لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ( البقرہ -177) ،، آیہ بر کہلاتی ھے جس میں نیکی کے مختلف شعبے بیان کیئے گئے ھیں کہ مجرد ایک شعبے میں غلو کر کے تم خود کو نیک نہیں کہہ سکتے اگرچہ اس میں 100٪ نمبر بھی حاصل کر لو ،، زندگی کے تمام شعبوں میں پاس ھونا ضروری ھے ،،
پھر اگلی آیت سے ھی وہ بساط بچھا دی جہاں اس نیکی یا تقوے کے فیصلے ھوتے ھیں اور ٹرافیاں بٹتی ھیں ،، قصاص و دیت ،، وصیت ، پھر روزے کو تقوی کشید کرنے کا Tool بیان کیا تو حج کے بارے میں فرمایا کہ تقوے کو ساتھ لے کر آنا کیونکہ ھم نے یہاں پوری دنیا سے نہایت نیک لوگ تمہارے امتحان کے لئے بلا رکھے ھیں اور تم ھو کہ پڑوس میں ھی فیل ھو کر بیٹھ جاتے ھو ، اس سرزمین کی فطرت میں برکت ھے جو لے کر آؤ گے بڑھا کر لے جاؤ گے ، تقوی لاؤ گے تو تقوی پاؤ گے ، فند فریب اور دغا بازی لے کر آؤ کے تو ایسی فراڈی بن کر جاؤ گے کہ تمہارا ثانی کوئی نہ ھو گا ،، جتنا بڑا امتحان حج ھے ویسا بڑا امتحان ازدواجی زندگی ھے حضرت ھاجرہ اسی امتحان میں مکہ ڈی پورٹ کی گئیں تھیں کہ قدرت ابراھیم علیہ السلام کی دو اولادوں کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ رکھنا چاھتی تھی کہ ضرورت کے وقت دوسری سلیم الفطرت اور سادہ طبیعت دستیاب رھے ،، حج کا احرام باندھ کر گھر سے نکل جانے والے کو گھر واپس آنا پڑ جائے تو وہ دروازے سے نہیں آتا تھا بلکہ دیوار پھلانگ کر آتا تھا ،کہا گیا کہ یہ کوئی نیکی نہیں ھے اور نہ اس طرح تم اوٹ پٹانگ حرکتوں سے دینداری ثابت کر سکتے ھو ،، ازدواجی معاملات کو بھی اللہ کی حدیں قرار دے کر ان پر چڑھائی کرنا ظلم قرار دیا گیا ،بار بار اپنے اور بندے کے تعلق کی حقیقت بیان کی ،،اس تعلق پہ نظر رکھو گے تو اللہ کی حدیں نہیں توڑو گے ،جج گھر نہیں بسا سکتے اور نہ کچہریاں محبت پیدا کر سکتی ھیں ،، اگر تمہیں دوسرے پارٹنر میں کوئی کمی نظر آتی ھے تو شاید اسی کمی کی آڑ میں اس کی کوئی بہت اھم خوبی پوشیدہ ھو ، سونا درختوں پہ نہیں لگتا سخت پتھریلی پہاڑی چٹانوں کی تہہ میں ھوتا ، میاں بیوی کے جنسی تعلق کو اس خوبی سے سر انجام دینا ھے کہ کل اللہ پاک کو منہ دکھانے کے قابل رھو ،، ” فأتوھن من حیث امرکم اللہ ،ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطھرین ،، ان پر وھاں سے آؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں حکم دیا ھے کہ بیج پودے کی صورت اختیار کرے نہ کہ مر جائے ،بیویاں تمہاری کھیتیاں ھیں جہاں سے تم نے اپنی دنیا اور اخرت کا سامان کرنا ھے اور صدقہ جاریہ اولاد کی صورت پانا ،، واتقوا اللہ واعلموا انکم ملاقوہ ،، اللہ کا تقوی اختیار کرو اور بخوبی جان لو کہ ایک دن تم نے اس سے ملاقات کرنی ھے ،، اگر یہ تعلق قائم نہیں رہ سکتا تو اس کو ختم بھی اللہ کی حدود کے مطابق کرنا چاھئے ،، طلاق اللہ کا قانون ھے کوئی گالی نہیں ھے کہ جو غصے کی حالت میں دے دی جائے ،، آپس میں تعلق توڑتے وقت احسان کو مت بھولو اور احسان یہ ھے کہ گویا تم اللہ کے سامنے سب کچھ کر رھے ھو ، جس طرح کوئی کسی کے سامنے اس کی حد نہیں توڑتا ،، کبھی کسی ٹریفک پولیس کی موجودگی میں کوئی نو انٹری سے داخل نہیں ھوتا ،،لوگ عموماً سمجھتے ھیں کہ بچے کو صرف دو سال تک دودھ پلانا جائز ھے اس کے بعد منع ھے ، ایسا بالکل نہیں ھے جب تک دودھ آ رھا بچے کا حق ھے کہ اس کو دودھ پلایا جائے ،، دو سال کی مدت طلاق کی صورت میں طے کی گئ ھے کہ طلاق کے بعد مطلقہ عورت سے دو سال تک دودھ پلوایا جا سکتا ھے اور دو سال کا ھی خرچہ اور کپڑے سابقہ شوھر کے ذمے ھیں ، اس سے زیادہ اگر وہ دودھ پلائے تو اپنا بچہ سمجھ کر بے شک پلائے سابقہ شوھر خرچے کا ذمہ دار نہیں رھے گا ،، ان دو سالوں میں وہ نیا شوھر کر بھی لے تب بھی دودھ کا خرچہ سابقہ شوھر کے ذمے رھے گا ۔ اگر شوھر کسی دوسری عورت کا دودھ پلانا چاھتا ھے تو وہ طریقہ بھی اختیار کر سکتا ھے ،، نہ تو بچے کی وجہ سے ماں کو اذیت دی جائے کہ اسے ملنے نہ دیا جائے اور نہ باپ کو تکلیف دی جائے کہ اسے بچے تک رسائی نہ دی جائے ، یہ بات ذھن میں رکھیو کہ جو کچھ تم کر رھے ھو اللہ اس کو دیکھ بھی رھا ھے ،، عورت عدت کے دوران چاھے وہ عدت طلاق کی ھو یا وفات کی اپنے رحم میں کسی نئ جان کی اطلاع کو مت چھپائے بلکہ اس کو واضح کرے،، طلاق کی عدت تین حیض اور وفات کی عدت چار ماہ دس دن ھے ، اس عدت کے دوران عورت سے سیدھا شادی کی بات کرنا درست نہیں ،، البتہ اشارے کنائے میں بات کی جا سکتی ھے کہ اللہ پاک کوئی سبیل پیدا فرما دے گا ،، نیا نکاح عدت کی مدت کے دوران نہیں ھو سکتا ،،،