ام المومنین حضرت زینب بن جحش رضی اللہ عنہا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد کزن تھیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی پلی بڑھی تھیں، پردے کا رواج نہیں تھا، اگر رشتہ کرنا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا رشتہ پہلے ہی مانگ لیتے تو کوئی بھی انکار نہ کرتا کیونکہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ایک آزاد کردہ غلام کو بنو ھاشم کی شہزادی کا رشتہ دیا جا سکتا تھا تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کون انکار کرتا؟ پھر یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بن جحش رضی اللہ عنہا کو دیکھا تو دل میں کھب گئیں ایک بکواس سے زیادہ کچھ نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو روز ہی دیکھتے تھے وہ بنو ھاشم کے محلے میں ہی رھتی تھیں ۔ یہ جنید حفیظ کے پہلے بکواس کا جواب ہے ۔ حضرت زید کے طلاق دینے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سختی کے ساتھ حکم دیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منہ بولے بیٹے کی رسم کو عملا توڑنے کے لئے حضرت زینب سے نکاح کریں، ان ساری آیات میں سختی کا عنصر واضح کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شادی سے اجتناب فرما رھے تھے اور مسلسل کوشش فرماتے رھے کہ حضرت زید طلاق نہ دیں یہانتک کہ آن کو اللہ کے واسطے بھی دئیے مگر اللہ پاک کے فرمان کے مطابق یہ امر طے شدہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحتیں اس کا رستہ نہیں روک سکتی تھیں ۔
دوسری بات امھات المومنین کا رشتہ منہ بولا رشتہ نہیں ہے بلکہ اللہ پاک کا طے کردہ رشتہ ہے ۔و ازواجہ امھاتھم، اللہ پاک نے طے فرمایا ہے ۔
یہ رشتہ طے کرنے سے پہلے امھات المومنین کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اگر چاہتی ہیں کہ دنیا کی زیب و زینت سے مستفید ہوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے طلاق لے کر کسی امیر سے شادی کر لیں، لیکن انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی ساتھ پسند فرمایا جس کے بعد ان کو امھات المومنین کے مقام پر فائز فرما دیا گیا، اور یہ سب کچھ قرآن میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہے، اگر جنید حفیظ کو معلوم کرنا ھوتا تو کسی سے بھی معلوم کر سکتا تھا آور کسی بھی تفسیر میں پڑھ سکتا تھا مگر یہ خبیث ملحد سوال جاننے کے لئے نہیں کرتے بلکہ مسلمانوں کو اذیت دینے کے لئے کرتے ہیں ۔ اور جب شکنجے میں پھنس جاتے ہیں تو پھر خود مظلوم بن کر مسلمانوں کو ظالم ثابت کرتے ہیں ۔ جبکہ فتنہ قتل سے بھی بڑا جرم ہے اور اس کی سزا بھی عبرتناک ہے ۔ مسلمانوں کو ایسے لوگوں کے خلاف صبر و تحمل کے ساتھ مقدمہ چلنے دینا چاہئے اور وکیل دفاع سمیت ہر سہولت فراہم کرنی چاہئے ۔ ججز پر اعتماد ہونا چاہئے کہ وہ بھی مسلمان ہیں اور نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ان کے جذبات بھی وہی ہوتے ہیں جو ہر مسلمان کے ہیں ۔ جنید حفیظ کی تحریریں استفسارانہ نہیں بلکہ فتنہ پرور اور گستاخانہ تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توھین کی آخری حد بھی وہ کراس کر گیا ٹھا، ایک اچھا انسان اپنے جیسے دوسرے کسی انسان کے بارے میں بھی وہ کچھ نہیں کہتا جو یہ خبیث شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہتا رھا ہے ، ایسا شخص جب قانون کے شکنجے میں پھنس جائے تو فشرد بھم من خلفھم کے قرآنی حکم کے مطابق ان کو ایسی عبرتناک سزا دینی چاہئے کہ دوسرے ایسا کہنے اور کرنے سے پہلے ھزار بار سوچیں ۔
قاری حنیف ڈار بقلم خود ۔