میں وی روواں ، دل وی رووے تے اتھرو وگن قلم دے !!
میرا بڑا بیٹا جب ڈیڑھ دو سال کا تھا تو اسے بھی دیگر بچوں کی طرح پانی میں ھاتھ مارنے کا بہت شوق تھا ! صحن میں کیاری بنائی ھوئی تھی جس میں بھنڈیاں وغیرہ لگی ھوئی تھیں،جب اس میں پانی بھر جاتا تو یہ بےقرار ھو کر کیاری کے پاس جاتا ،آگے پیچھے دیکھتا ماں تو نہیں دیکھ رھی،تھوڑی دیر تو ایک ھاتھ مارتا اور پھر دونوں ھاتھ مارتا جس کے نتیجے میں اس کے کپڑے پانی سے بھِیگ جاتے ،، اب اس کی خوشی پہ غم غالب آ جاتا اور وہ دائیں بائیں سہمی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیتا ، جونہی اس کی ماں دیکھتی وہ آواز دیتی ” اوئے کیا کر رھے ھو؟ ” اب یہ اٹھ کر گولی کی طرح ماں کی طرف جاتا اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ کر کہتا ” امی امی ،، ماما مارتی ھے ؛؛ اس پر اس کی ماں تو خوش ھوتی کہ اس کی سیاست دیکھو ،مجھ سے میری ھی پناہ چاھتا ھے ! اور مجھے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا یاد آ جاتی ! اے اللہ میں تیرے غصے سے تیری خوشی میں پناہ چاھتا ھوں ! اور تیری سزا سے تیری معافی میں پناہ چاھتا ھوں ! اور میں تجھ سے تیری ھی پناہ چاھتا ھوں ! اللھم اعوذُ برضاک من سخطک ! و بمعافاتک من عقوبتک ! و اعوذ بک منک ! اب اس کی ماں کو تو مزہ آ گیا ،،وہ نہ روکنے والی باتوں پہ بھی ڈانٹنا شروع ھو گئ،، اور وہ اسی طرح دوڑ کے آتا ٹانگوں سے لپٹتا اور کہتا امی امی ،، ماما مارتی ھے ! بالکل اسی طرح اللہ پاک اپنے اور انسان کے رشتے کو محبت کے ضابطوں میں بیان کرتا ھے ،مگر لوگ ھیں کہ سمجھتے ھی نہیں،، وہ ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا ڈانٹتا بھی ھے تو بس اسی ادا کا مزہ لینے کے لئے کہ کوئی اس سے ڈر کر اسی کے قدموں سے لپٹ جائے،، شریعت پر عمل کرنے اسے اس کا کوئی فائدہ نہیں اور شریعت کی مخالفت سے اس کا کوئی نقصان نہیں ،، نیک کی نیکی اس کی ذات کے لئے ،اللہ کا کوئی بھلا نہیں اور بد کی برائی اس کی ذات کا نقصان ھے ،رب کا کوئی نقصان نہیں،، یہ جملے آپ کو قرآن میں جگہ جگہ ملیں گے،، نیک کی نیکی جب اسے اللہ سے بےنیاز کر دے اور وہ سمجھے کہ اس کے پاس اتنا کریڈٹ ھے کہ وہ بغیر اس کی نظرِ کرم کے حساب کے پلڑے جھکا کر جنت کی طرف چل پڑے گا تو پھر اس میں پلاسٹر آف پیرس کی اکڑ پیدا ھو جاتی ھے جس سے مجسمے بنتے ھیں وہ بندہ ایک چلتا پھرتا پلاسٹر آف پیرس کا مجسمہ ھوتا ھے،، شاعر نے کہا تھا !
بنـــــــــدہ بنا رکـھا ھے مجـھے احتیـــاج نے !
ھو جاؤں بے نیاز تو اب بھی خدا ھوں میں !!
آپ نے گاڑی صاف کرنے والا لیدر کلاتھ دیکھا ھو گا ! اس کے ڈبے پر ھدایات میں لکھا ھوتا ھے کہ اس کو تھوڑا گیلا رھنے دیا کریں ورنہ یہ اکڑ جائے گا،، بس انسان میں یہ تھوڑا سا گناہ اس کو گیلا رکھتا ھے ، اسے اکڑنے نہیں دیتا،، بنانے والا جانتا ھے کہ یہ تھوڑا سا خشک ھو جائے تو خدا بن جاتا ھے،،مادی طور پر بھی بے نیاز ھو جائے تو فرعون بن جاتا ھے اور روحانی طور پر بھی بے نیاز ھو جائے تو دوسروں سے جینے کا حق چھین لیتا ھے ! میں گناہ کرنے کا بالکل نہیں کہتا،، بس جو گناہ کیئے ھیں انہیں یاد رکھنے کا کہتا ھوں !بار بار اس کی ٹانگوں سے لپٹنے کا کہتا ھوں،، جب بندہ اپنے گناہ سے خود ھی ڈر کر اس سے لپٹتا ھے تو وہ اس کو اپنی انا سے ضرب دے کر ریٹ لگاتا ھے،، سجدے تو ساری کائنات کر رھی ھے،، سورج ، چاند، ستارے،درخت ،پہاڑ ،زمین آسمان ،، حیوانات ،، سب کر رھے ھیں، الم تر ان اللہ یسجد لہ من فی السموات، ومن فی الارض، والشمس ،والقمر ،والنجوم ،والجبال ،والشجر والدوآب و کثیر من الناس ؟ بس گناہ ھم ھی کر رھے ھیں،، اور ھم ھی ٹانگوں سے لپٹ کر کہتے ھیں ،، و اعوذ بک منک،، اللہ اللہ میں تجھ سے تیری ھی پناہ چاھتا ھوں ! یہ منظر، یہ آنسو ، یہ سسکیاں ،یہ فریادیں،، عرش کو وجد میں مبتلا کر دیتی ھیں،، اور خالق کے مزے کے تو کہنے ھی کیا ؟ فرماتا ھے یہ توبہ کرنے والے اور رونے والے گناہگار نہ ھوں ،، زمیں فرشتوں سے بھی بھری ھو تو ختم کر کے وہ لاؤں جن سے غلطیاں ھوں،خطائیں ھوں ، وہ بھولیں اپنے باپ آدم کی طرح پھر روئیں اپنے آدم کی طرح،پھر میں انہیں معاف کروں ،،
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَرَسُولُ اللّهِ صلى الله عليه وسلم: "وَالّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللّهُ بِكُمْ، وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ، فَيَسْتَغْفِرُونَ اللّهَ، فَيَغْفِرُ لَهُمْ” (رواه مسلم). إن لله تعالى حكمة في إلقاء الغفلة على قلوب عباده أحياناً حتى تقعمنهم بعض الذنوب ، فإنه لو استمرت لهم اليقظة التي يكونون عليها في حال سماع الذكرلما وقع منهم ذنب .
اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمدﷺ کی جان ھے، اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تم سب کو لے جائے اور ایسے لوگ لے کر آئے جن سے گناہ سر زد ھوں پھر وہ معافیاں مانگیں اور وہ انہیں معاف کرے ! یہ غفلت کا مادہ کوئی ٹیکنیکل فالٹ نہیں ! یہ رب کی حکمت کے تابع ھے کہ اس نے ھماری میموری ری رائٹ ایبل رکھی ھے، ری چارج ایبل رکھی ھے،، کہ اس دنیا کے مصائب اور جن قیامتوں سے ھم نے گزرنا ھے وہ دیرپا نہ رھیں بلکہ وقت کے ساتھ محو ھو جائیں فیکس پیپر کی لکھائی کی ھو جائیں،،مگر اسی کے ساتھ ساری نصیحتیں، سارے درسِ قرآن ،سارے وعظ بھی صاٖف ھو جاتے ھیں اور بندہ غفلت میں مبتلا ھو جاتا ھے،اس غفلت کو ری سائیکل کرنے کا طریقہ یہ ھے کہ رب یاد آ جائے اور پھر بندہ اس کی طرف دوڑ پڑے اپنے باپ آدم علیہ السلام کی طرح اور رب اسے معاف کرے اور شیطان کو دنیا میں ھی آگ کا مزہ چکھا دے ! ایک حدیث قدسی میں ذکر ھے امام نووی نے انہیں اکٹھا کیا ھے،، کوئی پلاسٹر آف پیرس کسی لیدر کلاتھ کے پاس سے گزرتا اور اسے کسی برائی میں مبتلا دیکھتا تو اسے منع کرتا ،، آخر ایک دن اس نے اس گنہگار کو وھی گناہ کرتے دیکھا جس سے اس نے اسے گزرے کل میں منع کیا تھا،، اس نیک نے اس بدکار کو ڈانٹ کر کہا کہ اللہ کی قسم اللہ تجھے کبھی نہیں بخشے گا ،میں نے تجھے کل منع کیا تھا اور تو آج پھر وھی کرتوت کر رھا ھے ! اللہ کو غیرت آئی ،قیامت کا انتظار نہیں ، اسی وقت دونوں کی جان قبض کی،،گنہگار کی طرف متوجہ ھو کر فرمایا تـُو تو جا جنت میں اور پلاسٹر آف پیرس سے کہا تجھے کس چیز نے اس پر آمادہ کیا کہ تو مجھے اپنی قسم کا پابند کرے کہ میں اپنے بندے کو نہ بخشوں ؟ تو اٹھا اپنی نیکیاں اور ان سمیت جھنم کو سدھار ! بھائیو یہ جو نیکی کے پلاسٹر آف پیرس گنہگاروں کا قتلِ عام کر رھے ھیں ،ان کا کیا بنے گا ؟