اسود راعیؓ خیبر والوں کا سیاہ فام حبشی چرواھا تھا ،، یہود نے جب جنگ کی تیاری کی تو اس نے پوچھا کہ یہ کیا ھو رھا ھے ، یہود نے کہا کہ نبوت کے دعویدار سے جنگ کرنے جا رھے ھیں، اس پہ اسود راعیؓ کے دل میں اسلام کی تحقیق کا جذبہ پیدا ھوا ، وہ بکریاں لئے آپ کی خدمت میں حاضر ھوا اور پوچھا کہ آپﷺ کس بات کی طرف دعوت دیتے ھیں ،، آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور مجھے اللہ کا رسول سمجھو ،، اس نے کہا کہ اگر میں اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کروں اور آپ کو اللہ کا رسول ﷺ مان لوں تو مجھے کیا ملے گا ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تجھے جنت ملے گی ،،
اسود مسکرائے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ میں کالا حبشی ھوں ، میرے پسینے میں بو کی بیماری ھے لوگ ذرا دیر میرے پاس ٹھہرنا پسند نہیں کرتے ،،،،، کیا اس حال میں بھی مجھے جنت میں داخل ھونے دیا جائے گا ،، اللہ کے رسول ﷺ نے اس کی بات سن کر فرمایا کیوں نہیں تم ضرور جنت میں جاؤ گے ،،، اسود راعیؓ نے فرمایا یہ میرے پاس بکریاں ھیں ان کا کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ امانت ھیں انہیں قلعے کے پاس جا کر ھانک دو یہ اپنے مالک کے گھر چلی جائیں گی ،، اسود راعیؓ غزوہ خیبر میں لڑے اور شھید ھو گئے ،، جب ان کی لاش آپ ﷺ کے پاس لائی گئ تو آپ نے نظریں چرا لیں ،جس پر صحابہؓ کو خدشہ ھوا کہ شاید یہ جھنمی ھیں اور ان کی شہادت میں کوئی کھوٹ تھا ،مگر آپ نے فرمایا کہ شاید تمہارا ساتھی بھوک کی حالت میں شہید ھوا ھے ،میں حوروں کو اسے کھلاتے ھوئے دیکھ رھا تھا ،اس لئے نظر چرا لی ( کھانا کھانے والے کو گھور کر دیکھنا بد تہذیبی ھے ) اللہ نے اس کے چہرے کی کالک کو نور سے بدل دیا ھے ،اور اس کے بدن کی بو کو خوشبو سے تبدیل کر دیا ھے اور اسے دو حوریں عطا فرمائی ھیں وھی اسے اس وقت جنت کے میوے کھلا رھی ھیں !
صہبا کے مقام سے شام جانے والی سڑک کو ملانی والی ایک سڑک پر چڑھائ کے دائیں طرف شہدائے خیبر کے مزار ھیں انہی میں ایک قبر حضرت اسود راعی کی ھے ،، صحابہ ان کا ذکر کرتے ھوئے کہا کرتے تھے ،یہ وہ شخص ھے جس نے ایک نماز نبی ﷺ کے پیچھے نہیں پڑھی مگر سیدھا جنت جا پہنچا !