غالب عربی کا لفظ ھے اور قرآن حکیم میں جب بھی اللہ پاک نے غلبے کی بات کی ھے تو سیدھا سیدھا لفظ غالب ھی استعمال فرمایا ھے ،، . (ﻓﺈن ﺣزب اﷲ ھم اﻟﻐﺎﻟﺑون)،، (قال الذين غلبوا على أمرهم لنتخذن عليهم مسجداً-)- (ومن يقاتل في سبيل الله فيقتل أو يغلب فسوف نؤتيه أجرا عظيما،)،، :(فَغُلِبُوا هُنَالِكَ وَانْقَلَبُوا صَاغِرِينَ )،،،،{وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ} ان تمام آیات میں اللہ پاک نے جب غلبے کی بات کی تو غالب کے لفظ کے ساتھ کی ،،
هو الذي أرسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله ولو كره المشركون ،، میں اگر اللہ پاک کا مطلب غالب کر دے دین کو سب ادیان پر تھا ،،،،، تو لفظ غالب کیوں استعمال نہیں کیا ؟
اظہار کا مطلب وھی ھے جو ھماری اردو میں اظھار کرنا ھے ،، سورہ کہف میں فرمایا انھم ان یظھروا علیکم ،، اگر تم ان پر ظاھر ھو گئے ، تو وہ تمہیں رجم کر دیں گے ھے ،، اسی طرح آگے چل کر فرمایا کہ ” فلا تمارِ فیھم الا مرآءً ظاھراً،، ان سے بس ظاھری طور پر ھی اس موضوع پہ گفتگو کریں خاص دلچسپی دکھانے کی ضرورت نہیں،، اسی طرح آیتِ اظھار کا مطلب ھے دین کو دیگر ادیان کے مقابلے میں لا کر ظاھر کر دینا ،، اور لوگوں پر اتمام حجت کر دینا کل کلاں کوئی یہ نہ کہے کہ ھم تو حق اختیار کرنا چاھتے تھے مگر حق دستیاب ھی نہیں تھا ،،،،،
اب غالب کرنا کچھ یوں ھمارے دماغ میں پھنس گیا ھے کہ ھر بندہ اس کو دوسروں پر غالب کرنے کے چکر میں ھے ،، شوھر خود جیسا بھی ھو دین کو بیوی پر غالب کرنا چاھتا ھے ،، باپ خود جیسا بھی ھو اولاد پر غالب کرنا چاھتا ھے ،، مولوی صاحب خود جیسے بھی ھوں مقتدیوں پر غالب کرنا چاھتے ھیں ، اور عوام خود جیسے بھی چور اچکے ھوں حکومت پر غالب کرنا چاھتے ھیں کہ جب تک حکومت میں اسلام نہیں آئے گا تب تک ھمارا فرض ادا نہیں ھو گا ،، جبکہ اسلام فرد سے شروع ھوا ھے ،تنِ تنہا کوہِ صفا پر کھڑے ایک فرد ﷺ سے ،، پھر کاررواں بنتا گیا ،، جب لوگ صالح ھونگے تو ان کی پسند بھی صالح ھو جائے گی ،، اور انتخاب بھی صالح کا کریں گے ،،