داڑھی کو سنت ھی رھنے دیجئے ، دین کا ستون مت بنایئے !
خلیجی ممالک میں عرب ائمہ اور خطباء کی داڑھیاں نہ صرف مشت سے کم ھیں ، بلکہ کچھ کی تو بالکل بھی نہیں ھیں ، کچھ کی بس اتنی ساری ھیں کہ دور سے چیونٹیاں ھی نظر آتی ھیں ،کچھ کی صرف ھونٹ کے نیچے ھے تا کہ مرد لگے ، اور یہ سب یا بیشترجامعہ ازھرکے سند یافتہ علماء ھیں ، پاکستان سے آنے والے پہلے پہل بہت گھبراتے ھیں اور پوچھتے ھیں کہ کیا ایسے امام کے پیچھے نماز ھو جاتی ھے ؟ سب سے پہلی بات یہ کہ یہ بغیر داڑھی والا امام حکومت نے مقرر کیا ھے – اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بعد تیسری بڑی اتھارٹی سرکار ھے اور وھی الجماعۃ ھے ،، اللہ اور رسول ﷺ کا بغیر داڑھی والے کے پچھے نماز نہ ھونے کا کوئی حکم پیش نہیں کیا جا سکتا – رہ گیا استنباط کہ فاسق کے پیچھے نماز جائز نہیں تو جناب اللہ کے رسول ﷺ اس فتوے کو بھی نہیں مانتے ، وہ تو فرماتے ھیں کہ ھر اچھے اور برے نیک یا بد کے پیچھے نماز پڑھو ، پھر کیا فسق کا اطلاق صرف داڑھی مونڈھنے پر ھوتا ھے ؟ صاف صاف حرام کردہ باتوں کے مرتکب کے پیچھے نماز نہ ھونے کا فتوی کیوں نہیں دیا جاتا ؟ مثلاً غیبت ،چغلی ، کسی کے لقب رکھنا اور اس پہ جھوٹے الزام لگا ،، ماشاء اللہ یہ وہ کبیرہ گناہ ھیں جن میں ھمارے خطیبوں کا کوئی ثانی نہیں منبر پر بیٹھ کر نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی گونج میں چغلی ، غیبت اور گالی گلوچ ھوتی ھے ! داڑھی رکھنے کی فضیلت اپنی جگہ مگر نماز نہ ھونے کا فتوی زیادتی ھے – خاص کر نبئ کریم ﷺ کی حدیث کے بعد سوال کا تعلق بھی فضیلت کے ساتھ نہیں نماز نہ ھونے کے ساتھ ھے !
ابن عمرؓ اور دیگر صحابہؓ نے حجاج بن یوسف کے پیچھے نمازیں پڑھی ھیں جبکہ وہ شخص 100 ھزار علماء کا قاتل تھا جبکہ باقی جو لوگ اس نے قتل کرائے جن میں عبداللہ ابن زبیرؓ بھی تھے ان کا حساب ممکن نہیں کیونکہ اس کے حکم پر فجر کی نماز سے لے کر عصر تک حرم میں حاجیوں کا قتل عام جاری رھا یہانتک کہ ریت نے خون پینا بند کر دیا اور حجاج کے گھوڑے کے سم خون میں ڈوب گئے تو اس کی قسم پوری ھوئی اور قتلِ عام روکا گیا – اگر اس کے پیچھے نماز ھو سکتی ھے تو اپنی داڑھی مونڈنے والے کے پیچھے کیوں نہیں ھو سکتی ؟
نماز کا داڑھی کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں !
جس طرح داڑھی کا روزے سے کوئی لینا دینا نہیں !
جس طرح داڑھی کا زکوۃ اور حج کے ساتھ کوئی تعلق نہیں !
نہ کسی حدیث میں داڑھی کے ساتھ نماز پڑھنے اور بغیر داڑھی کے نماز پڑھنے کا کوئی فرق بیان کیا گیا ھے !
نماز میں ترجیح داڑھی کو نہیں قرآن کی قرأت کو ھے ، اگر ایک شخص بغیر داڑھی ھے ، پینٹ شرٹ پہنے ھوئے ھے ،، مگر وہ عرب ھے اور قرآن ٹھیک مطلوب آداب کے ساتھ پرھ سکتا ھے اور جو پڑھ رھا ھے اس کو سمجھ رھا ھے ،، تو وہ اس شخص سے زیادہ امام بننے کا حقدار ھے ،جس کی داڑھی تو ھے اور وہ شلوار قمیص پہنے ھوئے ھے مگر اس کی سورۃ فاتحہ بھی درست نہیں ،، اقراءھم ،، و اعلمھم ،، زیادہ قرآن جاننے والا اور زیادہ علم رکھنے والا نبئ کریم نے خود ترجیح دے کر بتا دیا ھے،، اس ترتیب میں داڑھی کو نہیں گھسایا جا سکتا ،، اس کا نمبر بعد میں ھے ، اگر قاری بھی ھے ، عالم بھی اور داڑھی والا بھی ھے تو اچھی بات ھے ،مگر داڑھی کا عبادت کے ھونے یا نہ ھونے سے کوئی تعلق نہیں ھے ،، قلب کا خلوص اللہ کو مطلوب ھے- داڑھی نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اور صحابہ رضوان اللہ علہھم اجمعین نے حضورﷺ کے اعلانِ نبوت سے پہلے رکھی تھی نہ کہ بعد میں اسلام سمجھ کر رکھی تھی ، مکے مدینے والے سارے بشمول ابوجھل ،ابولھب ،عتبہ ،شیبہ، ولید ، داڑھی والے تھے اور ظاھر ھے کہ انہوں نے یہ حضورﷺ کی سنت سمجھ کر نہیں رکھی تھی ،، داڑھی مرد کی زینت ھے ، وقار ھے ،خوبصورتی ھے ، اور اس علاقے کا رواج ھے جس پر بلا تفریقِ مذھب ، مشرک ،عیسائی ،یہودی اور مسلمان سب عمل پیرا تھے خدا را اس کو فرض مت کیجئے ،، جو جگہ ھے اسی جگہ رکھئے ،
اس پر ایک دوست کا یہ تبصرہ دلچسپ ھے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ختنے بھی اسلام سے پہلے کے تھے ، اسلام میں یہ حکم نہیں آیا تھا تو کیا ختنے کرنا بھی چھوڑ دیں ؟ گزارش ھے کہ مسلمان ھونے میں ختنے کا کوئی کردار نہیں اور نہ صحابہؓ نے فرانس اور اسپین تک ، مصر اور افریقہ تک جو علاقے فتح کیئے تھے وھاں کے عوام کے اجتماعی ختنے کرائے تھے ، مسلمان ھونے کے لئے شہادتین کی ضرورت ھے اور بغیر ختنے کے نماز و امامت بھی ھو جاتی ھے ، اپنے علماء سے فتوی لے لیجئے – ختنے کو سنت کہا گیا ھے مسلمانی کا فرض نہیں ، نیز بالغ پر ستر چھپانا فرض ھے اور سنت کے لئے فرض کو قربان نہیں کیا جا سکتا ،بالغ کا ختنہ ویسے ھی محمود نہیں ھے ، ھاں اپنا ختنہ خود کر سکتا ھے تو حضرت ابراھیم علیہ السلام کی طرح خود کر لے -(( چترال اور پارہ چنار والوں میں بہت سارے لوگوں کے ختنے نہیں ھیں اگرچہ بال بچے دار ھیں ، جو حج پر جاتے ھیں وہ یہاں ڈاکٹر صادق صاحب کے یہاں ختنے کرا کر جاتے ھیں ))
داڑھی تو میں نے اور میرے دونوں بچوں نے بھی حضورﷺ کی محبت میں رکھی ھے مگر اس داڑھی کا اتنا خناس ھمارے اندر نہیں ھے کہ ھم بغیر داڑھی والے کے پیچھے نماز نہ پڑھیں ، اگر وہ تارکِ سنت گردانا جائے تو بھی یہ اس کی ذاتی کمزوری ھے ،دیگر بڑی بڑی کمزوریوں کی طرح جو ھمارے سب کے اندر موجود ھیں،، عجیب سوچ ھے کہ داڑھی منڈھانے والے کے پیچھے نماز نہیں ھوتی یہ میرے نبیﷺ نے تو نہیں فرمایا بلکہ ارشاد فرمایا ھے کہ ” ھر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھو اور امام طحاوی نے عقیدۃ الطحاویہ میں لکھا ھے کہ ھمارے نزدیک ھر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ھے ،اور اس کے حق میں حدیث پیش کی ھے ،،
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ھے کہ جماعت کے ساتھ نماز تم پر واجب ھے ھر نیک و فاجر کے ساتھ اگرچہ وہ کبائر کا مرتکب ھو تب بھی ، اور جہاد بھی تم پر واجب ھے اگرچہ تمہارا امیرِ نیک ھو یا بد اگرچہ وہ کبائر کا مرتکب ھو تب بھی – امام بخاریؓ نے روایت کیا ھے کہ ابن عمرؓ اور حضرت انس بن مالکؓ دونوں حجاج کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے اگرچہ حجاج فاسق اور ظالم تھا – بخاریؒ میں ھی ھے کہ نبئ کریم ﷺ نے فرمایا کہ ھر مسلمان کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو، اگر وہ ٹھیک ھیں تو نماز تم دونوں کی ھو گئ،، اگر وہ بد ھیں تو تمہاری نماز ھو جائے گی اور ان کی بدی ان کی ذات کے ساتھ ھو گی – ابن عمرؓ کی روایت ھے کہ ھر لا الہ الا اللہ پڑھنے والے کے پیچھے نماز پڑھو اور اگر وہ مر جائے تو اس کی نماز جنازہ بھی پڑھو
شرح العقيدة الطحاوية/قوله ونرى الصلاة خلف كل بر وفاجر من أهل القبلة وعلى من مات منهم
شرح : قال : صلوا خلف كل بر وفاجر . رواه مكحول عن أبي هريرة رضي الله عنه ، وأخرجه الدارقطني ، قال : مكحول لم يلق أبا هريرة . وفي إسناده معاوية بن صالح ، متكلم فيه ، وقد احتج به مسلم في صحيحه . وخرج له الدارقطني أيضاً وأبو داود ، عن مكحول ، عن أبي هريرة رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله : الصلاة واجبة عليكم مع كل مسلم ، براً كان أو فاجراً ، وإن عمل بالكبائر، والجهاد واجب عليكم مع كل أمير ، براً كان أو فاجراً ، وإن عمل الكبائر . وفي صحيح البخاري : أن عبد الله بن عمر رضي الله عنه كان يصلي خلف الحجاج بن يوسف الثقفي ، وكذا أنس بن مالك ، وكان الحجاج فاسقاً ظالماً . وفي صحيحه أيضاً ، أن النبي قال : يصلون لكم ، فإن أصابوا فلكم ولهم ، وأن أخطأوا فلكم وعليهم . وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنه ، أن رسول الله قال : صلوا خلف من قال لا إله إلا الله ، وصلوا على من مات من أهل لا إله إلا الله،،،
اسلاف احناف کوئی اور چیز تھے اور آج کے احناف کوئی اور مخلوق ھیں، مدعی سست اور گواہ چست والے ،، ان میں سے کوئی یہ فتوی نہیں دے گا کہ ابھی ابھی تازہ تازہ لوگوں کے اربوں روپیہ حرام میں ھڑپ کر جانے والے مفتیوں کے پیچھے نماز جائز نہیں ،کیوںکہ بندے کی داڑھی ھو تو اسے سات خون معاف ھیں اور بغیر داڑھی والے کی نماز بھی معاف نہیں !