دل کیا بدلا دنیا بدلی ، بدل گئیں تقدیریں ،،
دل بھی انسان میں رکھی گئ عیجب دولت ھے ،،،،،،،،،،
لاکھ علم ھو مگر بات عمل میں تب آتی ھے جب دل میں اترتی ھے ،،،،،
اللہ اور رسولﷺ پر ایمان بھی جب تک زبان تک محدود ھو ، اللہ کے نبی ﷺ کے پیچھے پہلی صف میں تکبیرِ اولی کے ساتھ نمازیں پڑھنے سے بھی بندہ رئیس المنافقین ھی بنتا ھے ، مومن نہیں کہلاتا ،، زبان سے دل تک کا یہ ایک فٹ کا سفر بعض دفعہ بہت طویل ھو جاتا ھے اور کبھی بہت مختصر ،، جو چیز عبداللہ ابن ابئ کو 10 سال نصیب نہ ھوئی وہ جادوگروں کو بغیر وضو کے ایک سجدے میں مل گئ تھی کیونکہ وہ دل سے کیا گیا تھا ،، ان کے پاس سجدے کا وقت ھی نہیں تھا ،
نماز آتی ھے مجھ کو نہ وضو آتا ھے ،،
سجدہ کر لیتا ھوں جب سامنے تُو آتا ھے ،
انہیں اپنے دل میں بیٹھا سامنے نظر آ گیا تھا وہ حشر میں بھی دل کی نگاھوں سے ھی نظر آئے گا اور ان کو ھی نظر آئے گا جن کے دل میں ھو گا ،، ھاتھ پاؤں کٹوا کر سسک سسک کر مر گئے مگر دل تک فرعون کو نہیں پہنچنے دیا ،،
قالوا لن نؤثرک علی ما جاءنا، کہنے لگے ہم تمہیں ہر گز اثرانداز نہ ہونے دیں گے اس پر جو آ گیا ہے ہمارے پاس بینات میں سے فاقض ما انت قاض، سو جو فیصلہ بھی تو کرنا چاھتا ہے کر لے ۔
پیالا الٹا رکھیں تو ٹیوب ویل کے نیچے بھی ساری زندگی نہیں بھرتا ، سیدھا رکھیں تو اے سی کے ڈرین کا قطرہ قطرہ پانی بھی اسے بھر دیتا ھے ،یہی حال دل کا ھے ،، دل کا رخ ھر وقت اللہ کی طرف رکھنا ایک فن ھے ،، دل کا جائزہ لیتے رھنا چاھئے جس طرح مرغی گھور گھور کر انڈوں کے رخ کا اندازہ کر کے ان کو الٹتی پلٹتی رھتی ھے ،،،
اقبال نے کہا تھا ،
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں خباب ،،
کاش تو اپنی حقیقت کو پہچان سکے اپنی ھستی کی وسعتوں کا اندازہ کر سکے کہ یہ آسمان جو تجھے بہت وسیع و عریض نظر آتا ھے ،یہ تیری ھستی کے سمندر میں ایک بلبلے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ،،
کسی انسان کے دل تک رسائی کسی انسان کے لئے بہت بڑی کامیابی ھے ،، یہ وہ دروازہ ھے کہ جو بس اندر سے کھولا جاتا ھے ، اور اس کی حرمت کا یہ حال ھے کہ خود خدا بھی زبردستی اس میں داخل نہیں ھوتا جب تک کہ صاحبِ دل اسے رب کے لئے نہ کھولے ،، لا اکراہ فی الدین اس کے باھر لٹکا کر رکھا گیا ھے ،کوئی اس کو توڑ کر اندر مت جائے ،میں اس کا خالق جب انتظار کر رھا ھوں کہ یہ کھولے تو میں اندر جاؤں تو تم اس کو توڑ کر کیسے داخل ھو سکتے ھو ؟ میں اس کی آخری سانس تک اس انتظار میں رھتا ھوں کہ شاید اب کھولے کہ اب کھولے ، میں بعض دفعہ اس کی معیشت تنگ کر دیتا ھوں کہ شاید اسی بہانے باھر نکلے اور مجھے دیکھ لے ، اور مجھے اندر لے جائے ،،،،
کسی کا کسی کے لئے دل کو کھول دینا دنیا کا بہت بڑااعزاز ھے اور کسی کے دل سے نکال دیا جانا ، آدم علیہ السلام کے جنت سے نکالے جانے سے بڑا حادثہ ھوتا ھے کاش کوئی اس کو سمجھ لے ،،
جب تک کوئی دل میں رھتا ھے اس کا عیب بھی ادا لگتا ھے اور جب دل سے نکل جائے تو ادا بھی زھر لگتی ھے ،، گھروں کے مسائل دلوں کے الجھنے سے پیدا ھوتے اور دلوں کے سلجھنے سے سلجھتے ھیں ،، انھا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور،، بصارت اندھی نہیں ھوتی بصیرت اندھی ھو جاتی ھے اور آنکھیں اندھی نہیں ھوتیں دل اندھے ھوتے ھیں جو سینوں میں ھیں ،، سینے کا روگ عمل میں کجی پیدا کرتا ھے اور علم جب تک دل میں داخل نہ ھو عمل نفاق کہلاتا ھے ،، پیٹرول کی ٹینکی فل ھو مگر فیول پمپ اسے جل کر توانائی بننے کے لئے کاربوریٹر یا کوائل تک نہ بھیجے تو بھری ٹینکی سے بھی عمل کی گاڑی نہیں چلتی ،، آج علم کی کمی نہیں ، عمل کی کمی ھے ،، کبھی علم دور دور تھا مگر عمل گھر گھر تھا ، آج علم گھر گھر ھے مگر عمل دور دور تک نہیں ھے ،، تاریخ میں ھر ھلاک شدہ قوم کے کتبے پر لکھا ھے کہ ” یہ قوم علم کی وجہ سے ھلاک نہیں ھوئی بلکہ عمل کی وجہ سے ھلاک ھوئی ھے ،، بینات اور علم ان تک حسبِ وعدہ ھم نے پہنچا دیا تھا مگر انہوں نے ایک دوسرے کی ضد میں اس پر عمل نہیں کیا ، ” الا من بعد ما جاء العلم بغیاً بینھم ،، الا من بعد ما جاءتھم البینات ،، وما ظلمناھم ولکن کانوا انفسھم یظلمون ،،،
ھم لوگ مسجد جاتے ھیں اور وھیں اس کے قدموں کو چوم چاٹ کر واپس آ جاتے ھیں جس طرح لوگ اولڈ ھاؤسز میں اپنے والدین کو وزٹ کر کے آ جاتے ھیں مگر انہیں گھر لانا افورڈ نہیں کر سکتے کیونکہ ان کی وجہ سے گھر کی لائف ڈسٹرب ھوتی ھے ، بیوی بچے ایزی فیل نہیں کرتے ، ان کی روک ٹوک سے پریشان ھوتے ھیں ،کچھ اسی طرح خدا بس اپنے گھر میں ھی اچھا لگتا ھے ،ھم وھیں اس سے مل لیا کریں گے ، جبکہ وہ چاھتا ھے کہ کوئی اسے اپنے گھر لے جائے ،مگر خدا کو گھر لے جائیں تو سارا نظام درھم برھم ھو جائے گا ، خدا تو برداشت نہیں کرے گا کہ ھم گھر میں ظلم و زیادتی ، بے انصافی اور بد دیانتی کریں ،، وہ تو ٹوکے گا ،،ھم اسے دکان پر بھی نہیں لے جا سکتے وہ تو کم تولنے اور جھوٹ بولنے پر ضرور وعید سنا دے گا ،، خدا نہ دل میں ھو اور نہ گھر میں ھو تو پھر نہ دل میں سکون ھوتا ھے نہ گھروں میں سکون ھو گا ،،
قرآن ملکہ بلقیس کا قول دھراتا ھے کہ ” بادشاہ جب بستیوں میں داخل ھوتے ھیں تو ان کو تلپٹ کر دیتے ھیں ،، ان الملوک اذا دخلوا قریۃ افسدوھا و جعلوا اعزۃ اھلہا اذلۃ، جو اس کے عزت والے ھوتے ھیں ان کو ذلیل والے کر دیتے ھیں جو کل تک ٹاپ ٹین تھے وہ اگلے دن موسٹ وانٹیڈ لسٹ میں بھی ٹاپ پر ھوتے ھیں ،، جب بادشاھوں کا بادشاہ حقیقت میں کسی دل میں تجلی فرماتا ھے تو اس کو تلپٹ کر کے رکھ دیتا ھے،، جو ایک لمحہ پہلے سب سے زیادہ عزیز تھا وہ اس تجلی کے بعد غیر اھم ھو کر رہ جاتا ھے ،دیکھتے نہیں فرعون کے جادوگر کس طرح اس سے مول تول کر رھے تھے کہ اگر ھم جیت گئے تو ھمیں کیا ملے گا ،، أان لنا لاجراً ان کنا نحن الغالبین ؟ اور وہ بڑے فخر سے کہہ رھا تھا ” نعم ، و انکم اذاً لمن المقربین،، کیوں نہیں بالکل ملے گا اس کے علاوہ تم میری آنکھ کے تارے بھی بن جاؤ گے ،، جونہی انہوں نے محسوس کیا کہ موسی کا معجزہ جادو نہیں وہ ماھرینِ فن سمجھ گئے کہ یہ اللہ کا نمائندہ ھے جس نے لکڑی کو جیتے جاگتے حیوان میں تبدیل کر لیا ھے ،دل نے جب اس کے وجود کی گواھی دی تو اس نے جھٹ تجلی فرمائی جس نے ان جادوگروں کو سجدے میں گرا دیا ،پھر کیا ھوا ؟ دل کی بستی الٹ گئ دنیا تو دنیا ، جان بھی عزیز نہ رھی ،فرعون نے کہا آمنے سامنے کے ھاتھ پاؤں کاٹ کر کھجور کے تنوں سے سسک سسک کر مرنے کے لئے چھوڑ دونگا ،،جواب دیا ” لا ضیر ” ھمارا ذرا سا بھی نقصان نہیں ذرا سا بھی ضرر نہیں، اللہ کی چیز ھے اللہ کے کام آ جائے گی ، فاقضِ ما انت قاض ،، کر لے جو تو کر سکتا ھے ، انا الی ربنا منقلبون ،، تو ھمیں مار کر کس کے پاس بھیجے گا ؟ ھمارے رب کے پاس ناں ؟ اور ھم پہلے سے اس کو ملنے کے مشتاق ھیں ،،، اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اللہ حوصلے اور صبر کے دریا ھم پہ بہا دے کہ یہ تیرا دشمن ھماری کسی سسکی سے لطف اندوز نہ ھونے پائے ، اللہ پاک نے ان کو کجھور کے تنوں سے لٹکے ھوئے ان کی جنت ان کے سامنے لا رکھی ، اور وہ اس میں ایسے کھوئے کہ اپنی حالت سے بیگانہ ھو گئے ،،،،
سارا کھیل دل کا ھے
قاری حنیف ڈار بسلسلہ نشر مکرر،