نبئ کریم ﷺ صورت و سیرت میں کامل انسان تھے کہ جنہیں اللہ پاک نے ھر لحاظ سے کامل و اکمل بنایا تھا ،جس طرح ناپ دے کر کوئی چیز بنوائی جاتی ھے ،، عقل و حکمت میں بھی آپ کی مثال انبیاء تک میں نہیں ملتی ،، میں نے جب بھی سیرت کی کتاب کھولی ھے یا قرآن حکیم میں مصطفی ﷺ کا تذکرہ پڑھا ھے تو بھیگی آنکھوں کے ساتھ ھی بند کی ھے ،،جی مچلتا ھے کہ کاش آنحضور ﷺ پاس ھوں تو آپ کے قدم چومنے کی سعادت حاصل کروں ،، حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کیا پیارے اور سچے شعر کہے تھے جب کہ نبئ کریم ﷺ تشریف فرما تھے اور حسانؓ آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے تھے ،،
کسی آنکھ نے آپ سا خوبصورت کوئی نہ دیکھا ،،،،،،، اور کسی ماں نے آپ جیسا خوب سیرت نہ جنا !
آپ اس طرح سے بے عیب پیدا کیئے گئے ھیں ،، کہ گویا آپ جیسا چاھتے تھے ایسے ھی پیدا کیا گیا !
اور پیر مھر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ھیں ،،،،،،،،،،
سبحان اللہ ،،،،،،،،، ما اجملک ،،، ما احسنک ،،،،، ما اکملک !
کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء ،گستاخ اکھیں کتھے جا لڑیاں !!
ما کلمہ تعجب ھے ، کہ آپ صورت میں کتنے جمیل ھیں ،سیرت میں کتنے حسین ھیں اور دونوں کے تناسب میں اتنا توازن ھے کہ آپ میں نہ صورت کا عیب ھے نہ سیرت کا یوں آپ کتنے اکمل و مکمل ھیں ،،
نبئ پاک ﷺ کی سیرتِ مطھرہ کے چند واقعات لکھنے لگا ھوں جن میں آپ ﷺ کی حکمت و دانائی واضح ھوتی ھے کہ آپ ﷺ کمال کی حد تک حالات اور انسانی نفسیات سے واقف تھے کہ گویا ھر دو کی نبض پہ آپ کا دستِ مبارک رھتا تھا ،،،،،،،،،،،
1- مکہ فتح ھوا تو آپ مکہ میں داخل ھوئے اور اپنے قیام کے لئے خیمہ لگانے کا حکم دیا ،،،، صحابہؓ کو تعجب ھوا کہ آپ اپنے گھر جانے کی بجائے خیمہ کیوں لگوا رھے ھیں ،، ؟ آپ جانتے تھے کہ میں نے اگر اپنے گھر کا رخ کیا تو صحابہؓ بھی اپنے گھروں کو لپکیں گے ، اور وہ گھر رشتے داروں کے قبضے میں ھیں ،، یوں جائداد کے لئے خانہ جنگی شروع ھو جائے گی ،اور فتح مکہ داغ دار ھو جائے گی ،، آپ نے فرمایا میرا کوئی گھر نہیں ھے اور نہ تمہارے کوئی گھر ھیں ،ھم نے ان گھروں کو اللہ کے لئے چھوڑا تھا اور اس قربانی پر اللہ پاک ھماری تعریف کر چکا ھے اورھمارا اجر طے کر چکا ھے ، اور بات ختم ھو چکی ھے ،، یوں صحابہؓ نے بھی اپنے گھرون کے قبضے لینے کا پروگرام منسوخ کر دیا اور خونریزی کا امکان اپنی موت آپ مر گیا ،،،،،،،،،،،،،،،،
2- غزوہ حنین میں بنو ھوازن کی شکست کے بعد بے حد مال غنیمت حاصل ھوا ، جو اللہ کے رسول ﷺ نے مختلف قبیلوں اور افراد کو بانٹنا شروع کیا کیونکہ آپ ان کی فطرت سے واقف تھے کہ یہ لوگ عطا اور بخشش کو پسند کرتے ھیں یوں انہیں تالیفِ قلب کے ذریعے اسلام کی دعوت پیش کرنے کا پروگرام بنایا ،،،،،،،،، جب آپ نے قبائلی سرداروں کو جو کہ آپ ﷺ کے رشتے دار بھی لگتے تھے ھزاروں اونٹ اور بکریاں دینا شروع کیا تو بعض نوجوان انصاریوں کے منہ سے نکل گیا کہ جب خون دینے کی باری آتی ھے تو انصار کو بلایا جاتا ھے اور جب مال دینے کی باری آتی ھے تو رشتے داروں کو بلایا جاتا ھے ،، یہ ایک خطرناک صورتحال تھی مجرد یہی ایک نعرہ پانسا پلٹ سکتا تھا ،، آپ نے تمام انصار کو ایک خیمے میں جمع کیا اور ان سے ایک جذباتی خطاب فرمایا ،، آپ ﷺ نے فرمایا ” اے انصار تم آپس میں بٹے ھوئے تھے اللہ نے تمہیں میرے ذریعے اتحاد و اتفاق کی دولت سے نوازا ،، تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اللہ نے میرے ذریعے تم میں محبت و مودت کا رشتہ قائم کر دیا ، تم غریب تھے اور اللہ نے تمہیں میرے ذریعے امیر کر دیا ،تم گمراہ تھے اللہ نے تمہیں میرے ذریعے ھدایت دی اور تم جھنم کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے کہ اللہ نے تمہیں میرے ذریعے بچا لیا ،، انصار ھر سوال کے جواب میں ” صدقَت ، صدقتَ ،آپ سچ کہتے ھیں ، آپ سچ کہتے ھیں کی گردان کرتے اور روتے رھے ،، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا ،، اے انصار اب تم کہو کہ اے محمد ﷺ تمہیں اپنوں نے نکالا اور ھم نے تمہیں پناہ دی ، اپنوں نے تیری تکذیب کی اور ھم نے تیری تصدیق کی ،، اپنے تیرے خون کے پیاسے تھے اور ھم نے تم پہ اپنا خون نچھاور کر دیا ، اپنوں نے تجھ سے سب کچھ چھین لیا جبکہ ھم نے اپنے گھر بھی تمہیں بانٹ کر دے دیئے ،، اور میں کہونگا کہ ” ھاں اے انصار تم سچ کہتے ھو ،تم سچ کہتے ھو بخدا تم نے ویسا ھی کیا جیسا کہ میں نے بیان کیا ،،، مگر اے انصار کیا تم اس تقسیم پر راضی نہیں ھو کہ لوگ بھیڑ اوربکریاں اور اونٹ لے کر جائیں اور تم اللہ کے رسول ﷺ کو لے کر جاؤ؟میرا مرنا اور جینا تمہارے ساتھ ھے ، میرا خون تمہارے خون کے ساتھ شامل ھو گیا ھے ،، اںصار کی چیخیں نکل گئیں اور پنڈال ” رضینا ، رضینا ، رضینا ” کی آوازوں سے گونج اٹھا ،، یوں اللہ کے رسول نے کئ معاملات کو سلجھا لیا ،، مال و دولت کے بارے میں انصار کے دلوں سے شک کو دور کر دیا ،دوسرا انصار کو یہ خدشہ تھا کہ شاید اللہ کے رسول ﷺ اب مکہ کو اپنی ریاست کا دارالخلافہ بنا کر یہیں قیام فرمائیں گے اور واپس مدینہ نہیں جائیں گے ،، اس خدشے کو بھی دور کر دیا ،، تیسرا دوبارہ آبادی کے انتقال کو روک دیا ،،اگر حضور ﷺ واپس مکہ تشریف لاتے تو ظاھر ھے کہ نہ صرف مھاجرین صحابہ بلکہ بعض انصاری صحابہؓ بھی مکہ منتقل ھو جاتے یوں ایک نئ ھجرت ھو جاتی ، نہ کہ ھی اتنی آبادی کا بوجھ سنبھال سکتا تھا اور نہ ھی لوگ ایک دفعہ پھر لٹنے پُٹنے کی مشقت سے برداشت کرنے کے قابل تھے ،، اگر مھاجر صحابہ مستقل واپس آتے تو کبھی نہ کبھی انہیں عزتِ نفس اپنے کھوئے ھوئے گھر اور جائداد کو حاصل کرنے کے لئے اکسا سکتی تھی یوں مکہ چپقلش کا میدان بنا رھتا ،، اس کے بعد مکے کی آبادی کو مدینہ منتقل ھونے سے روکنے کا بھی سامان کیا گیا کہ آپ نے فرمایا ” لا ھجرۃ بعد الفتح ” مکہ فتح ھو جانے کے بعد اب مکے سے مدینہ ھجرت کا کوئی اجر ثواب نہیں رھا اور نہ ھی ایسے شخص کو مھاجر کا درجہ دے کر مھاجر الاؤنس دیا جائے گا جو کہ مدنی مھاجروں کو مالِ غنیمت میں سے بطور مھاجر دیا جاتا تھا ،، یوں دونوں شہروں کی آبادی اپنی اپنی جگہ رھی اور کوئی افراتفری یا انتقالِ آبادی نہ ھوا