جہیز کی مذمت کرنے کے باوجود اس سے جان چھڑانے کے لئے پورے سماج کے اس بیانیے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ھے جو صدیوں سے ھندو معاشرے کا جزو رھنے کی وجہ سے ھمارے دل و دماغ مین ڈیویلپ ھو چکا ھے ،، یہ ایک اکیلے فرد یا گروپ یا جماعت کے کرنے کا کام نہیں ھے بلکہ اس میں نیک و بد کی تفریق کی بھی کوئی ضرورت نہیں ھے کہ صرف نیک لوگ ھی اس سے بچیں اور بد اس کو کرتے رھیں ،، یہ نیکی اور ثواب سے آگے بڑھ کر ایک سماجی مرض ھے جو نیک و بد ،امیر اور غریب سب کو ھیپاٹائیٹس کی طرح یکساں طور پر لاحق ھے اور سارے ھی اس سے تنگ ھونے کے باوجود صرف نفسیاتی رویوں کی وجہ سے اس سے جان چھڑانے سے معذور ھیں ،، اس کو ایک دن میں ختم بھی نہیں کیا جا سکتا بلکہ مسلسل اور انتھک کوشش کی ضرورت ھے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، اسی جہیز کی وجہ سے لڑکی بوجھ لگتی ھے اور لوگ بچی کی پیدائش کا سن کر ملول ھوتے ھیں ،،،
اس جہیز کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ھے ،، نبئ کریم ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کوروزمرہ ضرورت کی جو تین چیزیں دی تھیں وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زرہ بیچ کر ھی دی گئ تھیں ، آج بھی عربوں میں یہی رواج ھے کہ لڑکے والے ھی شادی کے دن لڑکی والوں کے اخراجات کی ادائیگی کرتے ھیں ،، پہلے سے بکنگ اور کھانے کے اخراجات کا اندازہ لگا کر لڑکے والوں کو بتا دیا جاتا ھے ،، مرد کے قوام ھونے کے لئے اللہ پاک نے جس مال کے خرچے کی بات کی ” و بما انفقوا من اموالھم ” وہ ساڑھے 32 روپے حق مہر کا ذکر نہیں کیا بلکہ شادی کے اخراجات ، حق مہر اور مستقبل کے نان نفقے کو ملا کر فرمایا ھے کہ اس نے مال خرچا ھے ،، لڑکی نے صرف رخصت ھو کر اپنے گھر جانا ھوتا ھے ،کہیں ویرانے میں نہیں اترنا کہ فرنیچر ،کراکری ،اور پھٹنے کے لئے چولہا گھر سے لے کر جائے ،،ایک رچتےبستے گھر میں ایک فرد کا اضافہ ھو رھا ھے کیا لڑکے والوں کے پاس ایک لڑکی کے لئے پلیٹ ،گلاس ،تکیہ ، چارپائی اور رضائی تلائی یا کمبل نہیں ھے ؟ ھمارے پاک و ھند کے رواج میں تو گھر کی سوئی سلائی تک عورت لے کر آتی ھے ” مرد سوکھا بھونا یا سُکۜا پُکۜا قوام ” ھوتا ھے
جہیز اور مادہ پرستی ،،،،
جہیز کو محبت اور پیار کا پیمانہ بنا لیا گیا ھے ،،لڑکی بھی اپنے والدین کی محبت کو کراکری اور فرنیچر کے اخراجات ،زیور اور کپڑوں کے ساتھ ماپتی اور تولتی ھے ،،اگر کچھ نہ دیا جائے تو گویا والدین اس سے محبت ھی نہیں کرتے تھے ،،،،،،، سسرال والی لڑکی کی میکے میں اھمیت کا اندازہ سامان کے لدھے ھوئے ٹرکوں ، اور ٹریکٹر ٹرالیوں سے لگاتے ھیں کہ وہ والدین کو کتنی عزیز ھے ،، جہیز نہ دیا جائے تو وہ سمجھتے ھیں کہ لڑکی کو ” سر سے اتارا ھے ” اور ساری زندگی لڑکی کو طعنے دیتے رھتے ھیں کہ تیرے ماں پیو نے تمہیں دیا کیا ھے ؟
اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ھوئے لڑکی والوں کو منع بھی کیا جائے کہ ھمیں جہیز نہیں چاھئے تو بھی وہ بدوبدی یعنی زور زبردستی سے بھی دیتے ھیں کیونکہ انہیں سسرال والوں کی طرف سے بیٹی کے لئے طعنوں کا خدشہ ھوتا ھے بلکہ یقین ھوتا ھے کہ ان کی بیٹی کو زندگی بھر طعنوں کا سامنا ھو گا کیونکہ وہ خود اپنی بہو کا طعنوں سے بُرا حشر کیئے ھوئے ھوتے ھیں ،،
لہذا یہ ضروری ھے کہ !!
1- لڑکے والی شادی کا دو طرفہ خرچ برداشت کریں ،،
2- جب خرچ لڑکے والوں نے کرنا ھے تو ضروری ھے کہ شادی کے اخراجات کا تعین بھی لڑکے والے ھی کریں کہ وہ کتنا افورڈ کر سکتے ھیں ،، اور جتنا سستا شادی ھال وہ چاھیں بکنگ کرائیں ، لڑکی والے انٹرکان یا میریٹ میں بکنگ کا تقاضا نہیں کر سکتے ،، کتنے آدمیوں کو بلانا ھے یہ بھی دونوں فریق بیٹھ کر اس طرح طے کریں کہ شادی کے اخراجات نہ تو کسی پر بوجھ بنیں اور نہ اسراف کی حد کو چھوُئیں ،،
3- اگر والد بچی کو کچھ دینا چاھتے ھیں تو وہ والد کے ساتھ جوائنٹ اکاؤنٹ کھلوا کر بچی کے کھاتے میں ڈال دیئے جائیں ،،، جس میں لازمی دستخط والد کے رکھے جائیں تا کہ دلہن کو بیلک میل کر کے پیسہ نکلوا نہ لیا جائے بلکہ حقیقی ضرورت کے وقت لڑکی کے میکے والوں سے مشورہ کر کے ان کی رضامندی سے ان کو خرچ کیا جائے ،
4- لڑکیاں والدین کی محبت کو جہیز کے ساتھ ماپنا ترک کر دیں ،،
5 – جہیز کو جائداد میں بچیوں کے حصے کے متبادل سمجھنے کی بجائے بچیوں کو جائداد میں ان کا حصہ دیا جائے ،، اگر والد چاھے اور اسے خدشہ ھو کہ لڑکی کے بھائی بہنوں کو حصہ نہیں دیں گے تو والد اپنی زندگی میں بچی کے حصے کا تعین کر کے اس کے نام کر دے ،، جبکہ واقعہ یہ ھے کہ والد اس ڈر سے کہ کہیں بچیاں جائداد میں شریک نہ بن جائیں اپنی زندگی میں جائداد بیٹوں کے نام کر دیتے ھیں یوں خود آگ کا ایندھن بن جاتے ھیں ، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ھے کہ ایک انسان ساری زندگی اھل جنت کے کام کرتا ھے یہانتک جنت اور اس کے درمیان موت کا فاصلہ رہ جاتا ھے کہ ادھر دم نکلے اور وہ جنت میں چلا جائے کہ وہ وراثت کی تقسیم میں ظلم کر کے جھنم میں چلا جاتا ھے ۔۔
یوں جائداد میں بچی کا حصہ ھونے کی وجہ سے سسرال والے بھی لڑکی پر طعنہ زنی اور زبان درازی نہیں کریں گے بلکہ بچیوں کو جائداد میں شرعی حصہ دینے کے فریضے کو زندہ کرنے کا اجر بھی ملے گا ،،،
6- جو لوگ اپنی ناک کی خاطر بچیوں کو جہیز دیتے ھیں وہ ریا کاری اور دکھاوے کو ترک کریں اور غریبوں کے سینے پہ مونگ دل کر انہیں اللہ کے خلاف بھڑکانے سے باز رھیں ، گھر اپنی بیٹی کا بھرنا اور جذبات اللہ کے خلاف بھڑکانا در اصل شیطان کے مشن کو کامیاب کرنا ھے کیونکہ وھی یہ ثابت کرنے کے چکر میں رھتا ھے کہ حلال کی کھانے والے کی بچیاں چھوٹی چھوٹی چیز کو ترستی ھیں اور حرام کمانے والے کی بچیاں سونے میں تُلتی ھیں لہذا کہاں ھے تمہارا عدل کرنے والا خدا ،کیا واقعی کوئی ایسا خدا ھے بھی یا نہیں ” اسی وجہ سے اللہ پاک نے مسرفین اور مبذرین کو شیطان کا بھائی بند کہا ھے کیونکہ وہ بھی لوگوں کے دل و دماغ میں اللہ کے بارے میں اسے ھی باغیانہ وسوسے پیدا کرتا ھے ،،
وآت ذا القربى حقه والمسكين وابن السبيل ولا تبذر تبذيرا – إن المبذرين كانوا إخوان الشياطين وكان الشيطان لربه كفورا ( بنی اسرائیل26-27 )..
7- اس ریا کاری کی بجائے امیر لوگوں کو اپنی بچی کے ساتھ کم از کم اپنے غریب رشتے داروں میں سے ایک کی بچی کو بھی اس طرح بیاھنا چاھئے کہ اس غریب کی بچی اور اس کی اپنی بچی میں کوئی فرق محسوس نہ کر سکے