اب یہ ضروری ھو گیا ھے کہ لوگوں کو معلوم ھو کہ ان کی بیٹیاں کس عذاب سے گزرتی ھیں اور کن وحشی درندوں کے سپرد کی جاتی ھیں ، اور وہ شادی کے بعد بچیوں کے ساتھ اس سلسلے میں رابطہ رکھیں اور فوری قدم اٹھائیں ،، یہ والدہ کی ذمہ داری ھے کہ اگر بچی اس سے کوئی شکایت کرتی ھے تو وہ معاملے کو دبانے کی بجائے لڑکے کی ماں کے ساتھ رابطہ کرے اور اگر معاملہ درست نہیں ھوتا تو پھر لڑکی کے والد کو بتا کر کوئی دوسرا رستہ اختیار کریں ،،
جو لوگ عورت اور اپنے منہ کو سیکس کے لئے استعمال کرتے ھیں پھر اسی سے نماز و قرآن بھی پڑھتے ھیں پھر نہایت ڈھیٹ بن کر کہتے ھیں کہ کوئی واضح آیت یا حدیث بتاؤ جس میں منع کیا گیا ھو ،،،،،،،،،،
شریعت خاموش نہیں ھے ،، کل آپ کہیں گے شریعت کتے کے بارے میں بھی خاموش ھے ،، شریعت نے صاف صاف کہہ دیا ھے ” فأتوھن من حیث امرکم اللہ ،عورت کے پاس وھاں سے آؤ جہاں سے اللہ نے حکم دیا ھے ۔۔ اب آپ ثابت کریں کہ اللہ نے منہ سے آنے کا حکم دیا ھے یا پیٹھ سے آنے کا حکم دیا ھے ، پھر صاف فرمایا ،عورت کے یہاں وھاں سے آؤ جو اس میں تمہارے لئے پیدا کی گئ ھے ” و تذرون ما خلق لکم ربکم من ازواجکم ” تم اس جگہ کو چھوڑ دیتے ھو جو اللہ نے تمہاری ازواج میں تمہارے لئے پیدا کی ھیں ؟ تو اللہ تو صاف صاف بتا رھا ،،اب انسان بے غیرت ھو جائے اور کہے کہ رسول وھاں انگلی رکھ کر اسے بتائے کہ جگہ کونسی ھے ؟
پہلی بات کہ اللہ پاک نے حکم دیا ھے کہ ” فأتوھن من حیث امرکم اللہ ” وھاں سے آؤ جہاں سے اللہ نے حکم دیا ھے ،،، اور اللہ نے حکم وھاں سے دیا ھے جہاں سے بیج اگتا ھے ،،
دوسری بات زبان ذکر کے لئے دی گئ ھے ،، پیشاب گاھیں چاٹنے کے لئے نہیں دی گئ ، اللہ کو امید تھی کہ انسان کو اپنے اور کتے میں فرق معلوم ھو گا ،، لوگ اپنی بچیاں انسان کے ساتھ بیاھتے ھیں کتوں کے ساتھ نہیں ،،،،،،،،،،،
تیسری بات یہ کہ ازدواجی معاملات میں نئ کریم ﷺ کا اسوہ موجود ھے کوئی اپنے نبی کے بارے میں اس حرکت کا گمان کر سکتا ھے ؟
چوتھی بات یہ کہ اب یہ گھناونا کھیل ایک وبا کی صورت اختیار کر چکا ھے ، اس کے نتیجے میں عورت اپنے شوھر کو کتا ھی سمجھتی ھے یوں جو مودت اور رحمت کا رشتہ تھا نفرت اور کراھیت کا رشتہ بن چکا ھے ،،
چوتھی بات یہ کہ اب وقت آ گیا ھے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اس کے بارے میں کوئی قانون وضع کرنے کی سفارش کرے ،،،
اللہ کے رسول ﷺ نے غیر فطری طریقے سے جماع کو حرام قرار دیا ھے اور فاعل پر لعنت فرمائی اور اس کے کفر کا فتوی دیا ھے ،،
فإنّ إتيان الزوجة في دبرها ( في موضع خروج الغائط ) كبيرة عظيمة من الكبائر سواء في وقت الحيض أو غيره ، وقد لعن النبي صلى الله عليه وسلم من فعل هذا فقال : ” ملعون من أتى امرأة في دبرها ” رواه الإمام أحمد 2/479 وهو في صحيح الجامع 5865 بل إن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ” من أتى حائضا أو امرأة في دبرها أو كاهنا فقد كفر بما أنزل على محمد ” رواه الترمذي برقم 1/243 وهو في صحيح الجامع 5918 . ورغم أن عددا من الزوجات من صاحبات الفطر السليمة يأبين ذلك إلا أن بعض الأزواج يهدد بالطلاق إن لم تطعه ، وبعضهم قد يخدع زوجته التي تستحي من سؤال أهل العلم فيوهمها بأن هذا العمل حلال ، وقد أخبر النبي صلى الله عليه وسلم أنه يجوز للزوج أن يأتي زوجته كيف شاء من الأمام والخلف ما دام في موضع الولد ولا يخفى أن الدبر ومكان الغائط ليس موضعا للولد .
ومن أسباب هذه الجريمة – عند البعض – الدخول إلى الحياة الزوجية النظيفة بموروثات جاهلية قذرة من ممارسات شاذة محرمة أو ذاكرة مليئة بلقطات من أفلام الفاحشة دون توبة إلى الله . ومن المعلوم أن هذا الفعل محرم حتى لو وافق الطرفان فإن التراضي على الحرام لا يصيره حلالا .
وقد ذكر العلامة شمس الدين ابن قيم الجوزية شيئا من الحكم في حرمة إتيان المرأة في دبرها في كتابه زاد المعاد فقال رحمه الله تعالى : وأما الدبر : فلم يبح قط على لسان نبي من الأنبياء ..
وإذا كان الله حرم الوطء في الفرج لأجل الأذى العارض ، فما الظن بالحُشّ الذي هو محل الأذى اللازم مع زيادة المفسدة بالتعرض لانقطاع النسل والذريعة القريبة جداً من أدبار النساء إلى أدبار الصبيان .
وأيضاً : فللمرأة حق على الزوج في الوطء ، ووطؤها في دبرها يفوّت حقها ، ولا يقضي وطرها ، ولا يُحصّل مقصودها .
وأيضا : فإن الدبر لم يتهيأ لهذا العمل ، ولم يخلق له ، وإنما الذي هيئ له الفرج ، فالعادلون عنه إلى الدبر خارجون عن حكمة الله وشرعه جميعاً .