہلے ہی مکمل قرآن مصاحف کی شکل میں موجود تھے اس لئے تو لوگ دیکھ کر تلاوت کرنے والے موجود تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2۔ فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنْ الْقُرْآنِ- قرآن کو اگر نہیں لکھا گیا تو اس کا اکثر حصہ ختم اور گم ہوجائے گا—- سوال ہے کیوں؟ کیا قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے نہیں اتھایا ہوا؟ اور کیا اگر یہ خوف قرآن کے متعلق ثابت ہے جس کی حفاظت قرءت، حفظ، سے پوری امت اور پھر اللہ کر رہا ہے تو کیا عدم کتابت روایت رسول کے اکثر حصے کو ختم اور گم نہیں کرسکتی جس کی نہ اللہ حفاظت کر رہا ہے ، نہ قرءت ہو رہی ہے ، نہ حفظ ہو رہا ہے— روایت تو محفوظ ہے مگر قرآن کے گم ہونے اور ختم ہونے کا خطرہ ہے—— یا للعجب—
3- قُلْتُ لِعُمَرَ كَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ—ابوبکر نے عمر سے کہا کہ ایسا کام کیسے کیا جائے جو رسول اللہ نے نہیں کیا — یہاں پر دو باتیں ہیں 1 ۔ کیا واقعی صحابہ کرام اور خاص طور پر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور زید رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ سے پہلے اس بات کا پتہ ہی نہیں تھا کہ کون سے کام رسول اللہ کے بعد امت کر سکتی ہے اور کون سے نہیں کر سکتی؟یا کون سے کام خلیفۃ رسول االلہ کر سکتا ہے اور کون سے نہیں کرسکتا؟ کیاوہ ویسے ہی خلیفہ رسول کی کرسی پر باجماع صحابہ فائز ہوگئے تھے اس بیچارے کو تو آخری خلافت میں جاکر یہ پتہ چلا کہ خلیفہ رسول کو رسول کے بعد کون سے کام کرنے کی اجازت ہے اور کون سے کام کرنے کی اجازت نہیں- اور وہ بھی ایسا کام جس کے کرنے میں رسول کی مشن اور مقصد رسالت الی یوم القیامت میں رسول کی نصرت اور بحیثیت امتی تبلیغ دین و قرآن کے حکم پر عمل تھآ
کیا ابوبکر کو اتنی بھی دین کی فہم نہیں تھی ؟ افسوس کتنا خلیفہ اول کو دین کی مبادیات سے سے بھی نابلد کرکے پیش کیا جا رہا ہے—اور پھر عمر کے بار بار سمجھانے پر بھی بہت دیر سے بات سمجھ میں آتی ہے ان کو بھی اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بھی – اور مجھے تو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ یہ ابوبکر کاتب وحی ہے پھر زید بن ثابت خود کاتب وحی ہے یعنی انہوں نے رسول اللہ کے سامنے وحی الالہی قرآن کو بحکم رسول لکھا ہے تو وہ کیسے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ہم وہ کام کیسے کریں جو رسول اللہ نے نہیں کیا ؟ کیا رسول اللہ نے ان سے قرآن نہیں لکھوایا؟ یا ان کے سامنے قرآن نہیں لکھوایا؟ اور پھر عمر بھی ان کو یہ دلیل نہیں دے رہا کہ آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ یہ کام آُ پ کریم نے نہیں کیا –بلکہ وہ قسمیں اتھآ اتھآ کر ان کو یقین دلا رہا ہے——- افسوس کتنا بے عقل او ر بے سمجھ کرکے صحابہ کو اور خاص طور شیخیین کو پیش کیا جا رہا ہے—
2۔ دوسری بات کہ رسول اللہ نے قرآن کو جمع نہیں کیا – تو یہ بات قرآن کے خلاف ہے— ہم اس پر بعد میں بات کریں گے—–کہ یہ بات خلاف قرآن۔ خلاف اصل، خلاف مقصد نبوت اور خلاف عقل ہے اس لئے جھوٹ ہے-
قَالَ عُمَرُ هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِذَلِكَ وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَى عُمَرُ
یعنی عمر رضی اللہ عنہ قسمیں اتھا اٹھا کر ابوبکر کو یقین دلا رہے ہیں کہ یہ — خیر—ہے – گویا ابوبکر، عمر کے قسموں سے پہلے کتابۃ القرآن اور جمع القرآن کو —- شر— سمجھ رہے تھے – اور اس کام کے خیر ہونے اور شر نہ ہونے پر عمر نے دلیل کوئی نہیں دی – بس قسمیں اتھاتا رہا کہ یہ خیر ہے- اب پتہ نہیں کتنے دن یا مہینے یہ قسموں کا دور اور دورانیہ جاری رہا کہ اس کے بعد ابوبکر کے سینہ کو اللہ نے اس کام کے لئے کھول لیا—- اصل میں اللہ پاک نے عمر کو پہلے بات بتائی ار پھر عمر کے مسلسل اصرار پر اللہ نے ابوبکر کو یہ بات سمجھائی –اور پھر ابوبکر کے اصرار پر زید بن ثابت کو سمجھائِ—شکر ہے اللہ نے یہ تفصیلی طریقہ ان تین صحابہ کو اسی ترتیب سے سمجھایا ورنہ قرآن تو گیا تھا ہاتھوں سے—- کیا تصور پیش کیا گیا اللہ کا اور پھر یہ بھی پتہ نہیں کہ ان صحابہ کو وحی کی گئِ یا القاء کیا گیا یا کشف ہوا کیا ہوا بھرحال یہ اللہ کے رازوں میں سے راز ہے جو بخاری نے ظاہر نہیں فرمایا شاید اس میں بھی کوئی راز ہو –
قَالَ زَيْدٌ قَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُكَ- ابوبکر نے زید کو کہا کہ تو نوجوان ہے ، عاقل ہے، تیرے پر ہم کوئی تہمت نہیں پاتے—پہلی بات یہ کہ اگر یہ اتنا اہم معاملہ تھا کہ ابوبکر اس پر راضی نہیں ہو رہے تھے پھر زید کو بھی اعتراض پیدا ہوا تو ابوبکر نے اس اتنے اہم ترین معاملہ کے اندر کیار صحابہ سے مشورت کیوں نہیں کی؟ اور اس مسئلہ کو صحابہ کے سامنے کیوں نہیں رکھا ؟ صرف ان تینوں کی نے ہی اپنے طور پر یہ کیسے طی کرلیا ہم صحیح فیصلہ کر رہے ہیں اور صحیح قرآن جمع کر لے گا اکیلے زید بن ثابت جو اس وقت تیرہ چودہ سال کے درمیاں کا لڑکا ہے؟ کیا دوسرے صحابہ اس سے زیادہ عقلمند اور کبار صحابہ اور نوجوان صحابہ موجود نہیں تھے؟ اصل میں شیعہ کا عقیدہ ہے کہ یہ قرآن ابوبکر اور عمر کے گٹھ جوڑ سے جمع ہوا اور عثمان کے حکم سے اس میں اضافہ کیا گیا اپنی مرضی کا اور بہت سی آیات جو اھل بیت اور علی کے متعلق اور بیان منافقین کے ناموں پر مشتمل تھا اس کو نکالا گیا اور ظاہر ہے کہ یہ کام تب ہوسکتا تھا جب قرآن کو صرف ایک یا دو تین مخصوص افراد جمع کریں اور باقیوں کا اس سے دور رکھا جائے خاص طور پر کبار صحابہ کو اور باقیوں کو با آرڈر اس کا پابند کیا جائے اور باقیوں کے لکھے ہوئے قرآن کے نسخوں کو جلوایا جائے اور ابوبکر و عمر اور عثمان نے یہ ہی کام کیا – اصل میں شیعہ کی اس بات کو ثبوت فراہم کرنا مقصود تھا جو بخاری نے فراہم کردیا –پھر یہ کہنا کہ ہم آپ پر کوئی تہمت نہیں پاتے –کیا باقی صحابہ متہم تھے کردار یا کسی اور وجہ سے ؟
فَتَتَبَّعْ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ—تو ابوبکر نے زید سے کہا کہ تو قرآن کو ڈھونڈھ اور اس کو جمع اور اکٹھے کر—– یعنی قرآن چونکہ ٹکڑوں میں ادھر ادھر ، مختلف پتھروں، ہڈیوں ، کھجوروں پر اور پھر مختلف لوگوں کے پاس تکڑوں میں پڑا ہوا ہے تو اس لئے تو اس کو تلاش کر — افسوس اس تلاش کا نتیجہ یہ نکلا کہ زید بن ثابت کو مکمل قرآن نہیں مل سکا – اور اکیلا بچہ بیچارہ کر بھی کیا سکتا تھا – اب پتہ نہیں کتنا قرآن ضایع ہوگیا اور کتنا تلاش کیا جا سکا کیوں کہ بہت سے صحابہ باہر اور علاقوں میں تھے – اس لئے یہ بات قابل شک ہے تاریخی طور پر بقول اس قول بخاری کہ پتہ نہیں کتنا قرآن تلاش سے رہ گیا —- اور اس کے ساتھ یہ بات قابل غور ہے کہ قرآن تو کہتا ہے کہ یہ کلام الالہی جمع شدہ شکل میں ہی دیا گیا نبی اپنی زندگی میں اس کو جمع شدہ صورت میں ہی حوالہ کر کے گئے کیوں کہ ان علینا جمعہ دلیل ہے اس بات پر تو پھر اس قرآن کو ڈھونڈھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اصل میں ان الفاظ سے بخاری کا یہ بات ثابت کرنی ہے کہ قرآن بھی رویات کی طرح ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر لکھا گیا ہے یعنی پورا دین ہی لبھا ہوا ہے – گم شدہ دین میں سے قرآنی حصہ کو زید بن ثابت نے ڈھونڈھ کر امت کو پیش کیا اور روایات والے دین کے حصہ کو محدثین نے ڈھونڈھ کر امت کو پیش کیا اور اسی طرح قرآن اور روایت ایک درجہ میں ہیں بلکہ قرآن اس سے بھی کم درجہ میں ہوگیا کیوں کہ قرآن صرف بروایت ایک صحابی زید بن ثابت امت کو ملا اس لئے یہ قرآن ابتدائی درجہ میں ہی خبر واحد ہے – حدیث کی شان تو اس سے بہتر ہے کیوں کہ حدیث جس صحابی سے منقول ہے اس منقول عنہ صحابی کا بھی بیان ہے مگر قرآن کی روایت زید بن ثابت میں زید بن ثابت نے کسی آیت کے متعلق نہیں بتایا کہ اس نے فلاں ، فلاں آیت کس کس صحابی سے اخذ کی ہے؟ گویا قرآن پورا مجہول روایت ہے – اور حدیث اس کے مقابلہ میں زیادہ واضح الثبوت ہے— اور یہ ہی اصل مقصد تھا ان الفاظ کا کہ قرآن گم گشتہ کو ڈھونڈھو- اور پھر کہا کہ جمع کرو – حالانکہ قرآن تو پہلے ہی جمع شدہ تھآ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے—-
فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنْ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ – زید نے کہا کہ اللہ کی قسم اگر یہ مجھے کسی جبل کے ہٹانے کا حکم کرتے تو وہ میرے اس جمع القرآن سے زیادہ آسان ہوتا – تو گویا زید نے بھی اپنے آپ کو اس کام کا اھل نہیں جانتے تھے مگر حکم حاکم سے مفر نہیں تھا
زید نے یہ جمع القرآن والا کام ڈیڑھ سال سے بھی کم وقت مین کردیا کیوں کہ خلافت صدیقی کا کل زمانہ دو سال تین ماہ ہے اور سنہ 12 ہجری جنگ یمامہ کے بعد یہ کام شروع ہوا اب یہ بھی پتہ نہیں کہ ان تینوں اشخاص نے ایک دوسرے کو قائل کرنے میں کتنا وقت لگایا اور پھر ابوبکر کی زندگی میں ہی پتہ نہیں کتنا ٹائم ان کی موت سے پہلے یہ کام مکمل کر چکے تھَے اندازہ یہ ہے کہ ایک ، سوا ایک سال میں اکیلے زید نے اتنا کام کر دیا – کیا یہ ممکن تھا جبکہ قرآ ن مجموع تھا ہی نہیں – مختلف لوگوں کے پاس پڑی ہوئی ہڈیوں اور پتوں سے مختلف لوگوں سے مختلف علاقوں اور جگہوں سے قرآن کو جمع کرنا تھا پھر نہ بقول منکرین قرآن روایت پسند کہ تحریر کے قواعد بھی متعین نہیں بالکل ایک نیا کام اور اتنا لمبا اور پھیلا ہوا کام اکیلے زید نے ایک سال میں ایک نسخہ قرآن لکھ کر خلیفہ کو دے دیتا ہے- کیا یہ ممکن ہے ؟ منکرین قرآن کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اقرءکم ابی بن کعب – سب صحابہ میں سب سے زیادہ قرآن کا حافظ اور قاری ابی بن کعب ہے – اور اسی وجہ سے عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اعلان کیا ہوا تھا کہ من اراد ان یسال عن القرآن فلیات ابیا – کہ جس کو بھی قرآن کے متعلق پوچھنا ہو وہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے – یہ ابی بن کعب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی قرآن کی تعلیم باذن و حکم رسول دیتے تھے اور بعھد نبوی مکمل قرآن جمع بھی کردیا تھا اور اس وقت مدینہ موجود بھِی تھے مگر عجیب بات ہے کہ اس کام کے لئے نہ اس کو بلایا جاتا ہے نہ اس سے مشورہ کیا جاتا ہے نہ اس سے مدد لی جاتی ہے –

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک قرآن ہی تو تھا جو لکھوایا گیا تھا اور آپ کہہ رہے ہو کہ وحی محفوظ کیئے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور اللہ پاک ذالک الکتاب فرما کر لکھے ہوئے کی طرف اشارہ نہیں کر رہا تو کیا کسی کے دل یا دماغ میں موجود مواد کو کتاب کہا جا سکتا ہے؟میں نے لکھ لکھ کر فیس بک بھر دی ہے مگر میں اس کو کتاب نہیں کہہ سکتا جب تک وہ دو گتوں کے درمیان جمع نہ ہو جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن اسی ترتیب کے ساتھ دو گتوں کے درمیان جمع کر کے ایک صندوق میں رکھ کر حضرت حفصہ کے حجرے میں محفوظ فرما کر گئے تھے،اسی نسخے سے کہ جس کا نام الامام تھا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے نقلیں تیار کر کے تمام بلادِ اسلامیہ میں نسخے پہنچا دیئے تھے۔ جمع قرآن کی کہانی اک فسانے کے سوا کچھ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمع قرآن کا فسانہ ، مقاصد و عواقب ۔۔۔ ؟ ““
۔
جبرائیل کے بعد انسانوں میں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے پہلے حافظ تھے اور آپ نے اسے کتابی شکل میں ویسے ہی ترتیب دیا جس طرح یہ نازل ہوتا تھا ۔۔۔۔ اور اس کی ترتیب وحی کے وقت ھی جبرائیل بتا دیتے تھے کہ کس سورت میں کس جگہ رکھنا ھے لہذا ترتیبِ نزولی والے کسی قرآن کا کوئی وجود نہیں پایا جاتا تھا ،، ترتیب لوح محفوظ والا قرآن ھی ساتھ ساتھ روزانہ کی بنیاد پر مرتب ھو رھا تھا ،جسے ھجرت کے بعد مدینہ منتقل کیا گیا اور مسجد نبوی میں اس جگہ ایک صندوقچے میں رکھ دیا گیا جہاں اسطوانہ مہاجرین ھے ، یہ اسطوانہ المصحف کہلاتا تھا جہاں اسے اس لئے رکھا گیا تھا کہ انصارِ مدینہ اس میں سے مکہ میں نازل ھونے والی 86 سورتوں کو اپنے اپنے مصحف میں درج کر لیں ،جب انصار کا کام مکمل ھوا تو نبئ کریمﷺ کے حکم کے مطابق تمام صحیفے نماز میں ھاتھ میں پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کے پیچھے کاؤنٹر چیک سے گزرے ،جس سے آج بھی لوگ استدلال کر کے جماعت میں امام کے پیچھے اپنے اپنے قرآن پکڑے حرم میں امامِ کعبہ کے پیچھے کھڑے نظر آتے ھیں ،، انصار کے لکھ لینے کے بعد یہ صحیفہ جسے ” الاُم ” یا الامام ” کہتے تھے اٹھا کر حضرت حفصہ کے حجرے میں منتقل کر دیا گیا جہاں سے منگوا کر تازہ وحی درج کی جاتی اور پھر واپس حجرہ ام المومنین میں واپس کر دیا جاتا ،، یہ قرآن نبی کا تیار کردہ نسخہ تھا ،روایتوں کے زور پر اس مصحف کا تعلق نبی کریم ﷺ سے توڑ کر ابوبکرؓ و عمرؓ کے جمع کردہ قرآن سے جوڑ دیا گیا ھے ،،یہ تھی سازش قرآن کو اس کی اصل سے الگ کرنے کی ، اس کے بعد پھر شیخین رضی اللہ عنھما پر بہتان لگانا آسان ھو گیا کہ انہوں نے قرآن کی ترتیب میں چھیڑ چھاڑ کی ھے اور موجودہ قرآن Man Made ٹائپ چیز ھے جسے ان حضرات نے اپنی اپنی سیاسی پسند و ناپسند سے مرتب کیا ھے ،، بکری کے قرآن کھا جانے والی حدیث تو بالاجماع موضوع ھے ،، قیامت اس حدیث نے ڈھائی ھے جسے امت قوی ترین حدیث ،صحیح ترین کتاب میں مانتی چلی آ رھی ھے ،،
۔
3- بَاب جَمْعِ الْقُرْآنِ
3- بَاب جَمْعِ الْقُرْآنِ (1) .
4986- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عِنْدَهُ قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي فَقَالَ إِنَّ الْقَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ بِالْمَوَاطِنِ فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنْ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ لِعُمَرَ كَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عُمَرُ هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِذَلِكَ وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَى عُمَرُ قَالَ زَيْدٌ قَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُكَ وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعْ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنْ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ أَبُو بَكْرٍ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنْ الْعُسُبِ وَاللِّخَافِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ حَتَّى وَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ التَّوْبَةِ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهِ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَتَّى خَاتِمَةِ بَرَاءَةَ فَكَانَتْ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
4987- حَدَّثَنَا مُوسَى حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُ أَنَّ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ قَدِمَ عَلَى عُثْمَانَ وَكَانَ يُغَازِي أَهْلَ الشَّأْمِ فِي فَتْحِ إِرْمِينِيَةَ وَأَذْرَبِيجَانَ مَعَ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَأَفْزَعَ حُذَيْفَةَ اخْتِلَافُهُمْ فِي الْقِرَاءَةِ فَقَالَ حُذَيْفَةُ لِعُثْمَانَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَدْرِكْ هَذِهِ الْأُمَّةَ قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الْكِتَابِ اخْتِلَافَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى (2) فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَى حَفْصَةَ أَنْ أَرْسِلِي إِلَيْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُهَا فِي الْمَصَاحِفِ ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْكِ فَأَرْسَلَتْ بِهَا حَفْصَةُ إِلَى عُثْمَانَ فَأَمَرَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَسَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ (3) فَنَسَخُوهَا فِي الْمَصَاحِفِ وَقَالَ عُثْمَانُ لِلرَّهْطِ الْقُرَشِيِّينَ الثَّلَاثَةِ إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِي شَيْءٍ مِنْ الْقُرْآنِ فَاكْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ فَفَعَلُوا حَتَّى إِذَا نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ رَدَّ عُثْمَانُ الصُّحُفَ إِلَى حَفْصَةَ وَأَرْسَلَ إِلَى كُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِمَّا نَسَخُوا وَأَمَرَ بِمَا سِوَاهُ مِنْ الْقُرْآنِ فِي كُلِّ صَحِيفَةٍ أَوْ مُصْحَفٍ أَنْ يُحْرَقَ (4).
۔۔
ان روایات میں دیکھ لیجئے کہیں نبئ کریم ﷺ کا کوئی کردار پایا جاتا ھے قرآن کی حفاظت کے معاملے میں ؟
یوں لگتا ھے کہ اللہ کے رسول ﷺ انتہائی افراتفری میں سارا قرآن چیتھڑوں کی صورت میں چھوڑ چھاڑ کر چلتے بنے اور اب صحابہؓ ان چیتھڑوں کو اکٹھا کر کر کے مرتب فرما رھے ھیں ،، جب بات صحابہؓ تک پہنچی تو قرآن کی عصمت و حفاظت بھی مشکوک کر دی گئ کیونکہ ایک ھی ھستی معصوم اور اللہ کے ساتھ رابطے میں تھی ،بعد والے تو ایک دوسرے کو قتل بھی کرتے رھے تو ایک دوسرے کے مرتب کردہ قرآن پر سوال کیوں نہیں اٹھائیں گے ؟ بس فتنے کا یہی بیج بونا چاھتے تھے مدینے کے منافق ،، مگر یہ بھی قرآن کا معجزہ ھے کہ وہ امت جو کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز پر متفق نہیں قرآن کے محفوظ ھونے کے عقیدے پہ کوہ ھمالیہ کی طرح ڈٹ کر کھڑی ھے ، یہ میرے خدائے قہار و جبار کی قدرت اور جبروت کا معجزہ ھے کہ جس نے موسی علیہ السلام کے شک میں ھزاروں بچے قتل کرنے دینے والے فرعون کو موسی کو پالنے پہ لگا دیا ،،،
خلاصہ روایت بخاری ،،،
1۔اس روایت میں عبید ابن السباق مجہول النسب راوی شامل ھے جس سے ابن شھاب زھری روایت کر رھا ھے ، ابن شہاب زھری جیسے شخص کا نام آتے ھی ھمارے محدثین کی آنکھوں پر تقدس کی پٹی چڑھ جاتی ھے اور اس کے بعد وہ جو کچھ ان کو کھلا دیتا ھے بلا حیل و حجت کھا لیتے ھیں قرآن جیسی خدا کی حفاظت میں محفوظ کتاب پر وار کرنے کے لئے ایک ایسے شخص کی بات پر اعتبار کر لینا جس کے باپ دادا پردادا کا نام و نسب کسی کو پتہ نہیں ، جس کی سوائے اس روایت کے جو کہ سرے سے جھوٹی اور من گھڑت ھے ، اور دوسری روایت جو مذی سے متعلق ھے جو کہ خلاف عقل ھے ،کوئی تیسری حدیث ذخیرہ حدیث میں نہیں پائی جاتی یہ شخص ھمیشہ اس سے روایت کرتا ھے جو اس کی پیدائش سے پہلے مر چکا ھوتا ھے ،،(عبید ابن السباق پیدائش 50 ھجری بقول امام بخاری در تاریخ کبیر – تاریخ وفات زید بن ثابتؓ 48 ھجری بقول ابن حجر بقلم خود ) اس عبید ابن سباق کواس کی پیدائش سے دو سال پہلے رحمِ مادر میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلوایا اور عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس تھے ، جنگ یمامہ کے زمانہ میں اورکہا کہ اے زید یہ عمر میرے پاس آیا ہے اور کہہ رہا ہے کہ جنگ میں بہت خونریزی ہوئی ہے اور بہت سے قرآن کے قاری شہید ہوگئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ اور جنگوں میں بھِ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہ سکتا ہے جس کی وجہ سے قرآن کا بڑا ذخیرہ یا بہت زیادہ قرآن ضائع ہوجائے گا اس لئے عمر کہتا ہے کہ میں اس لئے آیا ہوں تاکہ قرآن کے جمع کا حکم دیا جائے –تو میں نے عمر کو کہا کہ میں وہ کام کیسے کروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہں کیا تو عمر نے کہا کہ یہ کام بہت ضروری ہے اور بہتر اور خیر ہے اور اس پر اصرار کرتا رہا تاکہ اللہ پاک نے اس معاملہ میں میرا سینہ کھول دیا اور شرح صدر کردیا – زید نے کہا کہ مجھے ابوبکر نے کہا کہ تو نوجوان آدمی ہے اور ہم نے تجھے کسی تہمت میں بھی ملوث نہیں پایا اور تم رسول اللہ کے لئے بھی وحی لکھتے تھے اس لئے قرآن کی تلاش کرو اور پھر اس کو جمع کرو-سو اللہ کی قسم اگر یہ لوگ مجھے پہاڑ کو ادھر ادھر کرنے کو کہتے تو مجھے اتنا بھاری نہ لگتا جتنا یہ جمع القرآن والا کام بھاری ہے- تو میں نے ان کو کہا کہ آپ یہ کام کیسے کع رہے ہو جو رسول نے نہیں کیا تو ابوبکر نے کہا کہ قسم سے یہ اچھا کام ہے اور مجھے بار بار کھتے رہے تاکہ میرا بھی شرح صدر ہوگیا پھر میں جمع قرآن کے پیچھے پڑگیا اور کھجور کے لکڑیوں، ہڈیوں ، پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کو جمع کیا اور مجھے سورہ توبہ کی آخری آیت نہیں مل رہ تھی آخر وہ صرف ایک ہی صحابی ابو خزیمہ انصاری کے پاس ملیں – یعنی لقد جاءکم رسول من انفسکم سے آخر سورہ تک – پھر یہ جمع کردہ صحیفے ابوبکر کے پاس رہے ان کی وفات کے بعد عمر کے پاس اور ان کی وفات کے بعد ام المومنین حفصہ بنت عمر کے پاس رہے-
۔
ان روایات پہ اٹھنے والے سوالات
1- عبید ابن سباق حضرت زید بن ثابتؓ کی وفات کے دو سال بعد پیدا ھوا ھے ، امام بخاری اگر ابن شھاب کے تقدس سے ھپناٹائز نہ ھوتے اور ابن شھاب سے آگے اس کے شیخ عبید ابنِ السباق کی حقیقت پر نظر مار لیتے تو اس کے داؤ میں کبھی نہ آتے ، جبکہ خود امام بخاری اپنی تاریخ کبیر میں اس راوی کی پیدائش 50 ھجری اور وفات 118 ھجری 68 سال کی عمر میں لکھتے ھیں تو پھر وہ اپنے پیدا ھونے سے دو سال پہلے 48 ھجری میں فوت ھو جانے والے صحابی سے روایت پر لازم چونک جاتے ،، عجیب تماشہ ھے کہ اس کے ترجمے میں لوگ یہ تو لکھ دیتے ھیں کہ اس نے ام المومنین سے بھی حدیث روایت کی ھے ، جبکہ ساری امھات المومنین اس کی پیدائش سے پہلے یا بچپن میں فوت ھو گئ تھیں ،، ابن عباس روایت کا ذکر ھے مگر اس کی کوئی روایت ذخیرہ حدیث میں موجود نہیں جو ابن عباس سے مروی ھو یا امھات المومنین سے مروی ھو ، اس کے ترجمے میں یہ بڑے بڑے نام ڈالنے کا مقصد صرف اس کے شیئر کا گراف بلند کرنا مقصود ھے ، ورنہ بخاری کا راوی ھو اور ایک حدیث بیان کر کے غائب ھو جائے ، اور بعد والے اگر امام بخاری کی عظمت کی پٹی کا ایک کونا اٹھا کر ایک آنکھ سے بھی اس عبید کی حقیقت کی چھان بین کر لیتے تو کبھی قرآن پر ایک کاری وار کا ذریعہ نہ بنتے ۔
2 جب پہلا راوی ھی جھوٹا نکل آیا تو باقی کے راوی سونے کے بن جائیں تب بھی ان کی کوئی حیثیت نہیں رھتی ، جس پاسپورٹ پہ امریکہ ،برطانیہ ، کنیڈا ، آسٹریلیا کے ویزے لگے ھوں جب وہ پاسپورٹ ھی جعلی نکل آئے تو ویزے خود بخود جعلی ھو جاتے ھیں ،
3- حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اور عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے مکے کے 13 سال قرآن لکھنے والوں کو کیوں نہ بلوایا ؟ کیا یہ قرآن کو جمع کرنے کا معاملہ ان دونوں کا ذاتی معاملہ تھا کہ جس میں کسی شوری کی ضرورت انہوں نے محسوس نہیں کی جبکہ اللہ کا صاف حکم موجود ھے کہ ” و امرھم شوری بینھم ،، تعجب کی بات نہیں کہ جن خلفاء کا ٹریک ریکارڈ یہ ھے کہ کوڑوں کی سزا بڑھانی ھو تو شوری بلاتے ھیں – وہ قرآن کو جمع کرنے کے فیصلے ایک کوٹھی میں چھپ چھپ کر کر رھے ھیں ؟ —
4- پھر حضرت زید بن ثابت کیوں ؟ ان سے بڑے انصار کاتبین موجود تھے ،حضرت زید بن ثابت ان بچوں میں شامل تھے جن کو بدر کے قیدیوں نے لکھنا پڑھنا سکھایا تھا ،حضرت زید بن ثابت کو اسی قرآن کی رد و بدل اور جمع تفریق کی حدیث کو مشہور کرنے کے لئے کندھوں پہ بٹھایا گیا ھے جبکہ حقیقت یہ ھے کہ زید بن ثابتؓ کو تقریباً تین سال یعنی سات آٹھ ھجری کے بعد کتابتِ وحی کا موقع ملا ھے اس میں بھی ان کو کبھی کبھار ھی زحمت دی گئ ،ورنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور خود ابوبکرؓ اور عمرؓ جیسے حافظ قرآن کاتبین وحی دستیاب تھے ،حضرت ابئ ابن کعب رضی اللہ عنہ انصار میں سے کاتبِ وحی تھے جو حضرت زید سے بہت بڑے تھے ،
5-زید تم پر کوئی تہمت بھی نہیں ،گویا باقی کاتبین وحی پر خلط ملط کی کوئی تمہت تھی لہذا ان پر ان دونوں کو اعتبار نہیں تھا
6- صرف انچاس آدمیوں کے شھید ھو جانے سے آخر قرآن کے گم ھو جانے کا خدشہ کیا ثابت کرتا ھے کہ قرآن متفرق سینوں میں تھا ،انچاس سینوں میں موجود قرآن چلا گیا ، باقی کو بچانے کی سعی کرو
7-قرآن جمع کرنے والا انہیں نہ صرف ھڈیوں ،درختوں کی چھال ،چمڑے کے ٹکڑوں بلکہ سینوں سے بھی اکٹھا کر رھا ھے لہذا یہ کہنا کہ سب کو سارا قرآن حفظ بھی تھا اس کو غلط ثابت کرنا مقصود ھے ،،
8- اس بے سر و پا روایت کے ذریعے کہ جس کا راوی اس صحابی سے دو سال بعد پیدا ھوا ھے یہ ثابت کرنے کے بعد کہ نبئ کریم کوئی سرکاری آفیشل قرآن چھوڑ کر نہیں گئے تھے بلکہ وہ جگہ جگہ رُلتا پھر رھا تھا ،،
9- اب مزید وار کیئے جا رھے ھیں تا کہ ثابت کیا جائے کہ سورتیں اور آیتیں خلفاء راشدین نے اپنی پسند کے مطابق ترتیب دیں ،مثلاً ایک روایت میں کہلوایا گیا کہ جب سورہ توبہ کے آخر والی دو آیات ملیں تو عمؓر نے کہا کہ اگر یہ تین آیتیں ھوتیں تو ھم ان کی نئ سورت بنا دیتے مگر چونکہ یہ دو ھیں لہذا ان کو آخری نازل ھونے والی سورت میں رکھ دو ،، گویا عمر و ابوبکر بیٹھ کر آیتوں کی تعداد و ترتیب طے کر رھے تھے
10- حضرت عثمانؓ کے زمانے میں لکھے جانے والے قرآن کے فسانے میں راوی یہ مسالہ ڈالنا نہیں بھولے کہ عثمانؓ نے تین قریشی قاری زید بن ثابتؓ پر مسلط کر دیئے تھے کہ ان کی نگرانی اورمشورے سے قرآن لکھا جائے اور جہاں اختلاف ھو وھاں قریشی قاریوں کو کہا گیا کہ زید کی رائے کو ایک طرف رکھتے ھوئے تم نے اپنے قریش کے لہجے کو ترجیح دینی ھے ،،
تلک عشرۃ کاملہ
قاری حنیف ڈار نشر مکرر