قرآن کریم کی ایک سو چودہ سورتوں میں سے چھیاسی سورتیں مکے میں نازل ہوئی تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً لکھوا لی تھیں،کیونکہ وحی ختم ہوتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے اس وحی کو اسی ترتیب کے ساتھ لکھواتے تھے جس ترتیب کے ساتھ قرآن آج موجود ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منتقل ہوئے تو وہی قرآن مدینہ لا کر استوانہ مھاجرین والی جگہ پر رکھ دیا گیا تا کہ انصار اس قرآن کو نقل کر لیں۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونسی ھڈیاں اور پتھر مدینہ لے کر آئے تھے؟جب چھیاسی سورتیں کاغذ پر لکھی ہوئی صندوق میں رکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی مدینہ منتقل ہوئی تھیں اور بعض روایات کے مطابق پہلے ہی مدینہ منتقل کر دی گئی تھیں، تو باقی کی اٹھائیس سورتوں کے لئے مدینے میں کاغذ دستیاب نہیں تھے جہاں تورات گھر گھر کتابی شکل میں موجود تھی۔؟
اھلحدیث حضرات روایتوں کی طرح قرآن مجید کو بھی بے یار و مددگار بکھرا ہوا ثابت کرتے ہیں تا کہ کہا جا سکے کہ اگر حدیثیں بعد میں مدون کی گئی ہیں تو قرآن بھی تو ھڈیوں درخت کی چھالوں اور پتھروں سے اکٹھا کیا گیا تھا۔
انکم لتقولون قولا عظیما۔
وحی کو تحریر میں لانا نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس قدر اہم تھا کہ آپ کو فوری طور پر کوئی پڑھا لکھا غیر مسلم بھی دستیاب ہوتا تو آس سے قرآن کو لکھوا لیتے۔ کاتبین وحی کی فہرست دیکھیں آپ کو ایسے لوگ فہرست میں مل جائیں گے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کو لکھنے سے منع فرمایا اور جو لکھی جا چکی تھیں ان کو مٹانے کا حکم دیا۔ بعد میں چنیدہ اشخاص کو اجازت ملی وہ بھی ان کو جو لکھ سکتے تھے۔ دو سو سال بعد لوگ روایتیں ڈھونڈنے نکلے،دینی ضرورت کے تحت نہیں کیوں کہ دین کے ہر شعبے اور فیلڈ میں سنت تین بر اعظموں میں دو سو سال کے دوران اسٹیبلش ہو چکی تھی دین میں کوئی کمی نہ تھی، یہ حضرات اپنا ثواب کمانے کے لئے ایکسٹرا کریکلم ایکٹیویٹی کے طور پر نکلے تھے۔ اس کے بعد قرآن بھی بہت پیچھے رہ گیا اور سنت بھی اور یہ ثواب والے اور ان کا ثواب امت کے لئے عذاب بن گیا۔ عقائد سے لے کر عبادات کے ایک ایک جزو تک ان روایتوں نے سنت کے لئے سوکن کا کام کیا، یہانتک کہ قرآن مجید کی حیثیت ثانوی ہو کر رہ گئ، اور روایتیں دینی احکامات کے لئے سب سے بڑا سورس بن گئیں، قرآن مجید کی قدر ان لوگوں کے دل میں کتنی ہے،یہ آپ کو معلوم ہوتا ہی رہتا ہے جب سلفیہ روایت اور راوی کے دفاع میں خود قرآن پر حملہ کرتے ہیں، رئیس المحدثین امام شعبہ نے اپنے شاگردوں کی قرآن کے ساتھ بےرغبتی دیکھ کر فرمایا تھا” میں دیکھ رہا ہوں کہ تم جتنا جتنا حدیث کے قریب ہوتے جاتے ہو اتنا ہی قرآن سے دور ہوتے جا رہے ہو۔ اگر مجھے اس صورتحال کا پہلے اندازہ ہوتا تو خدا کی قسم میں حدیثیں اکٹھی کرنے کی بجائے کسی حمام کی بھٹی کے لئے لکڑیاں ڈھونا زیادہ پسند کرتا "
امام شعبہ