اللہ پاک نے جب رمضان کے روزے فرض کیئے تو ان سے صرف استثناء دو صورتوں میں دیا ، فمن کان منکم مریضاً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر ،، اگر تم میں سے کوئی بیمار ھو یا سفر پر ھو تو چھوڑے ھوئے روزے باقی دنوں میں رکھ کر گنتی پوری کر لے ؛ تیسری کوئی صورت نہیں یہانتک اس کے بعد جب حکم دیا کہ ’’ تم میں سے جو بھی رمضان کے مہینے کو پائے تو لازم روزہ رکھے ، فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ، یہاں پھرصرف بیمار اور مسافر کو چھوٹ دی گئ کہ وہ روزہ چھوڑ سکتے ہیں ، ایام والی عورت نہ تو مریض ھے اور نہ مسافر پھر وہ اللہ کے حکم ’’ فلیصمہ ‘‘ سے کیسے مستثناء ھو گئ ؟ عدم طھارت کی وجہ سے وہ نماز تو نہیں پڑھے گی کیونکہ نماز کا وقت گزرنے تک وہ چاہ کر بھی طھارت نہیں پا سکی جو کہ نماز کی شرط ھے لہذا اس وقت کی نماز اس پر فرض ہی نہیں ھوئی ،چنانچہ قضا کرنے کا حکم بھی نہیں دیا گیا ـ روزے میں طھارت شرط نہیں صرف روزے کی نیت اور کھانے پینے اور جماع سے پرھیز کا نام روزہ ہے ، طرفہ تماشا یہ ہے کہ جس عبادت کو یہ وقت پر ادا کرنا حرام قرار دیتے ہیں ،اس کی قضاء کا حکم دیتے ہیں ،بھلا حرام کی قضاء کیونکر ھو گی؟ عید کے دن روزہ رکھنا حرام ھے مگر اس کی قضا نہیں رکھی گئ ،،
حبل اللہ ویب سائٹ کے مطابق ایام کی حالت کو بیماری سمجھ کر عورت کو اس میں چھوٹ دی گئ ھے کہ وہ چاھے تو روزہ چھوڑ سکتی ھے ، البتہ رکھے تو بہتر ھے ،،
ان کی دلیل یہ ھے کہ نماز طھارت سے مشروط ھے اور چونکہ ایام میں طھارت حاصل نہیں ھوتی لہذا نماز فرض بھی نہیں ھوتی ،، البتہ روزہ فرض ھو جاتا ھے کیونکہ روزہ بس تین چیزوں کا تقاضا کرتا ھے اور تینوں کے ساتھ طہارت کا کوئی لینا دینا نہیں ،، نفوس کو روزے کی نیت سے ،،
کھانے سے روکنا ـ
پینے سے روکنا ـ
جماع سے روکنا ـ
اور یہ تینوں چیزیں ایام کے دوران بھی قابل عمل ہیں ،،
ویب سائٹ کے مطابق اللہ پاک کے کلام اور رسول اللہ کے کلام میں لفظ قضا ھمیشہ یا اکثر ادا کے معنوں میں استعمال ھوا ھے ،، مگر بعد کے فقہاء نے اس کو بالکل الٹ استعمال کیا ھے ،، فاذا قضیتم مناسککم ،، کا مطلب ھے جب تم وقت پر اپنے مناسک ادا کر لو ،، اسی طرح فاذا قضیت الصلوۃ کا مطلب ھے کہ جب تم جمعے کی نماز ادا کر لو نہ کہ فقہاء کی اصطلاح میں قضا کر لو ،، موسی علیہ السلام نے جب مکا مارا تو قضی علیہ ،، قصہ چکا دیا بندہ بھگتا دیا ، مار دیا فارغ کر دیا ،، نہ کہ فقہاء کی اصطلاح میں قضا کر دیا ،، فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ (29) فلما قضی یعنی جب ختم ھو گیا یعنی ادا ھو گیا نہ کہ مستقبل کے لئے لٹکا دیا گیا ،،
انہی معنوں میں حضرت عائشہؓ نے ایک عورت کو جواب دیا کہ نماز ھم کو ادا کرنے کا نہیں کہا جاتا تھا مگر روزے کو ادا کرنے کو کہا جاتا تھا ،،
اذی بمعنی حرج اور مرض استعمال ھوتا ھے بطور گندگی کبھی استعمال نہیں ھوتا ،،(ولا جناح عليكم إن كان بكم أذى من مطر أو كنتم مرضى أن تضعوا أسلحتكم ) النساء
اورتمہیں کوئی گناہ نہیں اگر تمہیں بارش کی وجہ سے کوئی حرج ھو یا تم بیمار ھو تو اسلحہ اتار سکتے ھو ـ یہ اذی اصل میں اردو کا لفظ اذیت ھے ،،
[ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ] البقرہ 196
جب تک قربانی اپنے محل کو نہ پہنچ جائے تم اپنے سر مت منڈاؤ۔پھر جب کوئی تم میں سے مرض میں مبتلا ھو جائے یا اس کو سر میں اذیت لاحق ھو جائے( جوئیں وغیرہ) تو سر منڈھا کر فدیئے میں روزے رکھ لے یا صدقہ دے یا قربانی ،،
ويسألونك عن المحيض قل هو” أذى ” فاعتزلوا النساء في المحيض ولا تقربوهن حتى يطهرن فإذا تطهرن فأتوهن من حيث أمركم الله إن الله يحب التوابين ويحب المتطهرين..
آپ سے ایام والی کے بارے میں پوچھتے ہیں ،کہہ دیجئے کہ یہ ایک اذیت ناک مرحلہ ھے تو عورتوں سے ایام میں الگ رھو اور جب تک وہ اس سے پاک نہ ھو جائیں ان کے قریب مت جاؤ ، یہاں قریب مت جاؤ سے مراد خون کی جگہ کے قریب مراد ھے کیونکہ رسول اللہﷺ سے عملی طور پر یہی ثابت ھے ،،
جس طرح احتلام مرد کے بس میں نہیں خود سے ہو جاتا ھے ، اسی طرح حیض بھی عورت کے بس میں نہیں خود سے ہو جاتا ہے ـ مرد کو احتلام ہو جائے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا ،، عورت ۱۷ گھنٹے کا روزہ رکھے بس پندرہ منٹ پہلے ایام شروع ھو جائیں تو اس کا روزہ کالعدم ھو گیا ، اب یہ دوبارہ رکھے گی ، حالانکہ خون نکلنے کی نسبت شہوت سے منی کے نکلنے سے روزہ ٹوٹنا اولی ہے ، مگر مرد کو ڈسکاؤنٹ دی گئ ہے کہ چونکہ یہ اس کے بس میں نہیں تھا ، گویا عورت بد نیتی سے خود اپنی مرضی سے ایام لے کر آئی ہے ؟ ۔ـ عورت پرایام میں روزہ رکھنا باقاعدہ حرام کیا گیا ،رکھے گی تو گناہگار ہو گی ، اس لئے جونہی بیمار ھو گی روزہ ٹوٹ جائے گا ،اگر دس منٹ بھی جاری رکھنے کی نیت کرے گی تو گنہگار ھو ،کیسے کیسے ظالم اجتہاد ہیں اور دلیل صرف اجماع ہے ،کتاب و سنت سے کوئی دلیل نہیں ـ سوال یہ ھے کہ اگر ایام بیماری ہیں تو بیمار کے لئے روزہ چھوڑنے کی اجازت ھے جبکہ روزہ رکھنا حرام نہیں ھے رکھے تو ھو جاتا ھے ،اسی طرح مسافر کے لئے بھی چھوٹ ھے کہ روزہ چھوڑ سکتا ھے مگر روزہ رکھے تو ھو جاتا ھے ،اگر حیض بیماری ھے تو عورت کو یہی سہولت دستیاب کیوں نہیں ؟ اس پر روزہ رکھنا حرام کس آیت ،کس حدیث میں کہا گیا ہے ؟؟ ایام میں روزہ رکھنا بھی حرام ،اور کھانا پینا بھی حرام ،، کیا یہ کھُلا تضاد نہیں ؟ عورت کا ۱۷ گھنٹے کا روزہ جب ٹوٹ گیا تو پھر وہ کھائے پیئے کیوں نہ ؟؟ جس طرح نماز ٹوٹ کر ختم ھو جاتی ھے اسی طرح روزہ بھی ٹوٹ کر ختم ھو جاتا ھے ،عورت کے لئے سب کے سامنے کھانا تو درست فعل نہیں ،مگر چھپ کر کھانے سے اس کو کونسی آیت کونسی حدیث روکتی ھے ؟ روزہ بھی نہ رکھے ،اور کھائے پیئے بھی ناں ،، عورت کی سزا کے بہت سارے طریقے ایجاد فرمائے ہیں مجتھدین نے جزاھم اللہ خیرا
نماز میں طھارت شرط ھے لہذا نماز سے روکا گیا تو معاف بھی کر دیا گئ ،، روزے کے لئے طھارت شرط نہیں نبئ کریم ﷺ نے حالتِ جنابت میں روزہ رکھا ،، اس ضمن میں حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت زینبؓ سے مروی احادیث کے تین چار مطلب نکلتے ہیں ، مجتھدین نے بس ایک کو اخذ کر کے حرمت ایجاد فرما لی ـ سوال یہ ھے کہ قضاء ہمیشہ فرض کی ھوتی ھے ، جب روزہ اس پر فرض ہی نہیں بلکہ حرام ھے جس طرح عید کے دن کا روزہ تو پھر قضاء کس چیز کی ؟ کیا عید کے روزے کی قضاء بھی ھوتی ھے ؟ روزہ نام کس جس چیز کا ہے ، روزے کی نیت سے کھانے پینے اور جماع سے اجتناب کا نام روزہ ھے ، حائض ان میں سے کونسا کام کرتی ھے ؟ نماز میں چونکہ طھارت شرط ھے لہذا نماز اس پر فرض ہی نہیں ھوئی ،جب فرض ہی نہیں ھوئی تو قضاء بھی کوئی نہیں ، روزے کے ساتھ یہ واردات اجماع کے نام پر کی گئ ہے ـ حدیث ام المومنین حضرت عائشہؓ سے تو یہی ثابت ھوتا ھے کہ جو عورت کمزوری کی وجہ سے حیض میں روزہ چھوڑے اس کا حکم مریض کا سا ھے کہ بعد میں تعداد پوری کرے ، جیسا کہ حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا میں واضح کیا گیا کہ ہمیں حیض کے ایام میں روزہ قضا یعنی ادا کرنے کو کہا جاتا اور نماز سے روکا جاتا تھا ۔
بعض عورتوں کو خون بکرا ذبح کرنے کی طرح آتا ھے جبکہ بعض کو بہت کم آتا ھے ، اس لئے ایک قانون نہیں بنایا گیا بلکہ کیس ٹو کیس چھوڑ دیا گیا ، جو رکھ سکتی ھے بسم اللہ کر کے رکھے اور جو کمزوری محسوس کرتی ھے بعد میں تعداد پوری کر لے مگر یہ تو سراسر ظلم ھے کہ سترہ گھنٹے کی مشقت بھرا روزہ ایک پل میں مٹی میں ملا کر رکھ دیا گیا ـ
اللہ پاک نے فرمایا ھے کہ ’ و قد فصل لکم ما حرم علیکم ،، تم پر جو حرام کیا گیا ھے وہ تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے یعنی قرآنِ حکیم میں ،، قرآن میں جب باقاعدہ حائضہ کے بارے میں سوال کیا گیا ،تب موقع تھا تفصیل سے حکم بیان کرنے کا ، وھاں تو اللہ پاک نے صرف یہ فرمایا کہ بس اس حالت میں مباشرت سے اجتناب کرو ،، اور بس ،، نماز کی چھوٹ طہارت کے حکم سے واضح ھے کہ عدم طھارت کی وجہ سے نماز عورت پر فرض نہیں ،، جب فرض نہیں تو منطقی نتیجہ ہے کہ قضاء بھی نہیں رکھی گئ ـ روزے کی قضاء رکھی گئ ھے جو حائضہ پر روزے کی فرضیت کو مستلزم ہے اور فرض طاقت ھوتے ہوئے ادا کرنا اولی ہے جبکہ عدم استطاعت پر قضاء ہے جیسا کہ حدیثِ عائشہؓ و حدیثِ زینبؓ رضی اللہ عنھما سے واضح ہے ، حقیقت یہ ہے کہ روزے کو اجماع کے مارشل لاء سے حرام کیا کیا ہے ’’ نہ کہ کتاب و سنت ‘‘ کے نام پر حرام کی فہرست میں شامل کیا گیا ـ
واللہ اعلم بالصواب ،،